ایک ویب سائٹ نے نومولود انصافی جنید سلیم کے حوالے سے خبر دی کہ پنجاب میں ایک جج کی ریٹائرمنٹ پر الوداعی تقریب کے لئے ججز سے فی کس ساڑھے بارہ ہزار روپے لئے گئے۔ تقریب منعقد نہ ہوپائی تو جج صاحب نے کہا اکٹھی ہونے والی رقم انہیں دے دی جائے۔ عدالتی ذرائع نے اس کی تادم تحریر تردید نہیں کی اسی لئے یہ خبر پَر لگاکر اڑتی پھر رہی ہے۔
ایک انصافی پیج نے پوسٹ شیئر کی "ٹرمپ نے خان کے بیانیہ اور سٹائل کو کاپی کرکے الیکشن جیت لیا"۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا آفیشل پیج ہونے کے دعویدار ایک پیج پر پوسٹ شیئر ہوئی۔ "نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ میں نے عمران خان سے بہت کچھ سیکھا۔ اسلامی طرز اور آزاد پالیسی۔ وہ (عمران) صرف پاکستانیوں کا لیڈر نہیں میرا بھی لیڈر ہے"۔
پوسٹ کو لائق کرنے اور شیئر کرنے کی تعداد حیران کن ہے۔ یہ وہ مخلوق ہے جو اپنے لیڈر کے ہر مخالف کے لئے کم از کم ماں بہن کی گالی روا سمجھتی ہے ان کا دعویٰ ہے کہ اس وقت دنیا میں صرف ان کا لیڈر دیانتدار اور سچا ہے باقی سب چور اور لیٹرے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال اور پھر نمل کالج میانوالی کی چندوں سے تعمیر سے قبل عمران اور ان کی بہنوں کے مجموعی اثاثے کیا تھے اور آج کیا ہیں۔ 60 ارب سے زائد کے اثاثوں کی مالک تو صرف علیمہ خان ہیں۔
عمران کہتے ہیں کینسر ہسپتال بنانے کا خیال اس لئے آیا کہ ان کی والدہ محترمہ کینسر سے وفات پاگئی تھیں تب میرے پاس ان کے علاج کے لئے پیسے نہیں تھے۔ ان کے حامی اور دیوتا کی طرح پوجنے والا کلٹ شوکت خانم ہسپتال کو ایشیا بھر میں پہلا کینسر ہسپتال بتاتے ہیں اور اسے ہی ان کی کارکردگی کے طور پر پیش کرتے ہیں (حالانکہ پاکستان میں اس سے قبل بھی کینسر کے مریضوں کے علاج کیلئے ہسپتال موجود تھے جیسا کہ ایک لاہور کا انمول ہسپتال)۔
لاہور، پشاور اور کراچی میں قائم شوکت خانم ہسپتال ملک اور بیرون ملک سے حاصل کئے گئے چندوں سے تعمیر ہوئے بورڈ آف ڈائریکٹر میں سارا خاندان شامل ہے۔
لوگ کہتے ہیں سیاسی مخالفت میں عمران خان کی سماجی خدمات یعنی شوکت خانم ہسپتال وغیرہ پر بات نہیں ہونی چاہیے یہ بڑی عجیب منطق ہے۔ سیاست کے لئے تو شوکت خانم ہسپتال وغیرہ کی تعمیر کو بطور کارکردگی پیش کرنا عین ثواب اور ضروری ہے مگر تنقید کرتے وقت اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ اپریل 2022ء میں اس وقت کی حزب اختلاف نے ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کی تو ان (عمران خان) کا دعویٰ تھا امریکہ نے میری حکومت کے خاتمے کی سازش کی اور مقامی کردارروں نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا۔
بہت بعد میں ایک دن بولے نہیں میری حکومت جنرل باجوہ نے پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر گرائی ہے۔ ان کے حامی پی ڈی ایم اور موجودہ حکومتی اتحاد کو امریکی پٹھو قرار دیتے نہیں تھکتے لیکن خود ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اٹھتے بیٹھتے ٹرمپ کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
9 مئی 2023ء کے احتجاج کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت 25 سے 40 افراد کی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ اور تشدد سے ہلاکت کی دعویدار تھی ان افراد کے خاندانوں کی امداد کے لئے صرف امریکہ سے ساڑھے چھ لاکھ ڈالر چندہ اکٹھا ہوا وہ کیا ہوا؟ سوال کیجئے جواب ملے گا زرداری نواز وغیرہ سب چور ہیں۔ ارے بھائی ان چوروں کو چھوڑیں اپنی کہیں۔
دوسروں کو شخصیت پرست اور خاندانی غلام قرار دینے والوں کی اپنی ذہنی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ دو دن ادھر سے سوشل میڈیا پر قومی اسمبلی کی انصافی رکن شاندانہ گلزار کے حوالے سے ایک پوسٹ گردش کررہی ہے کہ "لندن میں سابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک نوجوان کے والد کو پاکستان میں اٹھالیا گیا اس کے جسم میں ڈرل مشین سے سوراخ کئے گئے وحشیانہ تشدد کیا گیا پھر جب اس نوجوان نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا ویڈیو بیان جاری کیا تو اس کے والد کو چھوڑا گیا"۔
نوجوان کون ہے نام کیا ہے والد کا نام کیا ہے کس شہر سے اٹھایا گیا؟ اس سوال پر لمبی خاموشی ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی شاندانہ گلزار ہیں جو قبل ازیں عمران خان پر نصف درجن قاتلانہ حملوں کا دعویٰ ٹھوک چکی ہیں۔
عمران خان پر سال 2022ء میں وزیر آباد کے قریب قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اس حملے میں کتنی گولیاں چلیں کتنے لوگوں کولگیں عمران اسماعیل کے کوٹ سے کتنی گولیاں زمین پر گریں اس پر بحث کی ضرورت نہیں حملے کےبعد کنٹینر سے عمران خان خود چل کر نیچے اترے راستے میں گوجرانوالہ کی ایک ویڈیو میں بھی ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے لاہور میں شوکت خانم ہسپتال پہنچ کر گولیوں سے ان کی ٹانگ متاثر ہوگئی۔
لگ بھگ چھ ماہ تک وہ ایک ٹانگ پر پلستر چڑھوائے ویل چیئر پر بیٹھے رہے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پولیس اور رینجر کے ہمراہ تیزی سے چلتے ہوئے گرفتاری کے لئے لائی گئی بکتر بند گاڑی میں سوار ہوگئے۔
عمران خان جن چوروں کے ساتھ آج ہاتھ ملانے پر تیار نہیں ان میں سے ایک پیپلزپارٹی کے ساتھ وہ نوازشریف کے بارہ اکتوبر 1999ء کو ختم ہونے والے دور میں بننے والے سیاسی اتحاد جی ڈی اے کا حصہ رہے۔ انہوں نے بعدازاں مشرف دور میں لندن میں میثاق جمہوریت کے لئے منعقدہ اے پی سی میں بھی شرکت کی اسی اے پی سی میں تجویز دی کہ سیاسی جماعتیں فیصلہ کریں کہ آئندہ کوئی سیاسی جماعت قاتلوں کے ٹولے ایم کیوایم (ان کے بقول) سے سیاسی اتحاد کرے گی نہ اسے اپنے ساتھ حکومت میں شامل کرے گی۔
پھر عمران خان نوازشریف کے ہمراہ اے پی ڈی ایم نامی اس اتحاد کا حصہ بھی بنے جس نے 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ نوازشریف زرداری کے کہنے پر بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے کر اے پی ڈی ایم سے الگ ہوگئے۔
2013ء سے 2018ء کے درمیانی برسوں میں ان کی جماعت تحریک انصاف پہلے قومی اسمبلی سے مستعفی ہوئی پھر تنخواہوں سمیت واپس آئی اگلے مرحلے میں قومی اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن کا حصہ بھی بنی۔
کوئی پوچھے تو چوروں کے ساتھ مختلف ادوار میں سیاسی اتحادوں میں کیوں شامل ہوئے؟
یہ بجا ہے کہ عمران خان اوران کی جماعت کے ساتھ کچھ زیادتی بھی ہورہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جتنی عدالتی سہولت کاری انہیں اور ان کی جماعت کو حاصل ہے ویسی سہولت کاری قبل ازیں میاں نوازشریف اوران کے خاندان کی بھی نہیں ہوئی جنہیں ایک لمبے عرصے تک عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے محبوب کا درجہ بھی حاصل رہا۔
ان کی جماعت کے سینکڑوں لوگ دو دو سال سے ضمانت قبل از گرفتاری لئے ہوئے ہیں سینکڑوں گرفتار بھی ہیں۔ گرفتار شدگان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ نہ ہونا بھی انصاف کا قتل ہے۔
عمران خان پاکستانی تاریخ کے واحد شخص ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے اپنا مہمان بناتے ہوئے ایک سرکاری گیسٹ ہائوس میں اس حکم کے ساتھ رکھا کہ ان کی جماعت کے لوگ اور دوست ان سے آزادانہ مل سکتے ہیں۔
ان کا اور ان کی جماعت کا موقف ہے کہ 2024ء میں انتخابی نتائج چرائے گئے۔ سر آنکھوں پر یہ دعویٰ لیکن پھر پی ٹی آئی خیبر پختونخوا سے کیسے جیت گئی؟ پی ٹی آئی والے اس جیت پر جو موقف اپناتے ہیں وہ موقف درست نہیں۔
ہاں البتہ ان کا یہ کہنا ہے کہ 2018ء میں وہ "خالص" جیتے تھے۔ ہماری رائے میں 2018ء اور 2024ء کے انتخابات کے نتائج دونوں مینج تھے۔ دعوے باتیں جھوٹ یہ سب اتنے ہیں کہ ان پر کئی جلدیں لکھی جاسکتی ہیں اندھی شخصیت پرستی کا جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے مگر غلام ابن غلام لوگ تو عمران کے مخالف ہیں۔
خیر چھوڑیئے آئیں آپ کو ایک صحافتی واردات سے آگاہ کرتے ہیں۔
سندھ حکومت نے گزشتہ دنوں ایک نام نہاد قومی اخبار کو 32 صفحات کا خصوصی ایڈیشن دیا۔ یہ ایڈیشن اخبار کے تمام طباعتی سٹیشنوں سے شائع ہوکر قائین کو اخبار کے ساتھ فراہم کیا جانا تھا۔ لاہور، ملتان، راولپنڈی، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں اس اخبار کے کتنے قارئین کو یہ خصوصی ایڈیشن اخبار کےساتھ ملا؟ کسی کو معلوم ہو تو اس تحریر نویس کو آگاہ کرکے شکرگزاری کا موقع دیجئے۔
آخری بات یہ ہے کہ میرے نزدیک 32 صفحات کا یہ خصوصی ایڈیشن سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن اور مذکورہ میڈیا ہائوس کی مشترکہ " کاوش " تھی۔
ایک بات اور بتادوں وہ یہ کہ اس خصوصی ایڈیشن کی چند کاپیاں کراچی سے ملتان پہنچائی گئیں اور مذکورہ اخبار کے ساتھ گیلانی ہائوس وغیرہ تک پہنچیں باقی سب خیریت ہے۔