میں کئی ہفتوں کے بعد بیرون ملک سے واپس آیا تو اپنے بہت سے دوستوں اور تجزیہ کاروں سے پوچھا نواز شریف خاموش کیوں ہیں؟ کسی نے کہا مصلحت ہے اور کسی نے کہا مصالحت اصل وجہ ہے۔ مزید تحقیق کی تو کچھ نے کہا کہ بیگم کلثوم کی موت کا صدمہ ہے، کسی نے کہا وجہ سیاسی ہے اور کسی نے توجیہہ پیش کی کہ بول کر کرنا بھی کیا ہے؟ آیئے! اس معاملے کو سمجھنے کے لئے مختلف وجوہات پر غور کرتے ہوئے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی وجہ تو واضح طور پر کلثوم نواز کی موت کا صدمہ ہے، جاتی امراء کے ذرائع نے بتایا ہے کہ میاں نواز شریف روزانہ کلثوم نواز کی قبر پر جاتے ہیں اور اکثر نماز مغرب بھی وہیں ادا کرتے ہیں، نواز شریف اور بیگم کلثوم کی طویل رفاقت میں دونوں ایک دوسرے کا نفسیاتی سہارا بھی تھے، گھر کے معاملات سے لیکر سیاست کی تہہ در تہہ گتھیوں کو آپس میں زیر بحث لایا جاتا تھا اور پھر اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ میاں نواز شریف کو دل ہی دل میں یہ احساسِ جرم بھی ہوکہ سیاست کی نیرنگی میں جب ان کے زندگی کے ساتھی کو ان کے ساتھ کی بہت زیادہ ضرورت تھی، وہ پاکستان میں جیل کی کوٹھڑی میں بند تھے، ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنی شریک حیات کی تنہائی اور تکلیف کا احساس بھی تنگ کرتا ہو، یہ بات بھی یاد آتی ہو کہ سیاست کی لڑائیوں میں کہیں ان سے اپنی خاندانی ذمہ داریوں میں کوئی جھول تو نہیں آگیا، کوئی بھول تو نہیں ہو گئی۔
دوسری وجہ بھی ذاتی ہو سکتی ہے کہ اس قدر بڑی لڑائی میں وہ ذرا رک کر اپنے ذاتی نقصان، اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کا جائزہ لے رہے ہوں، اپنے فیصلوں پر دوبارہ سے ٹھنڈے دل سے نظرثانی کر رہے ہوں۔ فلیگ شپ ریفرنس کیس میں میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر اور اپنے سابقہ مؤقف سے ہٹ کر نئی قانونی راہ اپنائی ہے۔ ظاہر ہے اس حوالے سے انہیں قانونی مشیروں نے ہی مشورہ دیا ہوگا جو انہوں نے مان لیا۔ تیسری وجہ سیاسی ہے انہیں علم ہے کہ فوری تبدیلی کے کوئی آثار نہیں، نئی حکومت بن چکی ہے اور اب کچھ عرصہ تو حکومت نے چلنا ہی چلنا ہے، ایسے میں کیوں اپنی توانائیوں کو ضائع کیا جائے، وہ تحریک انصاف حکومت کے نہ تو قاتل بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس کے قتل میں شریکِ کار۔ ان کے قریبی رفقاء کا خیال ہے کہ تحریک انصاف خود اپنے وزن سے ہی نیچے آگرے گی، کسی کو اسے گرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مسلم لیگ ن کے بہت سے رہنما یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ پی ٹی آئی سے حکومت چل نہیں رہی اور بہت جلد ہی متعدد بحران اس کی حکومت کو لپیٹ میں لے لیں گے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف اسٹرٹیجی وائز خاموش رہ کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے تو حکومت کو بہت موقع دیا، اس کے خلاف تحریک چلائی نہ دھرنا دیا۔ جیل اور سختیوں کے باوجود ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کی جماعت خود ہی لوگوں کی نظروں میں نااہل ثابت ہو جائے، البتہ وہ 2019ء کی آخری ششماہی میں مالی بحران آتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
چوتھی وجہ بھی سیاسی ہو سکتی ہے، مریم نواز کے جارحانہ بیانات پر بہت سے اداروں کو اعتراض تھا، میاں نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویے پر ہی مسلسل تحفظات کا اظہار کیا جاتا تھا۔ ایسے میں مریم نواز کی خاموشی اور میاں نواز شریف کی لمبی چپ یقینی طور پر ان کے خلاف کھلے بہت سے محاذوں کو سکون فراہم کر رہی ہوگی۔ کوئی مصلحت یا مصالحت کی بات نہ سہی مگر عناد کی جو آگ شعلہ بار نظر آرہی تھی وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑ رہی ہے، ظاہر ہے کہ اس آگ کی چنگاریاں اتنی جلدی ٹھنڈی نہیں ہوں گی مگر وہ جو پھونکنی سے آگ کو ہوا دے رہے تھے، اب انہیں اس کا موقع نہیں مل رہا ہو گا۔
ایک اور ممکنہ وجہ یا مفروضہ مصلحت یا مصالحت کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنا ہے۔ فرض کریں اس وجہ کو دلائل سے جانچیں تو نواز شریف کی مقدمات میں بھرپور دلچسپی، اپنے مؤقف میں قانون اور آئین کو سامنے رکھ کر تبدیل کرنا، سپریم کورٹ کا نظرثانی کی اپیل پر فوری فیصلہ کے بجائے لارجر بینچ بنانا یہ سب عوامل اس مفروضہ کی بنیاد ہیں۔
چھٹی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ Decriminalisation of Politics پروجیکٹ کا سارا فائدہ تحریک انصاف کو مل چکا ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو مسلسل ناک آئوٹ کیا جا رہا ہے، فرض کریں اگر یہ پروجیکٹ اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا، شریف خاندان اور زرداری خاندان کو سیاست سے دیس نکالا مل گیا تو پھر تحریک انصاف اور عمران بلاشرکت غیرے پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی اسٹیک ہولڈر بن جائیں گے۔
نواز شریف کی خاموشی میں چھپا یہ پیغام ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے جتنی سیاسی جگہ لینا تھی، وہ لے چکی اور اپوزیشن نے جتنا ہارنا تھا، ہار چکی۔ اب دوبارہ سے ریاست میں اپوزیشن کو وہ جگہ لینے کی کوشش کرنی چاہئے جو ماضی کے سال ڈیڑھ میں وہ کھو چکی ہے۔ دوسری طرف ریاست بھی یہ نہیں چاہے گی کہ تحریک انصاف ملک کی واحد سیاسی جماعت رہ جائے جس کی اپوزیشن ہی کوئی نہ ہو اور وہ کل کو من مانی پر اتر آئے۔ ایسا تجربہ ریاست کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
ساتویں ممکنہ وجہ شکست خوردگی اور مایوسی ہو سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما نواز شریف اور مریم کی خاموشی کو مایوسی کا شاخسانہ سمجھتے ہیں لیکن نواز شریف کی بلاناغہ عدالتوں میں حاضری مایوسی کے بجائے مقدمات کا بہادری سے مقابلہ کرنے کو ظاہر کرتا ہے، ہارے ہوتے تو قسمت کا فیصلہ سن کر ہمت ہار بیٹھتے مگر وہ ان فیصلوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ نہیں سمجھتے اسی لئے اس سے لڑے جا رہے ہیں۔
آٹھویں وجہ ان کی شخصیت اور ماضی کے فیصلوں کا مطالعہ کر کے پتا چلتی ہے۔ نواز شریف بظاہر سادہ اور بھولے بھالے لگتے ہیں لیکن وہ بہت گہرے آدمی ہیں، ان سے دل کی بات نکلوانا بہت مشکل ہے، وہ کسی بھی معاملے پر فوری فیصلہ نہیں کرتے، بہت سوچتے ہیں پھر کہیں جاکر فیصلہ کرتے ہیں، چینی فلاسفر سن زو کی فلاسفی کے مطابق خاموشی ہمیشہ سے ان کا ہتھیار رہا ہے، وہ اپنی خاموشی کو سیاسی حکمت کاری کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں، وہ بہت سارے ایشوز اور شخصیات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتے۔ اپنے آخری دورِ حکومت میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے اختلافات کی خبر کو انہوں نے ہوا تک لگنے نہیں دی۔ جدہ میں جلا وطنی کا معاہدہ انہوں نے مکمل اخفا میں رکھا اور کئی سال تک اسے چھپائے رکھنے میں کامیاب رہے۔ اب بھی ان کی خاموشی کے پیچھے حکمتِ عملی کا کوئی طوفان چھپا ہو سکتا ہے۔
یہ آٹھ وجوہات ہوں، ان میں سے کوئی ایک ہو یا پھر ان میں کوئی ایک بھی نہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس مرحلے میں شریف اور زرداری موجود رہیں گے یا فارغ ہو جائیں گے۔ فرض کریں فارغ ہو جائیں گے تو ان کی جگہ متبادل اپوزیشن کون ہو گی، یوں لگ رہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر نئی اپوزیشن تحریک انصاف کے اندر ہی سے پیدا کی جائے گی۔ تحریک انصاف میں سے پسندیدہ اور قابل لوگوں کو ہی اگلے ممکنہ سیٹ اَپ کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ دوسری طرف اگر شریف اور زرداری کسی نہ کسی طرح اس مشکل وقت کو ٹالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر دو تین سال میں جو کچھ کیا گیا وہ سب ہوا ہو جائے گا اور تبدیلی کی جن ہوائوں کا وعدہ کیا گیا تھا ان پر سے لوگوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اعتبار اٹھ جائے گا۔