اگست2021 کا مہینہ ہم یوں بھی یاد رکھیں گے: (1) افغانستان کے دارالحکومت، کابل کا ایک بار پھر بغیر کسی جنگ کے سقوط ہوگیا(2) افغانستان کے "آخری منتخب صدر" کا طالبان کے ڈر سے اپنے وطن سے فرار۔ سچی بات تو یہ ہے کہ افغانستان کے "آخری منتخب صدر"ڈاکٹر اشرف غنی احمد زئی کے بھگوڑے پَن نے اپنے ملک کی توہین بھی کی ہے۔
اُن کے ذاتی کردار کو بٹہ بھی لگا ہے، لوگر میں آباد اپنے قبیلے (احمد زئی) کی بے عزتی بھی کرائی ہے اور خود کوآزادی پسند غیور افغان کہلانے والوں کا سر بھی شرم سے جھکا دیا ہے۔ اشرف غنی کامیابی کے ساتھ ملک سے فرار تو ہو گئے اور اب متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی شاہی حکومت میں محفوظ اور مامون بھی ہیں لیکن متعدد اور متنوع الزامات نے اُن کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ اُن کا انجام بھی ایران کے آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی، کی مانند ہونے والا ہے۔
اشرف غنی کی جیب میں امریکی پاسپورٹ تو ہے لیکن وہ ابھی تک امریکا جانے کی جسارت نہیں کر سکے ہیں۔ وہ افغانستان سے فرار ہو کر پہلے ایک وسط ایشیائی ملک پہنچے تھے لیکن لگتا ہے کہ انھیں وہاں کے حکمرانوں نے پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ شاید اسی لیے اشرف غنی کے ٹھکانے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہورہا تھا۔ شاید اِسی لیے کابل میں فاتح افغان طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد، نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھی کہا تھا کہ "ہمیں اشرف غنی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ یہ صاحب کہاں ہیں۔"
ذبیح اللہ مجاہد کی اس پریس کانفرنس کے بعد ہی یو اے ای حکومت نے پہلی بار باقاعدہ تسلیم کیا کہ "اشرف غنی کو ہم نے انسانی ہمدردی کے تحت پناہ دی ہے " متحدہ عرب امارات حکومت کے اعلان کے بعد ہی اشرف غنی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنے فرار کا اعتراف کیا۔ کہا: " مَیں کابل سے اس لیے نکلا کہ کابل میں میری موجودگی خون خرابے کی وجہ بن سکتی تھی۔"
پھر کہا: " مَیں کابل سے نہ نکلتا تو طالبان میرا بھی وہی حشر کرتے جو انھوں نے کئی سال قبل کابل فتح کے وقت افغان صدر، ڈاکٹر نجیب اللہ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا تھا۔"(نجیب اللہ کو ملا محمد عمر کے فاتح طالبان نے27ستمبر 1996ء کو کابل میں تشدد کے بعد پھانسی دی تھی) اس عذر لنگ کے باوجود ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے ملک اور عوام کو جس طرح بے یارومددگار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کی، یہ پرلے درجے کی بزدلی ہے۔
سچ کہا ہے کسی افغان رہنما نے: "اشرف غنی نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہمیں جانوروں کی طرح فروخت کر ڈالا"۔ شاید اشرف غنی کی لبنانی نژاد اہلیہ، رولا، بھی انھیں معاف نہ کر سکیں۔ امریکا میں آباد اشرف غنی کے دونوں بچے (مریم غنی اور طارق غنی) کے لیے بھی اپنے والد کا یہ کردار کبھی باعثِ افتخار نہیں بن سکے گا۔ اشرف غنی کے برادرِ خورد، حشمت غنی، بھی اُن کے فرار پر سخت ناراض ہیں۔
اشرف غنی افغان صدارت سے مستعفی ہُوئے بغیر فرار ہُوئے اور اپنے پیچھے بہت بڑا آئینی بحران پیدا کر گئے۔ افغان طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد، نے عالمی میڈیا کے سامنے شکوہ کیا ہے کہ اشرف غنی نے وعدے اور معاہدے کے مطابق دوحہ میں اپنا استعفیٰ ہمارے حوالے کرنا تھا لیکن وہ وعدہ شکنی کرتے ہُوئے ملک سے فرار ہو گئے۔ اشرف غنی پر سنگین الزامات لگائے جارہے ہیں۔
مثلاً:سب سے پہلے رُوسی میڈیا نے الزام عائد کیا کہ اشرف غنی افغانستان سے فرار ہوتے وقت اپنے ساتھ کئی ملین ڈالرز لے گئے ہیں۔ طالبان کے ترجمان نے کابل کے صدارتی محل میں اپنی اولین پریس کانفرنس میں یہ الزام بھی دہرایا اور کہا کہ وہ بقیہ 400ملین ڈالرز بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن افرا تفری کے سبب ساتھ نہ لے جا سکے۔
تاجکستان میں افغان سفیر (محمد ظاہر غبار) نے تو یہ تک کہہ ڈالا ہے کہ اشرف غنی ملک سے فرار ہوتے وقت 16کروڑ90لاکھ ڈالرز اپنے ساتھ لے گئے؛ چنانچہ اب طالبان عالمی برادری سے یہ مطالبہ کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ اشرف غنی کو ہمارے حوالے کیا جائے۔
جواباً اشرف غنی کہہ رہے ہیں: مَیں تو کابل سے نکلتے ہُوئے صرف چند جوڑے کپڑے ہی ساتھ لا سکا۔ اُدھر اشرف غنی افغان عوام کے کروڑوں ڈالرز مبینہ طور پر ساتھ لے گئے ہیں اور اِدھر امریکا نے یہ زیادتی کی ہے کہ امریکا میں افغانستان کی حکومت کے 9ارب ڈالرز کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ انقلابِ ایران کے بعد ایسی ہی زیادتی امریکا نے نئی ایرانی انقلابی حکومت کے ساتھ بھی کی تھی۔ امریکا میں موجود ایران کے اربوں ڈالرز منجمد کر دیے گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر رقوم، 40سال گزرنے کے باوجود، ابھی تک امریکا نے ایران کو واپس نہیں کی ہیں۔
ڈاکٹر محمد اشرف غنی احمد زئی طالبان سے ڈر کر ملک سے فرار تو ہو گئے ہیں لیکن مسلسل الزامات اُن کے تعاقب میں ہیں۔ سابق امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے بارے میں نہائت لغو الفاظ استعمال کیے ہیں۔
پاکستان کے وزیر داخلہ، شیخ رشید احمد، نے کہا ہے:" عمران خان نے ازبکستان میں اشرف غنی کو سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن اس شخص کے ذہن میں فتور تھا۔" شیخ صاحب نے یہ تو نہیں بتایا کہ اشرف غنی کو ہمارے وزیر اعظم صاحب نے کیا بات سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن ہم سمجھ سکتے ہیں کہ افغانستان اور افغان عوام کی بہتری اور مفاد کے لیے ہی کوئی بات سمجھانے کی کوشش کی ہوگی لیکن اشرف غنی تو اقتدار کے سرکش اور بے لگام گھوڑے پر سوار تھے۔
اُن کا خیال تھا کہ ابھی دِلّی بہت دُور ہے اور امریکا سر پر ہے، پھر پاکستان کی بات کیوں مانیں؟ طالبان نے مگر اشرف غنی کے سب کس بَل نکال دیے ہیں۔ وہ اگر بہادری کے ساتھ افغانستان ہی میں جمے رہتے تو یقیناً طالبان سے کوئی نہ کوئی صلح اور ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی تھی۔ آخر طالبان کے تین بڑے "دشمن"(حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور اسماعیل خان) بھی تو افغانستان ہی میں ہیں۔ ان سب کے ساتھ طالبان نے(ابھی تک تو) برادرانہ سلوک کیا ہے۔ لوگر میں اشرف غنی کی 200ایکڑ نجی زمین بھی اُن کی بخوبی کفایت کر سکتی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ اشرف غنی کے حوصلے پست ہوچکے تھے، چنانچہ انھوں نے فرار ہی میں نجات سمجھی۔ بھلا72سال کی عمر میں وہ اپنے آبائی وطن سے بے توقیر ہو کر مفرور حالت میں مزید کتنے دن جی سکیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ کرپٹ اور بددیانت حکمران کبھی حوصلہ مند نہیں ہو سکتا، خواہ وہ ایران کا بادشاہ رضا شاہ پہلوی ہو یا افغانستان کا صدر اشرف غنی یا کوئی اور۔ اہلِ بصیرت کے لیے اس میں کس قدر عبرتیں ہیں۔