Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Agli Bari Kis Ki Hai?

    Agli Bari Kis Ki Hai?

    جمہوریہ سوڈان( جہاں 97فیصد مسلمان رہتے ہیں ) کے دارالحکومت، خرطوم میں سوڈان، اسرائیل معاہدہ "نامنظور" کے نعرے لگ رہے ہیں۔ حکومت پر قابض سوڈانی جرنیلوں اور سوڈان کی عبوری حکومت کے ذمے داروں کے خلاف بھی سخت زبان استعمال کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اسلامی سوڈان کی عبوری حکومت کو اس بات کا قطعی حق نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اس سے تعلقات معمول پر لانے (نارملائزیشن) کے لیے کوئی معاہدہ کر سکے۔

    سوڈان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں (پی سی پی اور ایف ایف سی) اور سوڈان کے سابق وزیر اعظم، صادق المہدی، بھی سختی سے سوڈان اور اسرائیلی دوستی کی مخالفت کررہے ہیں۔ سوڈانی حکومت کے خلاف احتجاجی جلوسوں میں فلسطین کے حق میں زبردست نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ فلسطینیوں، ترکوں اور ایرانیوں نے سوڈان اور اسرائیل کے باہم قریب ہونے پر سخت ناراضی، غصے اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ مگر اسرائیل میں سیاسی پناہ لینے والے 10ہزار سوڈانیوں کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ اگر اسرائیل اور سوڈان میں محبت کی پینگیں زیادہ بڑھتی ہیں تو انھیں اسرائیل سے نکال کر دوبارہ سوڈان بھیج دیا جائے گا۔ یہ پناہ گیر سوڈانی وہ ہیں جو ایک عشرہ قبل سوڈان کے خانہ جنگی زدہ علاقے (دارفور) سے بھاگ کر اسرائیل آ پہنچے تھے۔

    سوڈان نے بھی (متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح) امریکی " تعاون" سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے۔ یہ واقعہ 23اکتوبر2020 کو رُونما ہُوا لیکن اب یکم نومبر2020 کو امریکی صدر کی موجودگی میں سوڈان نے اسرائیل تسلیم کرنے کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میں بھی اسرائیلی یہودیوں کو خوش کرنے کی ایک اور کوشش کی ہے۔

    صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم (بنجمن نیتن یاہو) اور سوڈانی وزیر اعظم( عبداللہ حمدوک)اور سوڈان کی عبوری کونسل کے سربراہ( جنرل عبدالفتح البرہان) سے فون کال کے دوران معاہدے پر مہر لگائی۔ امریکی صدر نے سوڈانی حکمرانوں کو لالچ دیا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے اُسے دہشت گردی کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔

    اس حوالے سے سینئر امریکی عہدیدار نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 23اکتوبر کی رات امریکی صدر کے سرکاری طیارے، ایئر فورس ون، میں دستاویز پر دستخط کیے تاکہ اُن کی طرف سے سوڈان کو دہشت گردی کی فہرست سے نکالنے کے ارادے سے امریکی کانگریس کو فوری آگاہ کیا جاسکے۔ امریکا کی طرف سے اس معاہدے سے متعلق مذاکرات ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر و داماد جیرڈ کشنراور امریکی وزیر خارجہ نے کیے ہیں۔ اس بارے جیرڈ کشنر نے کہا:" سوڈان اور اسرائیل میں دوستی کی یہ ایک بڑی پیشرفت ہے۔

    یہ دونوں ممالک میں امن قائم کرے گی۔"۔ سوڈان اور اسرائیل نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ دونوں ممالک میں فوری طور پر اقتصادی اور زرعی تعلقات قائم ہوں گے۔ اس موقع پر امریکا نے خوش ہو کر کہا:" سوڈان کی عبوری حکومت نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی، جمہوری اداروں کی تعمیر اور اپنے پڑوسیوں سے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے جرأت اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکا اور اسرائیل نے سوڈان کے ساتھ اس کے نئے آغاز میں شراکت کرنے پر اتفاق کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ وہ عالمی برادری میں پوری طرح پہچانا جائے"۔

    ان الفاظ پر غور کیجیے اور دیکھیے کہ جونہی امریکی و اسرائیلی مفاد میں اسلامی سوڈان اسرائیل کی جھولی میں پکے ہُوئے پھل کی طرح گرا ہے، سوڈان کے بارے میں امریکی لہجہ بھی فوری بدل گیا ہے۔ اس میں ملائمت بھی آ گئی ہے اور مٹھاس بھی۔ اس سے قبل یہی امریکا تھا جو سوڈان کو Axis of Evil(برائی کا محور) قرار دیتا تھا اور سوڈان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی ہر قرار داد میں پیش پیش رہا۔

    امریکی دباؤ پر سوڈان دو عشروں تک دہشت گردی کی فہرست میں شامل رہا ہے۔ یہی اسلامی سوڈان ہے جس نے ماضی قریب میں جب اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دی تھی تو امریکا نے(صدر بل کلنٹن کی قیادت میں )سوڈان پر کروز میزائلوں سے حملہ کر دیا تھا۔ اور اب اس کے تیور "محبت" میں بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ وہی سوڈان ہے جس کے دارالحکومت میں 1967میں "عرب لیگ" نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ قومیں جب کمزور و بے نظریہ اور اس کے حکمران جب کرپٹ ہو جاتے ہیں تو انھیں اِسی طرح طاقتوروں کے سامنے جھکنا پڑتا ہے جیسا کہ سوڈان بالآخر اسرائیل کے سامنے جھک گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سوڈان کے کرپٹ اور آمر حکمرانوں نے اس ملک کو گدھوں کی طرح نوچا ہے۔

    ڈاکٹرحسن ترابی ایسا اسلام پسند اعلیٰ تعلیم یافتہ سوڈانی دانشور، جو آمر صدر عمر البشیرکا سرپرست رہا، بھی سوڈان کو کرپشن اور آمریت سے نجات نہ دلا سکا۔ اور آج حال یہ ہے کہ تین عشروں تک سوڈان کی گردن پر سوار رہنے والا 75سالہ آمر صدر عمر البشیر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے سنگین مقدمات ثابت ہونے پر جیل کی سزا بھگت رہا ہے۔ پچھلے سال جب اِسی ڈکٹیٹر عمر البشیر کی حکومت ختم کی گئی اور اُن کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے کروڑوں کی تعداد میں نقد ڈالرز، پونڈز اور یوروز برآمد ہُوئے۔

    ستم ظریفی دیکھیے کہ جبر اور دباؤ کے سامنے ڈھے کر بھی سوڈان کو امریکا نے مالی میدان میں معاف نہیں کیا ہے۔ جس روز سوڈان اور اسرائیل کے درمیان مذکورہ معاہدہ ہُوا، اُس سے چند روز پہلے ہی سوڈان نے امریکا کو بھاری ہرجانہ (335ملین ڈالرز)ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ امریکا نے یہ ہرجانہ اور جرمانہ سوڈان کو اس الزام کے تحت کیا تھا کہ سابق سوڈانی آمر صدر، جنرل عمر البشیر، کے دورِ اقتدار میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکیوں پر "القاعدہ" نے حملے کیے تھے اور ان کا الزام سوڈان پر عائد کیا گیا۔ اس کی سزا335 ملین ڈالرز جرمانے کی شکل میں سوڈان کو دی گئی ہے۔

    عرب میڈیا کے بعض حصے سوڈان، اسرائیل کی تازہ دوستی کو نمایاں خبر میں سامنے لارہے ہیں۔ ایک عربی اخبار نے سوڈان اور اسرائیل معاہدے کو فرنٹ پیج پر سب سے بڑی خبر کی صورت میں شایع کیا ہے۔ ساتھ ہی مصری صدر، جنرل عبدالفتاح السیسی، کا یہ پیغام بھی شایع کیا:" سوڈان اور اسرائیل میں ہونے والا یہ معاہدہ شاندار، تاریخ ساز اور قابلِ ستائش لمحہ ہے۔

    اس سے خطے میں مزید امن اور استحکام آئیگا۔"مصر کے آمر صدر نے یہ تحسینی پیغام دینا ہی تھا کہ مصر خود بھی تو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ معاہدے میں برسوں پہلے اُس وقت بندھ گیا تھا جب اسرائیل نے مصر کو بہت بُری طرح شکست دی تھی۔ اسرائیل کی گود میں سوڈان کے گرنے سے امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی پیشگوئی سچ ثابت ہُوئی ہے کہ "یو اے ای اور بحرین کے بعد کچھ مزید اسلامی ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔"اب اگلی باری کس کی ہے؟ ؟