ستمبر2021کے تیسرے ہفتے میں طالبان کی ہیتِ مقتدرہ نے افغانستان کی عبوری حکومت کو وسعت دیتے ہُوئے تاجک، ہزارہ اور ازبک افراد کو بھی وزارتوں میں شامل کیا۔ 5اکتوبر2021 کو طالبان کابینہ میں تیسری بار اضافہ کیا گیا۔
دُنیا کے لیے مگر یہ بات حیرانی کا باعث تھی کہ کسی افغان خاتون کو وزیر نہیں بنایا گیا۔ طالبان حکام کو بھی اس کا احساس تھا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات، ذبیح اللہ مجاہد، نے پریس کانفرنس کرتے ہُوئے اس بارے میں کہا:" جَلد ہی ہم خواتین کو بھی کابینہ میں شامل کریں گے۔ خواتین کو ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پر مذاکرات کیے جارہے ہیں۔ چونکہ اب اماراتِ اسلامیہ افغانستان کا نظام تبدیل ہو چکا ہے، اس لیے خواتین کس طرح ملازمتوں پر جا کر کام کر سکیں گی۔
اس معاملے پر ہدایات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔" جناب ذبیح اللہ مجاہد کے اس لہجے سے عیاں ہورہا ہے کہ افغان خواتین بارے طالبان کی مذہبی حکومت کا رویہ مائل بہ تبدیلی ہے، اس کے لیے مگر اُنہیں وقت درکار ہے۔ عالمی میڈیا میں مگر یہ احتجاج کیا جارہا ہے کہ طالبان ہائی اسکول کی بچیوں کے لیے تعلیمی ادارے کیوں نہیں کھول رہے۔ اِسی ضمن میں 16اکتوبر2021کو اقوامِ متحدہ میں "یونیسف" کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، عمر عبدی، نے کہا کہ طالبان کے وزیر تعلیم نے ہمیں یقین دہانی کروائی ہے کہ نئے ضوابط کے تحت جلد ہی افغان طالبات کو سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت دے دی جائیگی۔ عالمی میڈیا کو عمر عبدی پر تو یقین کر لینا چاہیے۔
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں کہ افغان خواتین کے لیے ملازمتوں اور تعلیم کے دروازے وا کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کو وقت اور مہلت دینی چاہیے۔ جس روز افغان خواتین کے حقوق، ملازمتوں اور تعلیم بارے طالبان کے نائب وزیر اطلاعات کا مذکورہ بالا بیان شائع ہُوا، اُسی روز جناب عمران خان نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہُوئے افغان خواتین بارے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہُوئے کہا تھا:"افغان خواتین کو تعلیم سے روکنا غیر اسلامی ہوگا۔ میرے خیال میں طالبان خواتین کو اسکول جانے کی اجازت دے دیں گے۔
افغان خواتین بہت بہادر ہیں۔ اُنہیں وقت دیا جائے کہ وہ اپنے حقوق خود حاصل کر سکیں۔"یہی بات جناب عمران خان پہلے بھی امریکی خاتون صحافی، بیکی اینڈرسن، کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہہ چکے ہیں۔ عالمی میڈیا اور عالمی طاقتیں مگر مُصر اور بضد ہیں کہ افغان خواتین کو سارے بنیادی حقوق سے فوراً نواز دیا جائے۔ ایسا کرنا شائد طالبان کے لیے فی الحال ممکن نہیں ہے۔
افغان خواتین صحافیوں پر بھی نئے انداز میں دباؤ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کابل کے کئی نجی چینلز، اخبارات اور ریڈیوز سے وابستہ کئی خواتین صحافی ملازمتوں سے محروم کی جا چکی ہیں۔ یہ درست ہے کہ کابل میں طالبان پولیس کے کچھ لوگوں نے روز نامہ "اطلا عات ِ روز" سے وابستہ دو صحافیوں (نعمت اللہ نقدی اور تقی دریابی) کو، بلاوجہ، بے پناہ تشددکا نشانہ بنایا ہے۔ جرمن میڈیا سے وابستہ ایک افغان صحافی کے قریبی رشتے داروں کو بھی طالبان نے مارا پیٹا ہے (اس لیے کہ مطلوبہ صحافی دستیاب نہ ہو سکا) ہم اس متشددانہ رویے کی مذمت کرتے ہیں۔
طالبان کے ان اقدامات سے کابل میں بروئے کار میڈیا میں خوف پھیل گیا ہے لیکن اس خوف کو تحلیل کرنے کے لیے بھی افغان طالبان حکمران کی کوششوں کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ نعمت اللہ نقدی اور تقی دریابی صحافیوں پر عام افغان طالبان کے تشدد کی فوٹوز وائرل ہونے کے بعد طالبان حکام نے تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی کے ارکان نے خود مضروب افغان صحافیوں کے گھر اور دفتر جا کر معذرت کی، اُن کے ایڈیٹر سے بھی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آیندہ ایسے واقعات سے ممکنہ حد تک اجتناب کیا جائے گا۔ یہ بدلاؤ کی ایک شکل ہے۔ پچھلے طالبان (1996 تا2001) کی طرف سے تو ایسے معذرت خواہانہ اقدام کی توقع ہی عبث تھی۔
فی الحال طالبان، افغان خواتین کو افغان مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ البتہ وعدے کیے جا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں خواتین ملازمتوں پر بحال کر دی جائیں گی۔ غیر ملکی ادارے طالبان کے ان وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ افغانستان کے ہر بڑے شہر میں افغان خواتین سے منسلکہ تمام شعبے بند کر دیے گئے ہیں تو وہ طالبان کے مذکورہ وعدوں کو چکمہ سمجھتے ہیں۔
مثال کے طور پر افغان طالبان کے سپریم لیڈر، مُلا ہیبت اللہ، کے حکم پر افغانستان کی وزارت برائے خواتین اُمور پر تالے لگا دیے گئے ہیں اور اس وزارت سے وابستہ سب خواتین اہلکاروں اور افسروں کو چُھٹی دے دی گئی ہے۔ اس وزارت میں کام کرنے والی سیکڑوں خواتین بے روزگار ہو کر طالبان کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کناں ہیں۔ طالبان مخالف حلقے اس احتجاج کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کررہے ہیں لیکن طالبان اپنا فیصلہ واپس لینے پر تیار نہیں۔
ایک سروے کے مطابق: پندرہ اگست کو (جب افغانستان پر طالبان کا مکمل قبضہ ہُوا) افغانستان کے20صوبوں میں 153میڈیا آرگنائزیشنز کام کررہی تھیں۔ ان سے 63افغان صحافی وابستہ تھیں۔ عالمِ عرب کے معروف میڈیا "الجزیرہ" نے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اب ان 63 خواتین میں سے، طالبان کے دباؤ پر، 53خواتین ملازمتوں سے محروم ہو چکی ہیں۔ طالبان حکام اور طالبان کی وزارتِ اطلاعات ان رپورٹوں اور خبروں کو محض "جھوٹ کا پلندہ" اور "طالبان کے خلاف گھناؤنا غیر ملکی پروپیگنڈہ" قرار دے کر مسترد کردیتے ہیں۔
پہلے بھی یہ غیر ملکی میڈیا ہی تھا جس نے مُلا محمد عمر اور اُن کے مقتدر طالبان کے بارے میں منفی خبریں مسلسل شائع کرکے عالمی ذہن کو مسموم کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ اب پھر یہ مغربی میڈیا سابقہ روش پر قائم رہتے ہُوئے سپریم افغان لیڈر، مُلا ہیبت اللہ اخونزادہ، کے نئے اور مقتدر طالبان کے بارے میں ایسی منفی رپورٹوں کی شرلیاں چھوڑ کر افغان طالبان کو بے اعتبار کرنے کا دھندہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
یہی وہ مغربی میڈیا ہے جس نے اپنے خاص مقاصد کی تکمیل کے لیے پہلے صدر صدام حسین اور معمر قذافی کے خلاف جھوٹ کے طومار باندھ کر عراق اور لیبیا کو دُنیا کی نظروں میں گرانے اور بے وقار کرنے کی مذموم کوشش کی تھی اور اِسی میڈیا نے مُلا محمد عمر مرحوم کے خلاف بھی توپوں کے دہانے کھول رکھے تھے۔ حیرانی کی بات ہے کہ "ٹائم " ایسے معروف امریکی ہفت روزہ اخبار نے اپنی حالیہ اشاعت میں یہ "انکشاف" کیا ہے کہ طالبان کی آمد سے قبل کابل میں 700خواتین صحافی کام کررہی تھیں اور اب ان کی تعداد صرف40رہ گئی ہے۔ اب کوئی اس "خبر" پر اعتبار کرے تو کیسے کرے؟ (جاری ہے)