قومی اسمبلی کے اجلاس میں خواجہ آصف کے لب ولہجے اور گزشتہ ہفتے خلاف توقع ٹیلی فونک روابط نے اہم حکومتی شخصیات کو چوکنا کردیا ہے۔ وفاقی حکومت اپوزیشن کے خوف سے بے نیا ز، کورونا وائرس اورٹڈی دل کی تباہ کاریوں سے نمٹنے، ـاحتسابی عمل اور نئے ریلیف پیکج کی تیاری میں مشغول تھی۔ جہانگیر ترین کا پنجاب اور وفاق میں ممکنہ سیاسی حملے کا خطرہ ٹل چکا تھا۔ وزیراعظم نے بجٹ سیشن میں ناراض عناصرکو رام کرنے کا بیڑاقابل اعتماد معاون خصوصی کو سونپ دیا تھا۔ وزیراعظم اور انکی ٹیم یکسوئی کیساتھ ملک اور عوا م کو درپیش چیلنج سے نمٹنے میں مصروف تھی مگر مشکلات ہیں کہ ختم ہونے کی بجائے ہرگزرتے دن کیساتھ بڑھ رہی ہیں۔ مشکلات کیوں بڑھ رہی ہیں، اس کیلئے دوکیس سٹڈیز کا جائزہ لینا ضروری ہے: وزیراعظم نے یکم جون سے پٹرول کی قیمت 7روپے فی لیٹر کم کرنے کی منظوری دی جس کے نتیجے میں پاکستان میں پٹرول ایشیائی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ سستا ہوگیا۔ امید ظاہر کی گئی کہ جون کے مہینے میں عوام کومجموعی طورپر 15ارب روپے کا ریلیف ملے گا۔ مگر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پی ایس او کے علاوہ تمام کمپنیوں نے گٹھ جوڑ کرلیا۔ پٹرولیم ڈویژن میں موجود افسران کیساتھ مبینہ ملی بھگت کرکے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریوں نے سپلائی محدود کردی۔ عوام پٹرول وڈیزل کے حصول کیلئے دربدر ٹھوکریں کھانے لگے۔
8 جون تک وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر، وفاقی سیکرٹری پٹرولیم اسد احیاء الدین، ایکٹنگ ڈی جی آئل ڈاکٹر شفیع آفریدی اور اوگرالمبی تان کر سوتے رہے۔ 8جون کو وزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی اور انکوائری کا حکم دیا۔ انکوائری ہوئی تو پتا چلا کہ ملک کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پارکو اوراسکی شراکت دارپاکستان کی دوسری بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنی ٹوٹل پارکو بھی دیگر کمپنیوں کی طرح پٹرول اور ڈیزل کی مطلوبہ سپلائی نہ کرنے میں ملوث ہے۔ یہ اقدام سراسر خلاف قانون تھا۔ حیران کن طور پر وفاقی سیکرٹری پٹرولیم اسداحیاء الدین پارکو آئل ریفائنری اور ٹوٹل پارکو آئل مارکیٹنگ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز کے چیئرمین ہیں۔ بیرون ملک بورڈ اجلاس میں بھرپور دلجمعی کیساتھ شرکت کرتے ہیں مگر پٹرول وڈیزل کی سپلائی روکنے اور ہائی آکٹین کی قیمت 50روپے فی لیٹر اضافی وصول کے خلاف کوئی کردار اداکرنا گوارا نہ کیا۔
اوگرا نے شیل پاکستان، ٹوٹل پارکو، اٹک پٹرولیم، گیس اینڈ آئل سمیت 6کمپنیوں کو چار کروڑ روپے جرمانہ کرکے عوام کو اربوں روپے کے ریلیف سے محروم کرنے والی کمپنیوں کے خلاف بڑا معرکہ مار لیا۔ وزیراعظم کو 3دنوں میں بحران ختم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی مگر 17جون تک پٹرولیم ڈویژن اپنی یقین دہانی کو درست ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انکوائری کے بعد ابتدائی رپورٹ وزیراعظم کوپیش کردی گئی ہے۔ دستاویز کے مطابق اوگرا نے مؤقف اختیا ر کیاکہ آئل مارکیٹنگ رولز 2016کے مطابق اوگرا صرف آئل سٹوریج انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کا لائسنس جاری کرنے کا مجاز ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کا 21دن کا سٹاک یقینی بنانا اور طلب کا تعین پٹرولیم ڈویژن کی ذمہ داری ہے۔ ڈی جی آئل کی سربراہی میں ہرماہ پٹرولیم مصنوعات کی طلب اور سپلائی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ڈاکٹرشفیع آفریدی آئل کے شعبے سے مکمل نابلد اور انکی تعیناتی وزیراعظم کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ حالیہ بحران پٹرولیم ڈویژن کی نااہلی کا منہ بولتاثبو ت ہے۔ ناکامی آخر کیوں نہ ہوتی جب آئل ریفائنریاں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں پٹرولیم ہاؤس میں ائیرکنڈیشنرز، لیپ ٹاپ، مہنگے موبائل فون، افسران کے گھروں پر گاڑیاں اور انکے عزیرواقارب کو بھاری تنخواہوں پر نوکریوں سے نوازیں گے توپھر کو ن اپنی مراعات کا خاتمہ چاہے گا۔ وزیراعظم نے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کردی ہے مگر پٹرولیم ڈویژن کے تمام ذمہ داران اپنے عہدوں پر بدستور موجود ہیں۔ خاکسار نے 4جون کے کالم میں وزیراعظم سمیت حکام بالا کی توجہ مبذول کروائی تھی کہ پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے نام پر کاروباری قوانین میں ترمیم کے ذریعے کرپشن میں ملوث افراد کو سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ ان ترامیم کے ذریعے سرکاری کمپنیوں میں وفاقی حکومت کی اکثریت شیئرہولڈنگ ہونے کے باوجود چیف ایگزیکٹو آفیسر کا تعیناتی کا اختیار بھی ختم کردیا گیا ہے۔ پاکستانی کمپنیوں میں کسی بھی غیر ملکی کو چاہئے وہ بھارتی ہو یا اسرائیلی شہری، بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرنے کی راہ ہموار کردی گئی۔ یہ ترامیم وزیراعظم کی اجازت کے بغیرصدارتی آرڈیننس کے ذریعے کروائی گئیں تھیں۔ وزیراعظم کو ان متنازع ترامیم کی وجہ سے شدید تنقید کاسامنا کرنا پڑا۔ بالآخر وزیراعظم نے سیکشن172اور186، 187کو ترمیمی قانون سے ختم کرنے کی ہدایت کردی جو یقینا اچھا اقدام ہے تاہم غیرملکیوں کو بورڈ میں شامل کرنے کی ترمیم قانون میں بدستور موجود ہے۔
دوسال پورے ہونے کو ہیں مگر بدقسمتی کیساتھ وفاقی وزارتوں اور کمپنیوں کا ہاؤس ان آرڈر نہیں تو دوسری جانب جہانگیر ترین پنجاب اور وفاق جبکہ مولانا فضل الرحمن خیبرپختونخوا میں اپنا کھیل شرو ع کرچکے ہیں۔ جہانگیر ترین نے پہلے مرحلے میں 19ارکان صوبائی وقومی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کی آڑ میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا ٹاسک سونپا۔ تین ارکان کی ناراضی وزیراعظم کے معاون خصوصی نے دور کردی جبکہ16کو رام کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی منظرنامے سے غائب مولانا فضل الرحمن خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کےالیکٹ بلز، کو اپنی جماعت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ حکومت کیلئے چیلنجز بڑھنے والے ہیں مگر سب سے زیادہ مشکلات کا منبع اقرباپروری او رایڈہاک ازم کا ناسورہے۔ اس زخم کو بھرنے کیلئے بلند وبانگ دعوؤں کے سوا عملی طور پر تاحال کچھ نہیں کیا جاسکا۔
میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں !