گلگت و بلتستان وہ عظیم خطہ ہے جس کے ایک جری اور جانباز سپوت ( لالک جان شہید) نے وطنِ عزیزکے تحفظ و حرمت کے لیے بھارت ایسے ازلی دشمن سے جنگ کی، اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور نشانِ حیدر پایا۔
اس خطے کی اہمیت اور حساسیت یہ بھی ہے کہ اِسے "گیٹ وے آف سی پیک" بھی کہا جاتا ہے؛ چنانچہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے عظیم دوست ملک، چین، کی بھی اس خطے سے کتنی گہری دلچسپی ہو گی۔ گلگت بلتستان (جی۔ بی) کی سرحدیں چین، افغانستان، بھارت اور تاجکستان سے ملتی ہی
ں۔ یوں "جی۔ بی" کی اسٹرٹیجک اہمیت بھی عیاں ہو کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ "جی۔ بی" کے معاملات سے غافل نہیں رہ سکتیں۔ رقبے کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو "جی۔ بی" ایک وسیع علاقہ ہے: 72 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہُوا۔ گویا یہ آزاد جموں و کشمیر سے ساڑھے پانچ گنا بڑا علاقہ ہے۔"جی بی" کی انفرادیت اور اعزاز یہ بھی ہے کہ تقسیمِ ہند کے وقت یہاں کے مجاہد عوام نے ڈوگرہ افواج کے خلاف جنگ لڑی، جیتی اور پھر اپنی خوشی سے (Voluntarily) پاکستان سے الحاق کیا۔
گلگت جہاد کے ایک عظیم المرتبت کردار حضرت مولاناعبد المنان، جن کی عمر100 سال سے زیادہ ہو چکی ہے، اسلام آباد میں اپنے ایک ڈاکٹر بیٹے (عبدالبصیر)کے ساتھ مقیم ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان سے محبت "جی۔ بی" عوام کے ضمیرو خمیر میں شامل ہے۔
دو روز بعد، 15نومبر2020 کو، اِسی گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے لیے عام انتخابات کا میدان سج رہا ہے۔ یہ انتخابات بنیادی طور پر 18 اگست 2020 کو منعقد ہونا تھے لیکن کورونا کے باعث الیکشن 15نومبر تک موخر کر دیے گئے۔"جی۔ بی" میں انتخابات کے ذریعے تیسری بار قانون ساز اسمبلی معرضِ وجود میں آنے والی ہے۔ یہاں پہلی حکومت پیپلز پارٹی کی بنی تھی اور پھر نون لیگ کی۔ نون لیگ کے سابق وزیر اعلیٰ، حافظ حفیظ الرحمن، کے بارے میں یہ بات زبان زدِ خاص و عام ہے کہ انھوں نے "جی۔ بی" میں عوامی خدمات کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ یہاں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تقریباً سات لاکھ ہے۔"جی۔ بی" کی مجلسِ قانون ساز 33 سیٹوں کی حامل ہیں۔
24 سیٹوں کے لیے براہِ راست الیکشن ہو رہے ہیں، 6 سیٹیں خواتین کے لیے ریزرو ہیں جب کہ 3 سیٹیں ٹیکنو کریٹس کے لیے مختص۔ گلگت، ہنزہ نگر، سکردو، استور، دیامر، غذر، گانچھے وغیرہ کے24 انتخابی حلقوں میں 14 سیاسی پارٹیوں کے تقریباً300 اُمیدوار دیوانہ وار حصہ لے رہے ہیں۔ بڑی پارٹیاں مگر تین ہی میدان میں ہیں: نون لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی۔ پچھلی بار پی ٹی آئی نے یہاں سے صرف ایک سیٹ جیتی تھی۔ اِس بار مگر پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ "جی بی" میں اپنی حکومت بنا کر دکھائے گی۔
پی ٹی آئی کے کئی وفاقی وزرا نے، ووٹروں کے دل لبھانے کے لیے، یہاں اپنے کئی جلوے دکھائے ہیں۔ جوشِ جذبات میں پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر صاحب نے نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز، کے لیے ایسی زبان استعمال کر ڈالی ہے کہ فضا اب تک مکدر اور گدلی ہے۔ نون لیگی قیادت نے ترنت جواب تو دیا ہے مگر نون لیگیوں کا سینہ غصے میں ابھی تک دہک رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی وفاقی وزیر کی مذمت کی ہے۔ وزیر مذکور جس طرح حدود سے متجاوز ہُوئے ہیں، جناب عمران خان کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے تھا۔
"جی۔ بی" میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا پورا زور لگ رہا ہے۔ تینوں پارٹیاں اب تک گلگت بلتستان میں بڑے بڑے جلسے کر چکی ہیں۔ ان جلسوں سے وزیر اعظم عمران خان، مریم نواز اور بلاول بھٹو خطاب کر چکے ہیں۔ دو وفاقی وزرا ( مراد سعید اور علی امین گنڈا پور) بھی ہر جگہ گرجے ہیں۔
"جی۔ بی" کی چیف کورٹ نے حکم دیا تھا کہ بلاول بھٹو سمیت تمام اراکینِ پارلیمنٹ 72 گھنٹوں کے اندر اندر جی۔ بی سے نکل جائیں کہ وہ انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہُوئے تھے لیکن بعد ازاں پیپلز پارٹی کی طرف سے اس حکم کے خلاف اپیلیٹ کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس نے اس حکم کو معطل کر دیا۔ وفاقی حکومت کی شدید خواہش اور کوشش ہے کہ "جی۔ بی" کا انتخاب اُن کی کامل جیت بنے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر، جناب اسد قیصر، نے ان انتخابات کے حوالے سے "کچھ مذاکرات" کرنے کے لیے ارکانِ قومی اسمبلی کو اپنے ہاں بلایا تھا مگر اپوزیشن ارکانِ اسمبلی نے اِس "دعوت" کو مسترد کر دیا۔ کہا گیا کہ اسپیکر صاحب، جی۔ بی کے حوالے سے، ایسا کوئی اجلاس بلانے یا اس موضوع پر "دعوت دینے" کے سرے سے مجاذ ہی نہیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں "جی۔ بی" میں جتنی بھی سیاسی و انتخابی ہما ہمی نظر آ رہی ہے، اس کا باقاعدہ آغاز پیپلز پارٹی نے اپنے دَورِ اقتدار میں اُس وقت کیا تھا جب صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے۔ نون لیگ کے دَورِ حکومت میں بھی "جی۔ بی" میں اچھی خاصی اصلاحات کی گئیں۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف کے معتمدِ خاص، سرتاج عزیز، نے مستحسن کردار ادا کیا تھا۔
"جی۔ بی" میں ہنگامہ خیز الیکشن تو ہو رہے ہیں مگر بھارت جس جس شکل میں یہاں شرارتیں کر رہا ہے، انھیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بنئے کو بنیادی اعتراض تو یہ بھی ہے کہ یہاں انتخابات کا ڈول ڈالا ہی کیوں گیا ہے؟ "جی۔ بی" کی مخالفت میں امریکا بھی بھارت کی ہمنوائی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔"سی پیک" دونوں ممالک کی نظر میں کھٹک رہا ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز، الحمد للہ، بھارت پر گہری نگاہیں رکھے ہُوئے ہیں لیکن "جی۔ بی" کے عوام اور انتخابات میں حصہ لینے والی سبھی سیاسی جماعتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ بھارتی سازشوں پر بھی کڑی نگاہ رکھیں۔
الیکشن کی رونقوں میں حکومت نے گلگت بلتستان کے عوام کو نیا صوبہ بنانے کی نوید تو ضروری دی ہے لیکن یہ جاننا مشکل امر ہے کہ یہاں کے عوام اس وعدے پر کتنا یقین رکھتے ہیں۔"جی۔ بی" میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے جتنے بھی جلسے ہُوئے ہیں، عوام نے سبھی میں بھرپور شرکت کی ہے۔
یوں یہ پیش گوئی کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ "جی۔ بی" والے کس پارٹی کے پلڑے میں اکثریت کا وزن ڈالیں گے۔ مریم نواز صاحبہ کا "جی۔ بی" انتخابی مہم میں Political Exposure خوب ہُوا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنی شخصیت اور فنِ خطابت کے جوہر دکھائے ہیں اور "جی۔ بی" کے عوام کے لیے اپنے نانا اور والدہ کی خدمات کو گنواتے ہُوئے ووٹ کے حصول کی کوششیں کی ہیں۔ 15 نومبر2020 کی صبح جس کسی کے لیے بھی فتح کی نوید لیے طلوع ہو، اُس پر لازم ہے کہ "جی۔ بی" کے عوام سے کیے گئے وعدے فراموش نہیں کرے گا۔