محترمہ ندیمہ ہراتی افغانستان کی معروف دانشور خاتون ہیں۔ افغان سوشل میڈیا پر بھی خاصی متحرک ہیں اور عالمی میڈیا بھی اُن سے رابطے میں رہتا ہے۔ ہر سطح پر افغان خواتین کے ہر قسم کے حقوق کا تحفظ کرنا اُن کا مطمحِ حیات ہے۔ وہ افغانستان کے مشہور شہر ہرات میں رہتی ہیں۔
اُن کے تقریباً سبھی عزیز و اقارب افغانستان سے نکل کر کسی نہ کسی مغربی ملک میں پناہ لے چکے ہیں لیکن محترمہ ندیمہ ہنوز ہرات میں ہیں۔ کہتی ہیں: "افغان طالبان کے ڈر سے اپنا ملک کبھی نہیں چھوڑوں گی، یہیں رہ کر افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑوں گی۔" چند دن قبل ندیمہ صاحبہ کا ایک مفصل آرٹیکل "الجزیرہ" میں شایع ہُوا ہے۔
لکھتی ہیں: "افسوس کی بات ہے کہ کوئی بھی افغان مرد اپنی بیٹیوں، بہنوں، بھانجیوں اور بھتیجیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے باہر نکلنے اور جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ افغان مردوں کو پیسہ، طاقت اور اقتدار چاہیے۔ بس۔" ندیمہ صاحبہ نے اپنے آرٹیکل میں افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ممکن ہے کچھ مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا ہو۔
افغان خواتین کے حقوق بارے حقیقت وہی ہے جو وزیر اعظم عمران خان نے ستمبر2021کے وسط میں سی این این کی بیکی اینڈرسن کو انٹرویو کے دوران کہی: " کوئی باہر سے آکر افغان خواتین کو حقوق نہیں دلا سکتا۔ افغان خواتین طاقتور ہیں، انھیں وقت دیا جائے۔ افغان خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔"
افغانستان میں طالبان حکومت تشکیل پا کر آگے بڑھ رہی ہے۔ کئی حکومتوں کے خاص الخاص اعلیٰ عہدیداروں نے کابل میں آنا جانا شروع کر دیا ہے۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت عالمی میڈیا طالبان کی مذہبی حکومت بارے دھول اُڑانے کی نامناسب کوشش کررہا ہے۔
اگرچہ افغانستان اماراتِ اسلامیہ کی نئی حکومت جمہوری نہیں ہے لیکن اس کے باوجود طالبان کو اپنے نظریے اور مسلک کے مطابق کارِ حکومت چلانے کا پورا حق ہے۔ جو عالمی عناصر افغان طالبان کی حکومت کی راہیں مسدود کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان میں افغان خواتین کے حقوق کے نام کو دانستہ اور قابلِ گرفت انداز میں ایکسپلائیٹ کیا جارہا ہے۔ کابل میں طالبان کے زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی طالبان حکومت کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد، نے عالمی میڈیا کے سامنے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اعلان اور وعدہ کیا تھا کہ اسلامی افغانستان میں تمام افغان خواتین کو اسلامی حدودو قیود میں تمام آزادیاں اور حقوق حاصل ہوں گے۔ یہ وعدہ مناسب اور نئے حکمرانوں کی شخصی پہچان سے مطابقت رکھتا تھا۔
جناب ذبیح اللہ مجاہد کے اعلان کے بعد کابل اور دیگر افغان شہروں میں کچھ خواتین نے حکومت مخالف جلوس نکالے۔ ان میں جو زبان استعمال کی گئی، وہ غیر مناسب تھی ؛ چنانچہ ان مُٹھی بھر اور بے جا مشتعل خواتین کو طالبان سپاہیوں نے روکا، ہوائی فائرنگ بھی کی اور ان کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کیں۔ تاک میں لگا عالمی اور بھارتی میڈیا نے طالبان سپاہیوں کے اس بے ضرر اقدام کو اسکینڈل بنا دیا اور شور مچا دیا کہ طالبان حکمرانوں نے آتے ہی افغان خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کو " پامال" کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ پروپیگنڈہ جھوٹ اور کذب کا پلندہ تھا۔ شاید اس جھوٹ ہی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے باحجاب افغان خواتین نے بھی کابل اور دیگر افغان شہروں میں جلوس نکالے، یہ نعرے لگاتے ہُوئے کہ ہمیں افغان طالبان کے اقدامات اور فیصلوں سے کوئی شکایت نہیں ہے اور یہ کہ ہم برقعے اور حجاب میں کمفرٹیبل ہیں۔
مغربی، بھارتی اور امریکی میڈیا میں افغان خواتین جرنلسٹوں کی مظلومیت کی جو داستانیں شایع اور نشر کی جارہی ہیں، زیادہ تر ٹارگٹڈ ہیں۔ یہ درست ہے کہ کابل کے سرکاری ٹی وی سے افغان خواتین غائب ہو چکی ہیں لیکن سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ حکمران طالبان نے ایسا قدم کیوں اُٹھایا ہے؟ افغان مقتدر طالبان میں بدلاؤ یقیناً آیا ہے لیکن اتنا بھی نہیں ہے کہ وہ آتے ہی لبرلزم کا چولا پہن لیں۔
انھیں بدلنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض ممالک دانستہ افغان خواتین کو لالچ دے کر افغانستان سے نکال رہے ہیں۔ مثال کے طور پر چِلّی کے صدر سبستین پنیرا (Sebastian Pinera) نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ ایسے 10افغان خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ دے گا جن خاندانوں کی خواتین، افغان عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑتے ہُوئے مقتدر طالبان کے "مظالم" کا شکار بن گئی ہیں۔ کیا اِن الفاظ اور اندازِ دعوت کو مناسب کہا جا سکتا ہے؟
عالمی میڈیا میں یہ بات بھی اُچھالی جا رہی ہے کہ طالبان حکمران افغان خواتین کرکٹ ٹیم کو کھیلنے کی اجازت کیوں نہیں دے رہے؟ شاید یہ اِسی عالمی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ اب افغانستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین، عزیز اللہ فضلی، نے بھی آسٹریلین ریڈیو کو انٹرویو میں یہ کہہ دیا ہے کہ ہماری گورننگ باڈی اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ افغان خواتین کرکٹرز کو کس شکل میں کھیلنے کی اجازت دی جائے۔ واضح رہے کہ خراب حالات کے باوجود 25افغان کرکٹر خواتین کھلاڑیوں نے ابھی تک افغانستان نہیں چھوڑا ہے۔
یہ منظر افغان خواتین کے لیے اُمید افزا کہا جا سکتا ہے۔ ایک حوصلہ افزا خبر یہ بھی ہے کہ کابل ایئر پورٹ پر سابق ایئر پورٹ خواتین ملازمین نے واپس اپنے عہدوں پر آکر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کی تعداد درجن سے زائد بتائی گئی ہے۔
عالمی قوتوں اور عالمی میڈیا کو افغان خواتین کے حقوق کے نام پر نئے طالبان حکمرانوں کو دیوار سے لگانے کی سعیِ لاحاصل سے باز آ جانا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ نئے طالبان حکمرانوں سے اپنی نا تجربہ کاری کے کارن افغان خواتین کے خلاف بعض غیر محتاط بیانات بھی جاری ہُوئے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ روز کابل میں طالبان کے ایک ترجمان، ذکراللہ ہاشمی، نے ایک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے یہ کہہ دیا کہ " خواتین کو وزیر بنانے کی بات ہی بے بنیاد اور غیر مناسب ہے۔ افغان خواتین کے لیے بہتر یہی ہے کہ گھر بیٹھیں اور بچے پیدا کریں۔"اس بیان کو طالبان مخالف ورلڈ لابیز نے بہت اچھالا ہے۔
ذکر اللہ ہاشمی صاحب ایسے طالبان جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں، اُن سے ایسے بیانات ہی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اسے اُچھالنا مگر مناسب نہیں ہے۔ طالبان ترجمانوں کی ذہنی ساخت و تربیت کو بھی ہمیں پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
مثال کے طور پر کابل اور دیگر افغان شہروں میں چند خواتین نے طالبان قیادت کے خلاف مظاہرے کیے اور انھیں طالبان پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو اقوامِ متحدہ نے طالبان پولیس کے اس اقدام کے خلاف ترنت بیان جاری کر دیا۔ سابق افغان خواتین ججز، جن کی تعداد 250 بتائی جاتی ہے، کے بارے میں عالمی خبر رساں ادارے (اے ایف پی) کا کہنا ہے کہ یہ خواتین نہائت خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ ڈر رہی ہیں کہ جن ا فغان مردوں کو انھوں نے جرائم کی بنیاد پر جیلوں میں ڈالا تھا، طالبان نے ان سب کو رہا کر دیا ہے اور اب یہ انھی خواتین ججوں کی تلاش میں ہیں۔ ایسی خبریں شایع کرکے مغربی میڈیا طالبان کے بارے میں بُری تصویر کشی کررہا ہے۔ یہ قطعی نا مناسب ہے۔
(جاری ہے)