پاکستان پر پہلا مارشل لا اکتوبر میں مسلّط ہُوا تھا۔ اکتوبر ہی کے مہینے میں نواز شریف کی دوسری حکومت چوتھے مارشل لا کے ہاتھوں ختم ہُوئی تھی۔ اور اب ماہِ اکتوبر ہی میں گوجرانوالہ میں حکومت مخالف اتحاد "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" (پی ڈی ایم) کا آج پہلا جلسہ منعقد ہورہا ہے۔
یہ شہر نون لیگ کے عشاق کا شہر ہے لیکن یہاں پی ٹی آئی کا دَم بھرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم میں یوں تو ایک درجن کے قریب حکومت مخالف سیاسی جماعتیں شامل ہیں لیکن آج کا جلسہ دراصل تین بڑی پارٹیوں کی طاقت اور کمٹمنٹ کا اظہار ہوگا: نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ایف)اپنے قائدین کے ساتھ اپنے اپنے کارکنوں سے شرکت کریں گے۔
نون لیگ جانتی ہے کہ اگر یہ جلسہ کسی بھی انداز اور شکل میں ناکام ہو گیا تو "پی ڈی ایم" پر نہائت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ساری پی ٹی آئی، پنجاب حکومت اوراسلام آباد میں فروکش وفاقی وزرا کہہ تو رہے ہیں کہ "پی ڈی ایم " کے اس جلسے سے کوئی بھی خائف نہیں ہے لیکن جلسے سے قبل گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں لگائے گئے جلسہ بینروں اور چسپاں کیے اشتہاروں کو جس غصے سے اتارا، پھینکا اور نوچ ڈالا گیا ہے اورنون لیگی مبینہ طور پر جس طرح حراست میں لیے گئے، یہ اقدامات زبانِ حال سے ایک مختلف داستان سنا رہے ہیں۔
گوجرانوالہ میں آج کے جلسہ سے قبل چند ایک ایسے واقعات نے جنم لیا ہے جنھیں محض اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے:(1) لیاقت باغ (راولپنڈی) میں 10اکتوبر کو پی ٹی آئی نے اپنی طاقت شو کرنے اور پی ڈی ایم کے جلسے کو کاؤنٹرکرنے کے لیے ایک جلسے کا اہتمام کیا۔ مجھے خود یہ جلسہ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
روزنامہ "ایکسپریس" میں 11 اکتوبر کو شایع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ جلسہ پی ٹی آئی کی توقعات کے مطابق نہیں تھا (2)ایک ہفتہ قبل لاہور میں نصف درجن وفاقی وزرا نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کی۔ اس میں "پی ڈی ایم" کے جلسے کے بارے میں غور کیا گیا۔ یہ ملاقات اس بات کی مظہر ہے کہ گوجرانوالہ کے جلسہ سے حکمران لاتعلق نہیں ہیں (3) آج کے جلسہ سے ایک ہفتہ قبل کراچی میں ایک معروف اور محترم عالمِ دین، مولانا عادل خان، کو ڈرائیور سمیت شہید کر ڈالا گیا۔
اس سانحہ کی مذمت عسکری و سیاسی قیادت، سبھی نے کی ہے۔ یہ واردات بتا رہی ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کا عفریت پھر سر اُٹھا سکتا ہے۔ حکومت بھی اس بارے میں متنبہ کررہی ہے (4) پچھلے ہفتے سے چند وفاقی وزرا بیک زبان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ "کورونا کی سر اٹھاتی نئی لہر کے پیشِ نظر اپوزیشن کو اپنے جلسے تین مہینوں کے لیے ملتوی کر دینے چاہئیں۔"
یہ مناسب مشورہ تو ہے لیکن اس مشورے پر خود پی ٹی آئی نے لیاقت باغ کے اپنے جلسے میں عمل کرنے سے گریز کیا ہے (5) آج کے جلسہ سے چند دن پہلے ہی آئی جی پنجاب نے صوبہ بھر میں 6 ڈی آئی جیز اور 68 ڈی ایس پیز کے تبادلے کیے۔ ساتھ ہی گوجرانوالہ کے سی پی او کو ہٹا کر اُن کی جگہ گریڈ20کے نئے سی پی او سرفراز فلکی کو تعینات کیا۔ حکومت کی توقعات یہ ہیں کہ وہ حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
جلسہ کے آس پاس کووِڈ 19 سے "پی ڈی ایم" قائدین، اُن کی آواز پر لبیک کہنے اور جلسے میں شریک ہونے والوں کو شائد ڈرایا نہیں جا سکتا۔ ہلاکت خیز مہنگائی نے غریب عوام کی ذلتوں اور مصیبتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ ہم نے پہلے بھی ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ حکومت نے غریب کُش مہنگائی کو لگام نہ ڈالی اور آٹا و چینی و ادویات مافیا پر آہنی ہاتھ نہ ڈالا تو عوام گروہ در گروہ "پی ڈی ایم" کے جلسوں میں شریک ہوں گے اور اپنی بیزاریوں کا عملی اظہار کریں گے۔
اب اس جلسے سے چند دن پہلے وزیر اعظم نے ٹویٹی اعلان کیا: "اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔" ہم سمجھتے ہیں کہ یہ "پی ڈی ایم" کے اولین جلسے کا دباؤ ہے کہ وزیر اعظم صاحب ایسا اعلان کرنے پر مجبور ہُوئے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ مبینہ اعلان عین اُس وقت سامنے آیا جب بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کر کے عوام کی مزید کمر توڑنے کا عملی قدم اٹھایا گیا ہے۔ ایسے میں خانصاحب کے ٹائیگرز کیا کریں گے؟ ٹائیگروں کے روئیے بارے متعدد شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں۔
عوام کی اکثریت کو حکومت پر اصل غصہ یہ ہے کہ جن اشخاص اور گروہوں نے پچھلے دو، سوا دو برسوں کے دوران آٹا و چینی و ادویات میں سیکڑوں گنا اضافہ کرکے عوام کی جیبیں کاٹی ہیں، اُن پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے، سب کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ چنانچہ اندازہ یہی ہے کہ عوام اپنے دکھوں اور محرومیوں کی گٹھڑیاں اُٹھائے آج کے جلسے میں شریک ہوں گے۔ اگرچہ عمران خان نے جلسے کی اجازت تو دی ہے لیکن ساتھ ہی لاہور، جاتی امرا، گوجرانوالہ اور مضافات کے شہروں میں نون لیگیوں پر پولیس کا کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔ یعنی ظلم رہے اور امن بھی ہو۔
اس پیش منظر میں آج کا گوجرانوالہ میں جلسہ پی ڈی ایم کے لیے بھی امتحان ہے، نون لیگ کی مرکزی نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف کے لیے بھی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے لیے بھی پہلی بڑی انتظامی آزمائش۔ یہ جلسہ نون لیگی لیڈر اور سابق وفاقی وزیر، انجینئر خرم دستگیر خان، کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہے کہ جلسہ کے اصل میزبان وہی ہیں۔
گوجرانوالہ کے اس جلسے مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی تقریریں عوام اور حکمرانوں کو بتائیں گی کہ "پی ڈی ایم" نے آیندہ ایام میں کیا رخ اختیار کرنا ہے؟ مریم نواز کی سیاسی زندگی کا یہ پہلا بڑا عوامی جلسہ ہوگا جس سے وہ خطاب کرکے اپنا نقش جمائیں گی۔ گوجرانوالہ ڈویژن میں 6اضلاع ہیں۔ اکثریت میں نون لیگی ارکانِ اسمبلی ہیں۔ ضلع نارووال کے دونوں ایم این ایز، دانیال عزیز کی بیگم اور احسن اقبال، نون لیگی ہیں۔ دانیال عزیز اور احسن اقبال نواز شریف حکومت میں وفاقی وزیررہ چکے ہیں۔
وہ اس جلسے میں اپنے کارکنوں کو کتنا اور کیسے لاتے ہیں، آج پتہ چل جائے گاکہ چُوری کھانے والے کون ہیں اور خون دینے والے کون؟ سیالکوٹ سے سابق وفاقی وزیر، خواجہ محمد آصف، اور پسرور سے نون لیگی ایم این اے، علی زاہد، بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ شریک ہوں گے۔ مریدکے اور کالا خطائی کے مضافات سے نون لیگی ایم این اے اور سابق وفاقی وزیر، رانا تنویر حسین، بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔
لاہور سے مریم نواز، خواجہ برادران، ایاز صادق اور فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ آئیں گے۔ مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر کی دعوت پر، بتی چوک( لاہور) میں اہلحدیثوں کے مرکز میں نمازِ جمعہ پڑھانے کے بعد ساتھیوں سمیت گوجرانوالہ روانہ ہوں گے۔ آج سب کی طاقت اور کمٹمنٹ کا پتہ چل جائے گا۔