پاکستان مدینہ منورہ کے بعد کرہ ئارض پر اسلام کے آفاقی و لا فانی نظریہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی پہلی مملکت خدا داد ہے، پاکستان کا قیام بلاشبہ بیسویں صدی کا عظیم معجزہ ہے، اس عطیہ ئ خداوندی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
قومیں اپنے نظریات کی بنا پر زندہ رہتی ہیں، اپنے اسلاف کے طے کردہ نشانات منزل کو گم کردینے اور اپنے نظریات کو فراموش کر بیٹھنے والوں کا وجود کائنات زیادہ دیربرداشت نہیں کرتی اور وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں۔ پاکستا ن اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم!قومی سوچ اور حب الوطنی کے جذ بات کو پروان چڑھانے میں 14 اگست کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اپنی آنے والی نسلوں کو قیام پاکستان کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداد کوایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک پاکستان اور پاکستان کے حصول کیلئے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جس خواب کی تعبیرحاصل کرنے کیلئے دن رات ایک کیا اور پھر برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا خون پیش کرکے جوزمین کاٹکڑاحاصل کیا تھا کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ کیا یہ وہی پاک سرزمین ہے جس کی سرحد پر پہنچتے ہی لٹے پٹے اور زخموں سے چور مہاجرین وارفتگی کے عالم میں زمین پر گر کر اسے چومتے اور اس کی مٹی کو مٹھیوں میں بھر کر اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے، اپنے معصوم بچوں کے نیزوں پر جھولتے لاشے اور اپنی عزتوں کو بچانے کیلئے دریاؤں اور کنوؤں میں چھلانگیں لگاتی بہنیں اوربیٹیاں اور اپنے نوجوان بیٹوں کے خاک اور خون میں تڑپتے لاشے دیکھنے کے بعدجن میں زندہ رہنے کی خواہش دم توڑ چکی تھی اب انہیں زندگی پیاری لگ رہی تھی اور وہ بے ساختہ پکار اٹھتے کہ ہم نے بہت کچھ کھو کر بھی سب کچھ پالیا ہے، پاکستان مل گیا ہے تو ہمیں اب اپنے پیاروں کے بچھڑنے، گھروں کے اُجڑنے اور بستیوں اور شہروں کے جلنے کا کوئی غم نہیں۔
پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا بلکہ قائد اعظمؒ کے فرمان کے مطابق ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں"۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے114 خطابات اور تقریروں میں واشگاف الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا؟ توانہوں نے فرمایاکہ"ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں، ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا"۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ"ہم پاکستان محض ایک خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرناچاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپناسکیں"۔
جب تک قوم بانیئ پاکستان حضرت قائد اعظم کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر لیتی، قیام پاکستان کا مقصد ادھورا رہے گا۔ آج پاکستان کی خود مختاری، آزادی اور سا لمیت پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، قوم آزادی اور خود مختاری کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا ہے۔ محض ایک ارب ڈالر قرض کے حصول کیلئے ذلت آمیز شرائط تسلیم کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی گئی۔
پورا مالیاتی نظام اور اسٹیٹ بنک آئی ایم ایف کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے۔ پہلے حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضے کی قسط کیلئے مذاکرات ہوتے تھے اب دونوں طرف سے آئی ایم ایف کے ملازمین فیصلہ کرتے ہیں کہ قسط جاری کی جائے گی یا نہیں۔ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی طرف سے بار بار پاکستان کے سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرنے کی باتیں کرکے قوم کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔
دستور پاکستان میں عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ پسماندہ اور محروم طبقوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، عام آدمی کے جائز مفادات کا تحفظ، ہر شہری کی فلاح و بہبود اور ہر قسم کے استحصال کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ریاست سے وفاداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک پر انگریز کا پروردہ وہی جاگیر دار طبقہ اقتدار پر قابض ہوگیا جس سے آزادی کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اسلامیان برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی۔
ملکی اقتدار پر مسلط اشرافیہ عوام کو غلام اور اپنا خدمت گزار بنا کر رکھنا چاہتی ہے، اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی وڈیرے اور جاگیر دار قانون کی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کی سیاست کا مرکز و محورہی اپنی ذات کو ہر قسم کی قانونی پابندیوں سے آزاد رکھنا ہے۔ ملک میں قانون کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک خود صاحب اقتدار طبقہ اس کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی بھی ریاست اس وقت تک جمہوری کہلانے کی حق دار نہیں جب تک کہ جمہور کی مرضی کو فائق نہیں سمجھا جاتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کیلئے ہمیں اس کے بنیادی مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور ملکی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود اسی بنیاد سے وابستہ ہے۔
ایک طرف قوم کی آنکھوں میں بسا ہواوہ خواب ہے جس کو پون صدی سے تعبیر نہیں مل سکی اوردوسری طرف سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں، جن میں بڑے بڑے مجرموں نے پناہ لے رکھی ہے۔ جس جمہور اور جمہوریت نے پاکستان بنایا تھا وہ جمہوریت بچہ جمورا بن چکی ہے اور جمہورکی کوئی سننے والا نہیں۔ مارشل لاء اور ڈکٹیٹر شپ نے ملک و قوم کے 76 سال ضائع کردیئے ہیں، عوام کی حکمرانی کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوسکا اور آمریت کے سائے میں پلنے والی جمہوریت نے بھی ہمیشہ عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے۔ خاندانی اور موروثی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت مسلط کی۔
یہ سیاسی پارٹیاں نہیں، کلب ہیں جہاں وڈیروں اور جاگیرداروں نے پناہ لے رکھی ہے۔ ان لٹیروں نے عوامی اور قومی خدمت کی بجائے قومی وسائل لوٹ کر بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں۔ ملک سے کھربوں ڈالرز لوٹ کر سوئس بنکوں میں منتقل دیئے گئے ہیں، ہم نے اس کرپشن کے خلاف پارلیمنٹ، عدالت عالیہ اور عوام میں آواز بلند کی اورسب کے احتساب کا مطالبہ کیا حقیقت یہ ہے کہ آج تک حکمرانی کرنے والوں کی اکثریت کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث پائی گئی۔ وہی لوگ اب پی ٹی آئی میں جمع ہوکر اپنی کرپشن بچانے اور لوٹ کا مال ہضم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان مکمل نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کی طرز پر قوم"تحریک تکمیل پاکستان" کا آغازکرے تاکہ نظریہئ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبو تاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنا یا جاسکے۔ کسی بھی مملکت کے نظام کو چلانے کیلئے آئین کی بالادستی اورقانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی عمل داری کے معاملہ میں 102 ملکوں میں سے 98 ویں نمبر پر ہے۔
قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن، غربت، جہالت، عدم توازن اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لئے اپنے حقوق سے محروم ہے انہیں اپنے حقوق کاادراک نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیر دار، وڈیر ے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیراور قومیت، لسانیت اور مسلکوں کے تعصبات کی بنیاد پرباہم دست و گریبان رکھنا چاہتے ہیں۔