یادش بخیر، سینیٹر رحمٰن ملک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عظمت کی بلندیوں کو چھورہے ہیں اب تو ایسے لگ رہا ہے کہ وہ پاکستان کو لگی تمام بیماریوں کے لئے اکسیر اعظم اور امرت دھارا لئے بیٹھے ہیں، انہیں موقع ملے تو وہ سب بیماریوں کا ایک ہی جھٹکے میں علاج کردیں۔ ایک وقت تھا کہ وہ ایف آئی اے میں تفتیش کار کے طور پر مشہور تھے بیگم شفیقہ ضیاء الحق اور محترمہ ناہید خان دونوں ان کے پروفیشنل رویے اور ایمانداری سے بہت متاثر تھیں۔ دہشت گردی کا زمانہ آیا تو وہ سیکورٹی ایکسپرٹ کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانے جانے لگے، دہشت گردی کا انسداد کیسے کرنا ہے؟ اس حوالے سے ان سے بہتر دنیا میں کسی کے پاس حکمت عملی نہیں تھی پھر وہ وفاقی وزیر داخلہ بنے تو چھلاوے کی طرح ہر اس جگہ پہنچتے رہے جہاں دہشت گردی کی واردات ہوتی تھی۔ غرضیکہ ملک بھر میں مثالی امن قائم کرکے انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوالیا، لیکن قوم ان کی صلاحیتوں سے اب بھی مکمل طور پر واقف نہیں۔ جب موقع آتا ہے تو ان کی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے آج کل پاکستان چونکہ معاشی بحران کا شکار ہے اس لئے جناب رحمٰن ملک نے اپنے تازہ ترین کالم میں عمران حکومت کو معاشی مشورے دیئے ہیں۔ ان مشوروں سے واضح طور پر ثابت ہوگیا ہے کہ سینیٹر رحمٰن ملک ہر فن مولا ہیں اور بڑے لوگوں کے قحط کے زمانے میں ایک سیاسی مدبر، سیکورٹی فلاسفر اور معاشی عبقری ہیں۔
گو دنیا بھر کے پڑھے لکھے لوگ، ان کی باقی صلاحیتوں کے پہلے ہی سے معترف تھے لیکن ان کے معاشی مشوروں نے تو عالمی مراکز میں ایک ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں انہیں اب امریکہ اور یورپ کے درمیان ہونے والی معاشی پیچیدگیوں پر بطور ماہر بلائے جانے کا امکان ہے۔ یہ بھی سنا گیا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان جو اقتصادی بحران ہے وہ بھی رحمٰن ملک چٹکی بجا کر حل کرنے میں قدرت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ان کی معاشی فکر کا اظہار انکشاف انگیز حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ تو سب کو ہی علم تھا کہ ان کی ذاتی معیشت اور سابق صدر زرداری کی خاندانی معیشت میں جناب رحمٰن ملک کی معاشی مہارت کا بھی تھوڑا بہت ہاتھ ہے۔ سینیٹر صاحب ہی وہ ذات گرامی ہیں جنہوں نے دنیا کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ سے عراق کی جنگ کے دوران تیل کا معاہدہ کیا تھا۔ ہم بے وقوف پاکستانی اس وقت بھی ان کی معاشی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بھانپ نہ سکے وگرنہ تب ہی سے معیشت کا شعبہ انہیں سونپ دیا جاتا تو ہمارا ملک کب کا معاشی بحران سے نکل چکا ہوتا اور جس طرح اور جس قدر رحمٰن ملک خود معاشی طور پر آزاد، خود مختار اور خوشحال ہیں ریاست پاکستان بھی ان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے آزاد، خود مختار اور خوشحال ہوچکی ہوتی۔
خیر سے ملک صاحب دی گریٹ کی معاشی صلاحیتوں سے بروقت فائدہ نہ اٹھانے کا جو نقصان ریاست پاکستان کو ہونا تھا اب ہوچکا مگر پنجابی کہاوت کے مطابق گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑتا اس لئے فوری طور پر ناکام وزیر خزانہ اسد عمر کو ہٹا کر معاشی عبقری رحمٰن ملک کو ان کی جگہ لایا جائے۔ اسد عمر صاحب کو نائب وزیر اعظم بنادیا جائے تاکہ وہ وزیر اعظم کے فلسفے کو عام کرنے کا اہم فریضہ سنبھال سکیں۔ جہاں تک رحمٰن ملک صاحب کی پیپلز پارٹی سے تعلق کی بات ہے تو اسے نظر انداز کرتے ہوئے ملکی مفاد میں انہیں پارٹی خطوط سے بالاتر ہو کر یہ ذمہ داری سونپی جائے اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے۔
اکثر نادان ملک صاحب دی گریٹ کو صرف دیدہ زیب کالے سوٹوں اور شوخ ٹائیوں کا دلدادہ سمجھتے ہیں، وہ ان کی مخفی صلاحیتوں اور کارناموں سے واقف ہی نہیں۔ ملک صاحب ہی وہ نام نامی ہیں جنہوں نے جنرل اسد درانی سے جرمنی میں وہ حلف نامہ دستخط کروایا جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے عسکری ادارے کی طرف سے سیاستدانوں میں پیسے بانٹے تھے ملک صاحب، دی گریٹ، وہ عظیم ہستی ہیں جو کراچی آپریشن کے دوران جنرل نصیر اللہ بابر کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے، رحمٰن ملک، دی گریٹ ہی وہ ذات گرامی ہیں جن کے اجویئر روڈ لندن والے گھر میں اے آر ڈی کے اجلاس ہوتے تھے اور ملک کی جمہوری تقدیر بدلنے کی منصوبہ بندی ہوتی تھی۔
رحمٰن ملک واقعی دی گریٹ ہیں، اپوزیشن تو ہمیشہ حکومت کو گرانے کے منصوبے بناتی ہے لیکن رحمٰن ملک نے وزیر اعظم عمران خان کو معاشی نصائح پر مبنی ایک خط تحریر کیا ہے جس میں ا نہوں نے غیر ملکی قرضے کا بوجھ اتارنے کے عملی طریقے بھی تجویز کیے ہیں، ملک صاحب نے اپنی خوابیدہ معاشی صلاحیتیں جگاتے ہوئے تجویز کیا ہے، قرضوں کا بوجھ تقسیم کرنے کے لئے پاکستانی بینکوں کا کنسورشیم بنایا جائے پھر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ چین ہمارے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ برداشت کرلے گا، بین الاقوامی شہرت یافتہ رحمٰن ملک نے یہ تجویز بھی کیا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا ایک الگ بینک بنایا جائے۔ اب آپ ہی بتائیں ایسے زریں مشورے رحمٰن ملک کے علاوہ کون دینے کی صلاحیت رکھتا ہوگا جس طرح سے ان تجاویز کو پڑھ کر ان کے گہرے معاشی مطالعے کا پتہ چلتا ہے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ان کی بین الاقوامی حالات وواقعات پر بھی وہ اتھارٹی کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، بہتر ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب، ملائیشیا اور چین کے دورے پر رحمٰن ملک کو ساتھ لے جائیں راستے میں ان کے قیمتی مشورے سنیں، اور وہاں ملک صاحب سے براہ راست ان ملکوں کی لیڈر شپ کو ملوائیں تاکہ انہیں پاکستان کے اس نابغہ روزگار کی صلاحیتوں کا علم ہوسکے مجھے یقین کامل ہے کہ اگر ایسا ہوجائے تو پاکستان کے سارے دلدر دور ہوجائیں، بیرونی قرضے اتر جائیں، ہرطرف ڈالروں اور ریالوں کی ریل پیل ہوجائے۔
پاکستانی قوم کو نوید ہو کہ ملک کے معاشی بحران کا حل سامنے آچکا اور اس معاشی کھیل کا مرد بحران سینیٹر رحمٰن ملک بھی میدان میں اتر چکا۔ اب بھی اگر حکومت اور ریاست اس بحران سے نہیں نکل سکتی یا ملک صاحب کی خدمات سے استفادہ نہیں کرتی تو یہ اپنی معاشی تباہی کی خود ذمہ دار ہوگی۔ جہاں تک ہمارا کام ہے تو ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔