ایک مسلمان ملک ہونے کے ناتے اور دنیائے اسلام میں اپنے بہت سے بھائی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود ہمیں اپنے زیادہ تر مقاصد کیلئے بیشتر مسلم ممالک کی طرف سے کبھی بھی حقیقی اور پُرخلوص حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کی خاطر پاکستان خود کو قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہے، لیکن وہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور دیگر نوازشات کے علاوہ انہیں ریاستی اعزازات سے بھی نواز رہے ہیں۔ ہمیں ان کی طرف سے محض مذمتی بیانات بھی سننے کو نہیں ملتے۔
دوسری جانب ترکی ہے جو ہماری تائید و حمایت کے حوالے سے ایک بالکل ہی مختلف مقام پر کھڑا ہے۔ سالہاسال سے ترکی پاکستان کے شانہ بشانہ ہے اور پاکستان کو ہر طرح کی امداد اور تعاون بالخصوص عالمی طاقت کے ایوانوں میں فراہم کر رہا ہے۔ درحقیقت یہ رشتہ الفاظ سے ماورا ہے۔ جن پاکستانیوں کو بحیرہ¿ روم کے ساتھ واقع اس ملک جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس امر کی تصدیق کریں گے کہ وہاں کس قدر محبت اور گرمجوشی سے ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ مجھے ذاتی طور پر ترکی میں بحیثیت پاکستانی ترکوں کی مہمان نوازی کا مشاہدہ ہوا ہے۔ وہاں آپ کو بہت زیادہ عزت و احترام دیا جاتا ہے، پاکستانیوں کا گرمجوش مسکراہٹ سے استقبال کیا جاتا ہے، ترک عوام انہیں بھائی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور انہیں بلامعاوضہ کافی یا مٹھائیاں پیش کرتے ہیں۔ ترکی کے ساتھ ہمارا یہ رشتہ ان تعلقات میں سے ایک ہے جن کی بنیاد باہمی عزت و احترام پر رکھی گئی ہے۔ دیگر ممالک کیلئے ہماری حیثیت زیادہ تر خدمتگار جیسی ہے اور ہم آقا و خدمتگار کے اس تعلق کی راہ پر احتیاط سے گامزن رہتے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے متعدد بار پاکستان کا دورہ کیا ہے اور ہر بار اس خطے کے حوالے سے پاکستان کے ایجنڈے کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ وہ واحد عالمی رہنما ہیں جو کشمیر کاز کی ببانگ دہل حمایت کےلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور بھارت کی طرف سے کشمیری عوام سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں پر اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کے حالیہ دورہ¿ پاکستان نے بھی بھارتی قیادت کی صفوں میں بے اطمینانی کی لہریں دوڑا دی ہیں کیونکہ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کشمیر پر رجب طیب اردگان کا نہایت واضح موقف محض علامتی نہیں بلکہ دونوں ممالک کی دوستی میں پنہاں نیک نیتی اور خلوص کا عکاس ہے۔ رجب طیب اردگان کا اسلام آباد میں بیان اتنا سخت تھا کہ بھارتی حکومت کو ترک صدر پر بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرنا پڑا۔ شاید اب بھارت کو ادراک ہو گیا ہے کہ جب دیگر ممالک مسئلہ کشمیر پر اس کی مذمت کرنا شروع ہو گئے ہیں تو یہ محض اس کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا بیانیہ یہ ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے لہٰذا عالمی برادری کو اس میں کسی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تناظر میں ترک صدر کا موقف غالباً اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی بدولت بھارت کے اس بیانیے کی نفی ہوتی ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف دو ممالک کے درمیان ایک علاقائی مسئلہ ہے۔
پاکستان طویل عرصے سے متمنی ہے کہ اسے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی حمایت حاصل ہو جائے اور ترک صدر کی حمایت اس تمنا کو تقویت پہنچاتی ہے۔ قبل ازیں رجب طیب اردگان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی مسئلہ کشمیر اٹھا چکے ہیں۔ کشمیری عوام کے خلاف بھارتی ظلم و جبر کی مسلسل مذمت سے اس خلوص اور فکر مندی کا اظہار ہوتا ہے جو ترکی ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کے لیے اپنے دل میں رکھتا ہے۔ ترکی کی حمایت مثالی ہے۔ یہ حمایت نہ صرف کشمیری عوام کی تحریک آزادی کے لیے بلکہ عمومی طور پر خود پاکستان کیلئے بھی ایک بہت بڑے سہارے کے مترادف ہے۔ ترکی کی حمایت کشمیر پر ہمارے موقف کی توثیق ہے۔ یہ عالم اسلام کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ہمیں حمایت فراہم کرنے کی ضرورت کا اعادہ کرتی ہے۔ کشمیر کے علاوہ ترکی نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاسوں میں بھی سرگرمی سے پاکستان کی حمایت کی ہے۔ ترکی افغانستان میں امن قائم کرنے کے سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کا بھی معترف ہے اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں عالمی برادری کے دیگر ممالک پاکستانی کردار کا کھلے دل سے اعتراف نہیں کر پائے۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان اس قریبی تعلق کی جڑیں تقسیم ہند سے قبل کے دور میں پیوست ہیں جب برصغیر کے مسلمان ترکی کی حمایت میں کھڑے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مصیبت انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے۔ یہ قول پاکستان اور ترکی کے معاملے میں بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ پریشان کن فوجی مداخلتوں اور طویل فوجی اقتدار جیسے مسائل نے انہیں ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا ہے۔ ترک صدر کی پاکستان میں معاشی سرمایہ کاری کو وسعت دینے کی خواہش کو خوش آمدید کہا جانا چاہئے جوہمیں معاشی مسائل سے نجات دلانے میں بڑی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ہمیں طویل عرصہ سے ترکی کی حمایت حاصل ہے تاہم پاکستان کی طرف سے کوالالمپور سربراہی اجلاس میں عدم شرکت کے باوجود اردگان کا بڑی سنجیدگی سے پاکستان کا دورہ کرنا اس پس پردہ مقصد کا عندیہ ہے کہ ایک نیا علاقائی بلاک معرض وجود میں آ رہا ہے۔ مذکورہ سربراہی اجلاس میں شریک نہ ہونے کا پاکستانی فیصلہ ترکی کے لیے ایک سفارتی دھچکا تھا مگر اس کے باوجود ترک صدر اپنے دورہ¿ پاکستان کے پروگرام پر ثابت قدم رہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترکی پاکستان کے ساتھ ایک طویل مدتی شراکت دیکھ رہا ہے اورایک نئی علاقائی قیادت منظر عام پر آنے والی ہے۔ ترکی کا ایک اپنا ایجنڈا ہونے کے باوجود وہ مشکل گھڑیوں میں ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ وہ ہماری حمایت میں اپنی آواز بلند کرنے سے کبھی نہیں ہچکچایا۔
جب تک پاکستان عالم اسلام میں خود اپنے لیے کوئی سٹینڈ نہیں لیتا تب تک وہ مسئلہ کشمیر پر حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو گا۔ نہ ہی وہ ایسے فیصلے کر پائے گا جو اس کے بنیادی مفادات کے لیے سودمند ہوں۔ دوسروں کے مفادات کا تحفظ کرتے کئی دہائیاں گزر گئی ہیں۔ اب پاکستان دوسروں کی خدمت کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب اسے بین الاقوامی اکھاڑے میں اپنی حیثیت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ محض بھائی چارے کے الفاظ اور ترکی سے حاصل شدہ حمایت کی متفقہ طور پر توثیق کافی نہیں ہے۔ ہمیں ایسے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے جن کے طفیل ہم خطے کی سیاست میں خود کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر منوا سکیں۔ یہ اقدامات ہمارے کھلے ذہن اور اپنی بہتری کیلئے خود فیصلے کرنے کے قابل ہونے کے عکاس ہونے چاہئیں چاہے یہ فیصلے دنیائے عرب کی خواہشات کے برعکس ہوں۔ امید کی جانی چاہئے کہ مستقبل میں ہماری فیصلہ سازی ڈالروں کی بھاری امداد کی بجائے ترک صدر کی طرف سے ہر موقع پر ہماری زوردار حمایت کو سامنے رکھ کر کیے جائیں گے۔ لاجواب ترک قوم کے لیے ہمارا یہی پیغام ہے کہ ہم بھائی بھائی ہیں۔