وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بیمار قیدیوں کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کمیشن کی رپوٹ پیش کی۔ یہ کمیشن بیرسٹر فروغ نسیم اور ایڈووکیٹ علی ظفر پر مشتمل تھا یہ رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو پیش کی گئی تو چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا اگر سزا یافتہ قیدی شدید بیمار ہو جائے تو رہا کیا جائے، اسلام کا پورا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو انسان کی طرح ٹریٹ کیا جائے۔
انھوں نے مزید کہا کہ سو گناہ گاروں کو چھوڑ دو اور ایک بے گناہ کو سزا نہ ہونے دو۔ بلاشبہ چیف جسٹس کے ان دو جملوں میں انصاف کا فلسفہ موجود ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ عدالتیں ان پر عمل کر کے دکھائیں۔ صرف اسلام آباد کی جیل میں 249 قیدی ایسے ہیں جنھیں فوری طور پر اسپتال میں علاج کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں میاں نواز شریف ایسے قیدی ہیں جنھیں جیل سے رہا کر کے اندرون اور بیرون ملک بغرض علاج اجازت دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے جیل کے تمام بیمار ملزم مجرموں کے لیے حکومت پر عوامی دباؤ بڑھا اور آخر کار وفاقی حکومت نے کمیشن بنا کر جیل اصلاحات کیں۔
وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت نے بھی انسانی بنیادی حقوق کی پاسداری میں جیل اصلاحات کا بل منظور کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی کی یہ روایت رہی ہے کہ اس نے جمہوری اصولوں کے حقوق انسانی پرکافی کام کیا ہے۔ سندھ حکومت نے جیل اصلاحات 2019کا بل پیش کیا جس میں جیل میں قید اسیران کی بہبود کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس بل میں قیدیوں کو مساویانہ حقوق دیے، جس میں کلچر کی آزادی سے منانے اور جیل میں فنی تربیت دینے بلاتفریق اور بلا نسل یہ حقوق دیے جا رہے ہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق کا بہت خیال رکھا ہے، جس میں صاف پانی، اچھی خوراک، اخبار، کتب اور لکھنے کا سامان، گرمیوں میں واٹرکولر، ایل ای ڈی، ٹی وی، ذاتی کمپیوٹر بغیر انٹرنیٹ قیدی اپنے خرچے پر یہ حاصل کر سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اسیران کے معاملے کے لیے ایک بورڈ بھی تشکیل دیا ہے جو وزیروں اور مشیروں پر مشتمل ہو گا، اس بورڈ کی نگرانی وزیر اعلیٰ سندھ کریں گے، ان اصلاحات کے تحت سندھ میں جیل کے معاملات کے لیے ایک باقاعدہ آئی جی بھی مقرر ہو گا اور نئی اصلاحات کے مطابق ایک طبی آفیسر بھی جیل میں تعینات کیا جائے گا۔
یہ میڈیکل آفیسر اس بات کا مجاز ہو گا کہ قیدی کا علاج جیل میں قائم اسپتال کے علاوہ بیرونی سرکاری یا نجی اسپتال سے کروانے کا مشورہ دے گا جس میں نجی اسپتال کا خرچہ مریض خود اٹھائے گا۔ ساتھ ہی تمام قیدیوں کو آڈیو، وڈیو کال کی سہولت ملے گی ہر قیدی خط و کتابت کر سکتا ہے، جیل میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے انتظامات ہوں گے، قیدیوں کو کھانے پکانے کی سہولت ہو گی جو شادی شدہ ہیں ان کے اہل خانہ کو جیل میں کسی وقت بھی ملنے کی سہولت دی جائے گی اور اس بات پر خاص توجہ ہو گی کہ جیل میں جو بھی اہلکار، رشوت لینے اور تشدد کرنے میں ملوث ہوا، اسے دو سال کی سزا دی جائے گی۔ بی کلاس کے قیدی کمپیوٹر، کولر اور ٹی وی کے مستحق ہوں گے اگر کسی قیدی کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو قیدی کو پیرول پر رہا کیا جائے گا تا کہ مرنے والے کی تدفین یا سوئم میں شریک ہو جائے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی تیسری مسلسل صوبائی حکومت ہے، گو کراچی کی زبوں حالی میں پی پی پی اور ایم کیو ایم دونوں برابر کے ذمے دار ہیں۔ اس شہر قائد کو جتنی توجہ کی ضرورت آج ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہ رہی، اگر پی پی پی اس شہر کے انفرا اسٹرکچر پر توجہ دے تو شہروں پی پی پی کے ووٹر اور سپورٹر میں اضافہ ہو گا۔ اس کام کے لیے پی پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹوکو ہمت دکھانا ہو گی۔
پی پی پی کا جیل اصلاحات کے حوالے سے نیا بل لا کر جو پیش قدمی کی ہے، اس پر وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ خراج تحسین کی مستحق ہے۔ صرف بل پاس کرنے سے یا قانون بنانے سے کبھی اصلاحات کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ وزیر اعلیٰ سندھ ان اصلاحات پر جہاں جہاں رکاوٹ دیکھیں اس کو دورکرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کریں۔
حال ہی میں ایک ملزم بحکم عدالت جناح اسپتال لایا گیا، جس پر تشدد کی وجہ سے پیشاب کی جگہ خون آتا ہے۔ اسی لیے اسے جناح اسپتال کے یورولوجی ڈیپارٹمنٹ میں داخل کرنا چاہا تو اس وارڈ نمبر19 کے پروفیسر ڈاکٹر نے اسے داخل کرنے کی بہت مخالفت کی مگر اسپتال کی انتظامیہ جس کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی ہیں اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر یحیٰ ہیں انھوں نے اس اسیر کو اسپتال میں ایڈمٹ کر لیا جس پر مذکورہ پروفیسر نے ناگواری کا اظہارکیا۔ لوگوں نے بتایا یہ پروفیسر کسی قیدی مریض کو اسپتال میں داخل کرنے کے خلاف ہے جب کہ اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی جنہوں نے بائیس سال کی محنت اور خدمات کے عرصے میں اس سرکاری اسپتال میں انفرا اسٹرکچر کو شاندار کر دیا وہ انسانی ہمدردی اور سماجی سوچ کی ڈاکٹر ہیں، بہت اعلیٰ انداز سے اس اسپتال کو چلا رہی ہیں ان کی پوری کوشش ہوتی ہے جو بھی مریض داخل ہو اس بات سے قطع نظر وہ قیدی ہے ملزم ہے یا مجرم وہ اس کو ایک مریض کے طور پر توجہ دینے کی قائل ہیں۔
یورولوجی کے پروفیسر نے آخرکار اس مریض قیدی کو غصے میں آکر DC کر دیا جب کہ اسپتال کے وارڈ کے ڈاکٹروں نے اسے ایک لیٹر دیا تھا کہ آپ اپنا یوتھروگرام کا ٹیسٹ جناح اسپتال کے باہر سے کروائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسپتال کی یوتھروگرام کی مشین خراب ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ اس اسپتال کا آپریشن تھیٹر زیر تعمیر ہے۔ قیدی مریض اپنی مرضی سے کسی اور اسپتال نہیں جا سکتا، اس کے لیے اسے عدالت سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے مگر پروفیسر نے اس مریض کو زبردستی DC کر دیا جس کی وجہ سے اسے واپس جیل جانا پڑا۔
وزیر اعلیٰ سندھ اس بات کا نوٹس لیں اور ایسے تمام لوگ چاہے وہ ڈاکٹر ہوں یا پروفیسر ان سے یہ اختیار واپس لیا جائے کہ وہ کسی مریض کو داخل کریں یا خارج انھیں صرف ایڈمن کو مشورہ دینے کا حق ہو یہ ایڈمن فیصلہ کرے کہ اسے مریض کے لیے کیا کرنا ہے۔ جب تک سندھ گورنمنٹ ان معاملات پر توجہ نہ دے گی تو ان کی بہترین اصلاحات بھی بے اثر ہو جائے گی۔ ایسی شکایت بہت ہیں۔
جناح اسپتال میں عموماً غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ آتے ہیں جو طبی امداد چاہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسپتال کی تمام مشینیں جو خراب ہیں وہ درست کی جائیں اور او ٹی ڈپارٹمنٹ جو معطل ہے اسے بحال کیا جائے اور وزیر اعلیٰ سندھ وہاں CM ہاؤس کا نمایندہ بٹھائیں جو عام لوگوں کی شکایات کو وزیر اعلیٰ اور اسپتال کی انتظامیہ تک پہنچائے۔ جیل سے قیدی مریضوں کا زیادہ خیال رکھا جائے اور بلا تفریق ہر مریض کی شکایت سنی جائے اس بات سے قطع نظر وہ قیدی ہے یا آزاد اس کا کیا مذہب ہے کس نسل سے ہے کیونکہ دنیا میں صحت اور طب کا حق ہر انسان کو ہے چاہے وہ متقی ہو یا گنہگار۔