جناب عمران خان کو وزیر اعظم بنے چند دن ہی گزرے تھے کہ مرکز میں یہ احساس پایا جانے لگا کہ چونکہ خانصاحب کی حکومت اتحادیوں کے سہارے معرضِ عمل میں لائی گئی ہے، اس لیے اس کے استحکام اور طاقت کے لیے کوئی اور ذریعہ ہونا چاہیے ؛ چنانچہ یہ " خیال انگیزی" کی گئی کہ پاکستان کے مفاد میں پارلیمانی نظامِ حکومت نہیں، صدارتی نظامِ حکومت ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پارلیمانی نظامِ حکومت کی مخالفت اور صدارتی نظامِ حکومت کی حمائت میں شور سا مچ گیا۔ میڈیا میں بھی بحثیں چھڑ گئیں۔
اخبارات میں اس بارے کالم اور تجزئیے شائع کیے جانے لگے اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی صدارتی نظامِ حکومت کی خوبیاں اور نعمتیں بیان کرنے میں اپنا کچھ حصہ ڈالا۔ یوں احساس ہونے لگا تھا کہ وطنِ عزیز میں پارلیمانی نظامِ حکومت کی بساط بس لپٹا ہی چاہتی ہے اور اس کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت آنے والا ہے۔ صدارتی نظامِ حکومت کی برکتوں بارے دُور دُور کی کوڑیاں لائی جانے لگیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ لا یعنی بحثیں اور خواہشیں جلد ہی دَم توڑ گئیں۔ اور اب ہر طرف 18ویں ترمیم کے بدلاؤ کا غلغلہ سنائی دینے لگا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس ترمیم کے خاتمے یا ترمیم در ترمیم کی باتیں سنائی دے رہی ہیں اور کئی جانب سے خبردار بھی کیا جارہا ہے کہ اِسے چھیڑنے کا رسک نہ لیا جائے۔
ایک عشرہ قبل یہی دن تھے جب صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی موجودگی میں پارلیمنٹ نے اکثریتی رائے سے اٹھارویں ترمیم منظور کی تھی۔ اسے پیپلز پارٹی حکومت کی ایک بڑی جمہوری اور عوامی کامیابی کہا گیا تھا۔ اختیارات کا بہاؤ مرکز سے صوبوں کی جانب مکمل ہو گیا تھا۔ اس ترمیم نے 100سے زائدمعاملات کو جوہری طور پر تبدیل کر ڈالا۔ (سابق) صدر آصف علی زرداری فخر سے یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ مَیں نے اپنے اختیارات سے دستکش ہو کر صوبوں کو طاقتیں منتقل کی ہیں۔
گزرے دس برسوں میں مگر یہ احساس فزوں تر ہُوا ہے کہ اٹھارویں ترمیم سے جو بہتر توقعات وابستہ کی گئی تھیں، پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ توقعات لگائی گئی تھیں کہ 18ویں ترمیم کی طاقت سے لَیس ہو کر صوبے صحت، تعلیم اور بلدیاتی معاملات کو بھی آئیڈیل صورت میں سنوار سکیں گے۔ اِسی لیے مرکز میں وزیر صحت، وزیر تعلیم اور وزیر بلدیات کے قلمدان ہی موقوف کر دیے گئے۔ لیکن صوبوں میں جملہ اختیارات کے باوصف مطلوبہ معیار کے نئے شاندار تعلیمی ادارے بنائے گئے نہ اعلیٰ اسٹینڈرڈ کے اسپتالوں کی بنیادیں رکھی گئیں اور نہ ہی بلدیاتی نظام کو طاقت بخشی گئی کہ دُنیا بھر کی جمہوریتوں میں بلدیاتی نظامِ حکومت ہی عوام کی اصل طاقت خیال کیا جاتا ہے۔
عوامی مسائل کا فوری اور مقامی حل۔ صوبوں نے مرکز سے اختیارات تو کشید کر لیے لیکن اس نعمت میں بلدیاتی اداروں کو شریک کیا نہ اُنہیں کوئی اہمیت ہی دی۔ یہ احساس بھی جاگزیں ہونے لگا کہ اٹھارویں ترمیم سے وفاق کی طاقت کو ضعف پہنچا ہے۔ مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کی طاقت کے سامنے محتاج سی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ ایسی کمزوری تھی جس کی اساس پر مبینہ طور پر بعض مرکزِ گریز قوتوں کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے مواقع بھی ملے۔ یہ ایجنڈا کسی بھی طرح پاکستان کے استحکام اور سالمیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ خانصاحب نے اقتدار سنبھالا تو سندھ کی حکومت اور مرکزی حکومت میں باقاعدہ سر پھٹول شروع ہو گئی۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ سندھ کی حکومت مرکزی حکومت کے کسی بھی "کہنے سُننے" میں نہیں رہی تھی۔ وہی ماحول بن گیا جو 1988ء میں بنا تھا۔ اُس وقت پنجاب میں نواز شریف کی حکومت تھی اور مرکز میں بے نظیر بھٹو کی۔ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں کررہے تھے۔ شدید کشیدگی نے جنم لے لیا تھا۔ نواز شریف بطور وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر اعظم بینظیر بھٹو سے تعاون کرنے اور اُنہیں کسی قسم کا پروٹوکول دینے پر تیار نہیں تھے۔ کچھ اسی طرح کا ماحول اب بن چکا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم عمران خان سے اور عمران خان سندھ کے وزیر اعلیٰ سے مصافحہ کرنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ کل نہ تو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے تصادم کا عوام کو کوئی فائدہ ہُوا تھا اور نہ آج عمران خان و مراد علی شاہ کے باہمی عدم تعاون سے عوام کا کوئی فائدہ ہورہا ہے۔
عوام کے مسائل اور مصائب دُور کرنے کے لیے اٹھارویں ترمیم کی طاقت سے صوبوں کو اپنے ہاں جتنیCapacity Buildingکی استعداد حاصل کرنی چاہیے تھی، نہیں کر سکے۔ اس کمزوری کا اب بھانڈا پھوٹا ہے جب کورونا وائرس کی قیامت اُمنڈنے پر صوبے عوامی توقعات پر پورا اُترنے اور کورونا متاثرین کی اعانت کرنے میں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کر پارہے۔ تمام وسائل رکھنے کے باوجود صوبائی حکمرانوں کی طرف سے عوام کو دھچکا ہی لگا ہے۔ اس دھچکے کے اثرات دُور رَس ہیں۔ مصیبت میں گھرے عوام کی ممکنہ حد تک دستگیری کے لیے عمران خان کی مرکزی حکومت کو آگے بڑھنا پڑا ہے تو احساس ہُوا کہ قدم قدم پر اٹھارویں ترمیم کی طاقت سدِ راہ بن رہی ہے۔ ایسے میں مذکورہ ترمیم میں مزید ترمیم یا تبدیلی کا احساس بڑھاہے۔ کہا جاتا ہے کہ صوبوں کے برعکس، مرکز کی مضبوطی سیموئل پی ہنٹنگٹن کا دیا گیا تصور ہے۔
اس تصور کے تحت ہی ترکی، انڈونیشیا، سنگاپور، ملائشیا وغیرہ نے اپنی معیشتوں کو مستحکم کیا۔ وطنِ عزیز میں مرکزی حکومت نے 18ویں ترمیم کو ملکی اور عوامی مفاد میں تبدیل کرنے کی بات چھیڑی ہے تو ہمارے کئی سیاستدان بپھرے نظر آ رہے ہیں۔ اس ناراضی اور طیش میں سندھ کی حکومت، اپوزیشن کے بیشتر سیاست کار اور حضرت مولانا فضل الرحمن ایسے مذہبی رہنما ہم آواز ہیں۔ بعض اطراف سے دھمکیاں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ باچہ خان کاخانوادہ بھی غصے میں ہے۔ طنز کے تیر بھی چلائے جا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی صورت میں کمٹمنٹ دکھائی دے رہی ہے کہ 18ویں ترمیم میں ترمیم ہو کر رہے گی۔ ایسے میں کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ضد اور دھمکیوں کی جگہ محبت اور مشاورت کا عنصر جگہ اپنا لے؟
قاف لیگ قیادت بھی مرکزی حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہُوئے اٹھارویں ترمیم کو نئے تقاضوں میں ڈھالنے کی حمائت کررہی ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں مزید ترمیم کیے جانے کے حوالے سے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کاوزن بھی اُسی پلڑے میں دیکھا جارہا ہے جس پلڑے میں عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت بیٹھی ہے ( چوہدری برادران پر مگر حالیہ افتاد حیرت انگیز ہے ) کچھ شرائط اور مطالبات مگر ایسے ہیں جو چوہدری برادران اٹھارویں ترمیم کے بدلنے کے بدلے پیش کررہے ہیں۔ توقع ہے کہ عمران خان یہ مطالبات بھی مان ہی جائیں گے۔ شائد اسی وجہ سے چوہدری شجاعت حسین بار بار کہہ رہے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے وہ حصے جو صوبوں کے مفادات میں ہیں، اُن کی بہرحال ہم حمائت کرتے رہیں گے۔ چوہدری صاحب بات درست کررہے ہیں۔ یہ جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں صوبوں نے اپنی نجی حیثیت میں کوئی کارکردگی نہیں دکھائی، درست نہیں ہے۔
یہ 18ویں ترمیم ہی ہے جس کی برکت اور طاقت سے صوبہ پنجاب میں " دانش اسکولز" کی بنیادیں رکھی گئیں ( جن پر جناب شہباز شریف فخر کرتے ہیں ) اور اسی ترمیم کی بدولت صوبہ خیبر پختونخوا میں ہیلتھ انشورنس پروگرام کا کامیابی سے ڈول ڈالا گیا جس پر جناب عمران خان فخر کرتے پائے جاتے ہیں۔ اجتماعی حیثیت میں مگر مبینہ طور پر اٹھارویں ترمیم کے نقصانات زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آ رہے ہیں۔ نہیں معلوم ان خساروں کے خاتمے کے لیے دس سال تک کیوں انتظار کیا گیا؟