جدت اور مسابقت نے دنیابھر کے اداروں اور کمپنیوں میں نئے رحجانات متعارف کروائے ہیں۔ تحقیق اور مستند ڈیٹا کی بدولت ہر ادارے اور کمپنی نے بہترین ہیومن ریسورس کے بل بوتے پر کامیابیوں کے نئے ریکارڈ بنارکھے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے باعث صدیوں سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا عمل انتہائی تیزی سے جاری ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود کوئی ادارہ یا کمپنی اپنے مسئلے کا تعین کرنے کے بعد چند دنوں میں اسکا قابل عمل حل تلاش کرلیتی ہے۔ ایسے جدت اور مسابقت کے عہدمیں عوام اورارض پاک کو دہائیوں سے درپیش چیلنجز کا حل ملنا تو درکنار، معاملات مزید خرابی کی جانب چل نکلے ہیں۔
وزیراعظم کی ہدایت پر سرکاری اداروں اور کمپنیوں کے مستقل اور اہل سربراہان کی تقرری کا عمل ڈیڑھ سال قبل شروع ہوا۔ وزیراعظم نے دو برس قبل ہدایت جاری کی تھی کہ نئے پاکستان میں ریٹائرڈ ملازمین کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ نئے پاکستان میں بہترین افراد کا چنا ؤکیا جائے گاتاکہ سالانہ اربوں روپے خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کو منافع بخش بنایا جاسکے۔ وزیراعظم گزشتہ ایک سال سے وفاقی کابینہ کے ہر اجلاس میں گزرے اجلاسوں کے فیصلوں پر عملدرآمد رپورٹ طلب کرتے ہیں تو ایڈہاک تقرریوں کی طویل لسٹ سامنے آجاتی ہے۔ وزیراعظم برہمی کا اظہار کرتے ہوئے احکامات صادر فرمادیتے ہیں کہ آئندہ ماہ تک خالی عہدوں پر مستقل تعیناتیاں کی جائیں اوریوں انوکھے لاڈلوں کو کھیلن کی مزید مہلت مل جاتی ہے۔ انوکھے لاڈلوں کاطریقہ واردات بھی جان لیجئے۔ اپنے دفاتر اور ماتحت کمپنیوں میں رشتے داروں اور من پسند افراد کی بھرمارکررکھی ہے۔ ایک سرکاری گاڑی رکھنے کا حامل افسر بیک وقت سات سے دس سرکاری گاڑیوں پر قابض ہے۔ سالانہ اربوں ڈ الر کے امور کو ڈیل کرنے والے ٹیکنیکل عہدوں پرتعینات مستقل افسران کو غیرمتعلقہ سیکشن میں بھیج کر اپنے پیاروں کو بیٹھادیا گیاہے۔ پیاروں نے سب کی چونچیں گیلی کرنے کیلئے تیسری کمپنی سے رنگ بازی کے ماہر افسران مستعار لے کر مغلیہ دور کو زندہ کر رکھا ہے۔ نہلے پے دہلا یہ کہ اس کھیل کے دوران ماہر اور دیانت دار افسران روزانہ اپناخون جلاکر گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان پاکستان میں سیاحت کے ذریعے اربوں ڈالر پاکستان لانا چاہتے تھے لہٰذا وزیراعظم نے سیاحوں کیلئے پاکستان کو پرکشش بنانے کیلئے ملکی ائیرپورٹس کی حالت بہتر بنانے کی ٹھان لی۔ فیصلہ ہوا کہ ائیرپورٹس چلانا سول ایوی ایشن اتھارٹی کے بس کی بات نہیں۔ ائیرپورٹس کاکمرشل آپریشن عالمی تجربہ رکھنے والی کمپنی کے سپرد کرنا ہوگا۔ عملی قدم اٹھایا گیاتو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے افسران رکاوٹ بننے لگے کیونکہ ڈائریکٹرجنرل سول ایوی ایشن کا عہدہ کئی ماہ سے خالی تھا۔ اس عہدے پر ایڈہاک بنیادوں پر تقرر ہونیوالا افسرکوئی بھی بولڈ سٹیپ لینے کو تیار نہیں تھا۔ وزیراعظم نے مستقل ڈائریکٹرجنرل کی تعیناتی کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے بھی قائمقام ڈی جی سول ایوی ایشن کی سرزنش کی۔ ظاہرہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو گروپ کاافسر جدت اور مسابقت کے دور میں ائیرپورٹس کو ٹرن ارؤنڈ کرنے کی صلاحیت کہاں سے لاسکتا ہے؟ وزیراعظم نے مستقل ڈی جی کی تعیناتی کا حکم دیا تو اشتہار دیدیا گیا۔ درخواستیں طلب کی گئیں اور پھر سارا عمل منسوخ کرکے نیا اشتہارجاری کردیا گیا۔ دوبارہ درخواستیں طلب کی گئیں۔ وزیراعظم نے جب بھی پوچھا تولاڈلوں نے جواب دیا کہ بھرتی کا عمل جاری ہے۔ دوسال گزرنے کے بعد قائمقام ڈی جی سول ایوی ایشن کی مدت ملازمت میں مزید تین ماہ کی توسیع کے بعدمستقل ڈی جی کی تعیناتی کا عمل سرے سے ختم کردیا گیاہے۔ وزیراعظم کوسمجھایا گیا ہے کہ ایوی ایشن کے شعبے میں جس انقلاب کے آپ خواہشمند ہیں، اسے حقیقت کا روپ دینے کیلئے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو دوحصوں میں تقسیم کرکے دو الگ ڈائریکٹر جنرلز تعینات کرنا ہوں گے۔ ان ڈائریکٹر جنرلز کی تعیناتی کیلئے ملکی وغیرملکی اخبارات میں دوبارہ اشتہار دینا ہو گا۔ اشتہار دینے کا عمل شروع کرنے سے قبل سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قانون میں پہلے ترمیم کرنا ہوگی۔
افسرشاہی نہیں کابینہ میں بھی انوکھے لاڈلے موجودہیں جنہیں کھیلن کو چاندہی نہیں چاندنی بھی میسر ہے۔ ان کی سرمستی سے غریب عوام کی جیبوں سے 500ارب روپے سے زائدنکل چکے۔ جن کی بدولت بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے والے معا ون خصوصی کومستعفی ہونا پڑا۔ کابینہ میں موجود انوکھے لاڈلوں کے سامنے بیشتر وزراء بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ایک لاڈلے نے وزارت دفاع کی تحریری مخالفت کے باوجود پورٹ قاسم پردوایل این جی ٹرمینلز تعمیر کرنے کی منظوری حاصل کرلی۔ وزارت دفاع نے ماضی کے ایک دلخراش واقعے کے باعث پورٹ قاسم پر ایل این جی ٹرمینلز تعمیر کرنے کی مخالفت کی تھی مگر وزیر موصوف نہ مانے۔ اب پتا چلا کہ ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کیلئے قائم کنسوریشم سے امریکی کمپنی نے علیحدگی اختیار کرلی، جس کے باعث ایل این جی ٹرمینل کا منصوبہ غیریقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا۔
ملکی و غیرملکی قرضوں کے وینٹی لیٹر پر سسکتی ملکی معیشت میں سرکاری کمپنیاں اور ادارے 800ارب روپے سے زائد سالانہ نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود 70سے زائد کمپنیوں اور اداروں میں مستقل ماہر افراد کی تقرری کے بجائے انوکھے لاڈلے مغلیہ خاندان کی یاد تازہ کرنے میں مشغول ہیں۔ دنیا جدت اورمسابقت کے دورمیں ناممکنات کو ممکنات میں ڈھال کر نئی مناز ل طے کررہی ہے، ایسے میں انوکھے لاڈلے اپنے کھیل سے عوام ہی نہیں حکومت کیلئے بھی مصائب کا ہمالیہ کھڑاکرنے میں مگن ہیں۔ ریاست مدینہ کے دعویدار خان صاحب اپنی تقاریر میں برملاا ظہار کرتے ہیں کہ مافیاز ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ کیا انوکھے لاڈلے وہی مافیاز تو نہیں؟