میرے بیٹے رحمت کے ہیرو سپائیڈر مین، سپرمین اور آئرن مین ہیں مگر میرا ہیرو صرف فیصل واوڈا ہے، جیتا جاگتا انسانی کردار جو مشکل میں آئی پوری قوم کو بحران سے نکالتا ہے، ملک کو خطرہ ہو تو وہ جان کا خطرہ مول لے کر بھی خطرے میں کود پڑتا ہے۔
مجھے بچپن ہی سے ناول، قصے اور طلسماتی کہانیاں پڑھنے کی لت ہے۔ ٹارزن، عمرو عیار اور نیڈ میرے خوابوں میں آیا کرتے تھے۔ نسیم حجازی کے ناولوں نے میرے آئیڈیلز کو جذبات کا تڑکا بھی لگا دیا۔ جوں جوں بڑا ہوتا گیا انتظار بڑھتا رہا میں سوچتا تھا کہ کب کوئی ہیرو آئے گا اور پاکستان کے معاملات کو چٹکی بجا کر حل کر دے گا، وقت گزرتا رہا، عمر ڈھلنے لگی تو مایوسی سر اٹھانے لگی کہ میں شاید یہ معجزہ اپنی جاگتی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکوں گا مگر پھر وہ ہوا جو شاعر نے برسوں پہلے ہی کہہ دیا تھا ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شکر، صد شکر قدرت کو پاکستان کی حالت پر رحم آیا اور فیصل واوڈا کی شکل میں تیس مار خان ہماری مدد کو بھیج دیا ہے جونہی پستول ہولسٹر میں لگائے کمانڈو کی وردی پہنے فیصل واوڈا چینی قونصل خانے پہنچے، دہشت گرد خوف سے اندھے ہو گئے ان کی بندوقیں اور آتشیں اسلحہ ناکارہ ہو گیا، اصل کارنامہ واوڈا کا ہے، پولیس نے تو نیم مردہ لوگوں کو مار کر تمغہ اور کریڈٹ لینے کی ناکام کوشش کی ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ فیصل واوڈا کے وہاں پہنچتے ہی دہشت گردوں کے ہوش اڑ گئے اور وہ ہار مان بیٹھے، باقی تو بس رسمی کارروائی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو چار سالوں سے مجھے عجیب و غریب خواب نظر آنے لگے تھے کبھی میں خواب میں دیکھتا کہ عربی گھوڑے پر سوار ایک خوبصورت گھڑ سوار تیزی سے جا رہا ہے، کبھی پہاڑوں کو عبور کرتا ہے اور کبھی دریائوں کو اڑ کر پار کرتا ہے، غور سے دیکھتا ہوں تو وہ عمران خان لگتا ہے۔ ایک دن خواب دیکھا کہ آگ کا الائو روشن ہے اور اس میں سے عمران خان ہنستا کھیلتا پھولوں کے ہار پہنے ہوئے برآمد ہوتا ہے، ایک اور دن خواب دیکھا کہ عمران خان تیر اندازی کر رہا ہے ماہر نشانے باز کی طرح ہر تیر نشانے پر لگ رہا ہے پھر ایک تیر گولی کی سی سرعت سے نکلتا ہے اور سیدھا بھارتی وزیراعظم مودی کے گھٹنے میں جا لگتا ہے، تیر لگتے ہی مودی کی آنکھ پھوٹ جاتی ہے اور اس میں سے خون نکلنے لگتا ہے۔ ان خوابوں کو دیکھ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میرے ملک کی قسمت عمران خان بدلے گا لیکن گزشتہ روز جب میں نے فیصل واوڈا کو کمانڈو وردی پہن کر چینی قونصل خانے کی طرف فاتحانہ بڑھتے دیکھا تو مجھے یاد آیا کہ میں جس کو عمران خان سمجھتا رہا تھا اصل میں، میرے خوابوں میں آنے والا، فیصل واوڈا تھا۔ عمران خان تو نظر کا دھوکہ تھا، اصل ہیرو فیصل واوڈا تھا۔ اچھا ہوا قدرت نے یہ راز ظاہر کر دیا وگرنہ میں نے تو مغالطے میں ہی مارا جانا تھا اور عمران خان ہی کو اصل ہیرو سمجھتے رہنا تھا۔
اہلِ پاکستان خوش نصیب ہیں کہ وہ میرے ہیرو واوڈا کے دور میں زندہ ہیں۔ یہ بھی میرے ہیرو ہی کا کمال ہے کہ اس کے دور میں عمران خان کو زمامِ اقتدار ملی ہے۔ میرا ہیرو خود پچھلی صفوں میں ہے کیونکہ اسے عہدوں اور طاقت کا لالچ نہیں اس نے خود ہی عمران خان کو آگے بڑھایا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ فیصل واوڈا ہی وہ تاریخی شخص ہے جس نے عمران خان کو دھرنے کا مشورہ دیا تھا اور جب پشاور اسکول پر حملہ ہوا تو واوڈا ہی وہ پہلا آدمی تھا جس نے دھرنا ختم کرنے کا اشارہ دیا اور تو اور یہ واوڈا ہی تھا جس نے اداروں کو متحدہ قومی موومنٹ کو پارہ پارہ کرنے کے مشورے دیئے جہاں کہیں ادارے کراچی آپریشن کے بارے میں کسی پریشانی کا شکار ہوتے، واوڈا سپرمین کی طرح اس بحران میں کود کر مسئلے کا حل نکالتا۔ واوڈا نے ہی الطاف حسین سے وہ تقریر کروائی جس سے قائد تحریک کا زوال شروع ہوا۔ واوڈا خود تو اپنے کارنامے کسی کو نہیں بتاتے لیکن ان کے میری طرح کے دیوانے یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اکثر لوگ واوڈا کے اصل مقام سے واقف نہیں۔ یورپ، امریکہ اور کئی دوسرے ممالک میں واوڈا کی جائیدادیں موجود ہیں جس سے ان ملکوں میں ان کے مقام اور مرتبہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ سنا یہ گیا ہے کہ یہ ساری جائیدادیں دنیا میں ان کے کارناموں کے سلسلے میں انہیں مختلف حکومتوں نے بطور انعام دی ہیں۔ میں چینی قونصل خانے میں فیصل واوڈا کے دلیرانہ داخلے کے صلے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ انہیں گورنر ہائوس کراچی بطور انعام دیدیا جائے۔ واوڈا صاحب ایک مہربان آدمی ہیں وہ فی الحال گورنر سندھ عمران اسماعیل کو گورنر ہائوس میں ہی رہنے دیں گے۔ حکومت پاکستان کا واوڈا جی کو یہ عطیہ ان کی عظیم خدمات کے مقابلے میں بہت حقیر ہے۔ انہوں نے جس طرح اپنی خوبصورت جان ہتھیلی پر رکھ کر چینی قونصل خانے کی طرف مارچ کیا اس کے صلے میں انہیں چاروں گورنر ہائوس اور ایوان صدر بھی الاٹ کر دیا جائے تو کم ہے۔ واوڈا جی کی یہ گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ وہ پراپرٹی ڈیلر اور اسٹیٹ ایجنٹ کی حیثیت سے ان جائیدادوں کی بہت حفاظت کریں گے اور انہیں بالکل اسی طرح چمکا کر رکھیں گے جیسے وہ اپنی ہیوی بائیکس اور قیمتی گاڑیاں چمکا کر رکھتے ہیں۔
میرے ہیرو واوڈا جی ذات کے گجراتی میمن ضرور ہیں مگر ان کا ہاتھ بہت کھلا ہے۔ سویلین وردی والے ہوں یا دوسرے، سب اس میمن گھرانے سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کی والدہ پنجاب سے ہیں کچھ اثر ان پر پنجاب کا بھی ہے۔ پنجاب میں پولیس والے فیصل آباد اور سیالکوٹ کی پوسٹنگ بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ فیصل آبادی اور سیالکوٹی بھائی پولیس والوں کی بلاوجہ خاطر مدارات کرتے ہیں۔ انہیں پولیس سے تعلق رکھنا اور شو کرنا اچھا لگتا ہے کچھ یہی حال میرے ہیرو واوڈا کے گھر کا ہے جہاں سے ہر ایک کو چھپر پھاڑ کر ملتا ہے کیونکہ واوڈا جی کو بھی خدا نے چھپر پھاڑ کر ہی دیا ہے۔
واوڈا جی کو آپ آج کا جیمز بانڈ کہیے یا کوئی ما فوق الفطرت مسیحا، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ واوڈا جی کو ان کے مقام کے مطابق وزارت نہیں ملی، واٹر ریسورسز کا وزیر تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ واوڈا جی اتنے بڑے اور عظیم آدمی ہیں کہ وہ نہ تو وزیر اعظم کے خلاف حرفِ شکایت زبان پر لائیں گے اور نہ ہی اپنی وزارت بدلنے کے بارے میں عمران خان سے بات کریں گے تاہم ان کے ایک ادنیٰ مداح کی حیثیت سے میرا وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ ہے کہ فوری طور پر فیصل واوڈا کو وفاقی وزیر داخلہ بنایا جائے مجھے یقین ہے کہ جونہی وزیر اعظم یہ اعلان کریں گے دہشت گرد مارے خوف کے بلوں میں گھس جائیں گے۔ ملک میں امن و امان کا دور دورہ ہو گا، پولیس اور دیگر ادارے واوڈا جی کی سربراہی میں جرائم کی اس حد تک بیخ کنی کریں گے کہ جرائم سرے سے ہی ختم ہو جائیں گے۔ ویسے بھی وزارت داخلہ کا بوجھ عمران خان پر بہت زیادہ ہے وہ اتنے مصروف ہیں کہ اس اضافی بوجھ سے پوری طرح عہدہ برآ نہیں ہو سکتے یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کو حوصلہ ملا ہے کہ وہ کراچی آ کر دہشت پھیلائیں اگر یہ وزارت فیصل واوڈا کے سپرد ہوئی تو جس طرح سپرمین، سپائیڈر مین اور جیمز بانڈ ہر مشکل پر قابو پا لیتے ہیں فیصل واوڈا ان سے بہتر انداز میں کام کر لیں گے۔
کوئی جاہل اگر یہ سمجھے کہ فیصل واوڈا فلمی انداز میں دلیر ہے اصل میں ان کا دل چوہے کا ہے تو میں اس شخص سے کہوں گا کہ فیصل واوڈا کی چال میں جو جرأت مندی تھی ویسی جرأت مندی کسی اور کی چال میں نہیں دیکھی گئی اس لئے پوری قوم کو فیصل واوڈا کے منصہ شہود پر آنے اور ان کے کارناموں کا پتہ چلنے کے بعد انہیں قائد تحریک کی جگہ پر قائد ِتحرک قرار دینا چاہئے۔