سالِ گزشتہ میں حسبِ عادت مجھے کئی کتابیں پڑھنے کے مواقعے ملے۔ زیر مطالعہ آنے والی کتب انگریزی کی بھی تھیں، اُردو کی بھی اور پنجابی میں بھی۔
مشرقی پنجاب کے معروف شاعر اور افسانہ نگار، بلبیرمادھوپوری، کی پنجابی میں تحریر کردہ انتہائی شاندار سوانح حیات (چھانگیا رُکھ) نے کئی ہفتے ذہن کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ بلبیر مادھوپوری نے جس خوش اسلوبی سے اپنی سوانح عمری میں دیہی کلچر، روایات، ظالمانہ سماجی رسوم اور مناظر کو سمویا ہے، بار بار مجھے اپنے اور آس پاس کے گاؤں کی تہذیبی داستانیں یاد آ آ کر ستاتی رہیں۔
ترپٹی جین نے "چھانگیا رُکھ"کا انگریزی زبان میں Against the Nightکے زیر عنوان ترجمہ بھی کر دیا ہے۔ کراچی سے شایع ہونے والے میرے محبوب ادبی جریدے "آج " نے اب اس کا اُردو ترجمہ کیا ہے۔ حیرت خیز بات یہ ہے کہ خالصتاً اُردو اسپیکنگ ادیب اور مدیر، جناب اجمل کمال، نے کمال مہارت سے یہ ترجمہ کیا ہے۔ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میاں محمد افضل صاحب کی قائد اعظمؒ پر لکھی گئی معرکہ خیز کتاب " میرِ کارواں " نے بھی قلب و رُوح کو سرشار کیے رکھا۔ جناب منیر احمد منیر کی کتاب "کیا کیا نہ دیکھا" مگر سب سے ممتازاور منفرد ہے۔ انکشافات سے معمور ایک حیرت انگیز تصنیف!!
ایک ہزار سے زائد صفحات پر پھیلی یہ کتاب ( کیا کیا نہ دیکھا) دراصل سابق انسپکٹر جنرل پولیس، حاجی حبیب الرحمن، کے متعدد مشاہدات، متنوع تجربات اور وارداتِ قلبی کی انکشاف خیز داستان ہے۔ منیر احمد منیر ایسے کہنہ مشق اخبار نویس نے حاجی صاحب سے کئی ملاقاتیں کرکے اُن کی زندگی کے تاریخی احوال قلمبند کرکے درحقیقت پاکستان کی سیاسی، صحافتی اور سماجی تاریخ مرتب کی ہے۔ یہ تصنیف کئی دیگر سینئر ترین پولیس افسروں کے کرداروافعال کی کہانیاں بھی بیان کرتی ہے۔
یہ کہانیاں اچھی بھی ہیں اور شرمناک بھی۔ ان واقعات میں ہمیں اپنے کئی نامور سیاستدانوں اور پولیس افسروں کے باہمی، گہرے گٹھ جوڑ کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ حاجی حبیب الرحمن ہمیں بتاتے ہیں کہ نواز شریف اپنی مرضی کے ایسے پولیس افسر اور بیوروکریٹ تعینات کرتے تھے جو ہمہ وقت اُن کے کام آ سکیں۔ کام آنے والے سرکاری افسروں کی وہ پھر ڈبل پروموشن بھی کر دیا کرتے تھے (صفحہ 899)کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ نواز شریف جس سرکاری افسر سے ایک بار ناراض ہُوئے، اُسے پھر کبھی معاف نہ کیا۔
کتاب میں کئی لوگوں کے نام بتا کر انکشافات کیے گئے ہیں کہ ہماری ایجنسیاں اپنے مقاصد کے حصول اور اپنی مطلب کی اطلاعات حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کے صحافیوں، سیاستدانوں، تاجروں، پروفیسروں، صنعت کاروں، دانشوروں اور لیبر لیڈروں کو استعمال کرتی ہیں (صفحہ484) حکمرانوں اور خفیہ اداروں کے لیے " خدمات" انجام دینے والے چند ایک سینئر اخبار نویسوں کے چہرے بھی دکھائے گئے ہیں۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ہمارے ایک مشہور صحافی کے ایک بھائی صرف پانچ سو روپے کے "معاوضے"پر سیاستدانوں اور افسروں کی مخبریاں کرتے تھے۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی شخصیت کے کئی پہلو بھی کتاب میں سامنے لائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، اُردن کے ولی عہد، شہزادہ حسن، ملتان میں تعینات کور کمانڈر جنرل ضیاء الحق سے ملنے آئے تو بھٹو نے حاجی حبیب الرحمن کی ذاتی ڈیوٹی لگائی کہ "تم خود ضیاء الحق اور شہزادہ حسن کی نگرانی کرو اور جتنے دن بھی شہزادہ یہاں رہے، مجھے اس کی ایک ایک بات کا پتہ چلنا چاہیے۔" (صفحہ491)
کتاب کے ہر صفحے پر ایک منفرد کہانی ہے۔ بھٹو صاحب سے وابستہ واقعات تو کچھ زیادہ ہی حیران کن ہیں۔ مثلاً: " بھٹو صاحب نے تو جنرل ضیاء الحق کو محض اس لیے جھاڑ دیا تھا کہ انھوں نے مری میں اپنے فوجی افسروں کو مولانا مودودی کی لکھی گئی دینی کتابیں کیوں تقسیم کی تھیں؟ چنانچہ ضیاء الحق نے اس پر بھٹو سے معافی بھی مانگی "(صفحہ 489)منیر احمد منیر نے کمال مکالمے سے حاجی حبیب الرحمن کی زبانی صفحہ 679پر ہمیں بتایا ہے کہ بھٹو صاحب نے تو خط کے ذریعے معراج خالد ایسے شریف سیاستدان کی اتنی بے عزتی کی تھی۔ قسمت کے کھیل دیکھیے کہ یہی معراج خالد صاحب کئی برسوں بعد خود بھی پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔
زیر نظر کتاب "کیا کیا نہ دیکھا" اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ جب ہمارے سیاستدان ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں آ جاتے ہیں تو وہ کس بُرے طریقے سے ووٹروں اور عوام کی توہین کرتے اور انھیں زمین پر رینگنے والے کیڑے سمجھنے لگتے ہیں۔ اس جفا جوئی کی پھر انھیں سزا بھی ملتی ہے۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ بیوروکریسی کی اکثریت کو وزیر اعظم کا جائز ناجائز حکم ماننا ہی پڑتا ہے۔
کتاب میں ہمیں ڈاکٹر قدیر خان کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ حاجی حبیب الرحمن اپنے مشاہدات کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب بہت سیدھے سادے آدمی ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے سیاستدان ملک کے طاقتور سیاسی و مقتدر خاندانوں کی خواتین کے سامنے بھی کیسے بھیگی بلّی بن جاتے ہیں، یہ کہانیاں بھی ہمیں "کیا کیا نہ دیکھا " میں ملتی ہیں۔ مثلاً : جب ایک وزیر اعلیٰ کو ایک انتہائی مقتدر خاندان کی ایک خاتون نے گالی دی تو وزیر اعلیٰ صاحب نے چپ چاپ گالی سُن لی (صفحہ797) جو شخص بھٹو صاحب کے خلاف سلطانی گواہ بنا تھا اور بھٹو صاحب پھانسی لگ گئے تھے، اُس کا ذکر حاجی حبیب الرحمن نے نفرت سے کیا ہے اور قارئین کو بتایا ہے کہ کردار کے لحاظ سے وہ تھا کیا؟ ؟
"کیا کیا نہ دیکھا" میں سابق آئی جی پولیس، حاجی حبیب الرحمن، ہمیں اپنے تجربات اور یادوں میں شریک کرتے ہُوئے بتاتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کو قتل کرنے کے لیے افغانستان نے اُجرتی قاتل بھی پاکستان بھیجے تھے، لیکن افغان حکمرانوں کی یہ گھناؤنی سازش ناکام ہو گئی تھی (صفحہ 818)ساتھ ہی تبصرہ کرتے ہُوئے کہتے ہیں کہ جنرل اختر عبدالرحمن ذہین تھا( صفحہ 807) پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ مصور اور خطاط، صادقین، کا انتہائی دلکش خاکہ 12صفحات پر پھیلا ہے ( صفحہ 819تا 830) حاجی صاحب، صادقین صاحب کی پاکستان سے محبت اور بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی سے ملاقات کا احوال ڈرامائی اسلوب میں سناتے ہیں۔
حاجی حبیب الرحمن جب پنجاب کے آئی جی پولیس تھے، اُن دنوں پاکستان کی دو نامور اداکاراؤں( زمرد اور شبنم) کے گھروں میں مشہور ڈاکے پڑے تھے۔ حاجی صاحب نے ایک عجب بات بتائی ہے۔ کہتے ہیں : "اداکارہ زمرد کے گھر ڈکیتی ہُوئی تو مَیں اُن کے گھر گیا۔ زمرد کی والدہ نے مجھے کہا: اللہ کرے اس قسم کی ڈکیتیاں روز ہمارے گھر میں ہوں تاکہ آئی جی پولیس ہمارے گھر تو آئے" (صفحہ 621) انکشافات سے معمور اس کتاب کی قیمت تین ہزار روپے ہے۔