محترم و مکرم حضرت مولانا فضل الرحمن کا احتجاجی قافلہ جس تیزی اور برق رفتاری کے ساتھ صوبہ سندھ سے مارچ کرتا ہُوا وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد، پہنچا ہے، اِسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قافلے میں شریک افراد اور قائدین کی تعداد کتنی ہو گی۔ جے یو آئی (ایف) کے اسلام آبادی قائدین اور مقامی انتظامیہ کے درمیان جو مبینہ معاہدہ طے پایا گیا ہے، حکومت اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر قوی امید رکھتے ہیں کہ فریقین معاہدے کے تمام نکات کی پاسداری کریں گے۔
ہجومی یلغار میں مگر معاہداتی شقوں کی اتنی حرمت برقرار رہتی نہیں ہے۔ قبلہ مولانا فضل الرحمن کے کنٹینر کے ساتھ کھڑے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، بعض ایسے "مذہبی قائدین" بھی ہیں جن کے کوئی مسلکی پیروکار ہیں نہ سیاسی۔ مثال کے طور پر شاہ اویس نورانی صاحب۔ ایسے "قائدین" کی موجودگی میں مولانا فضل الرحمن صاحب اپنے اہداف اور مقاصد کہاں تک اور کتنے حاصل کر سکیں گے، یہ ہم پر اظہر من الشمس ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ لینے کے لیے اسلام آباد آنے والے مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روز لاہور میں جو خطاب فرمایا ہے، اُس میں قوت و حشمت کا عنصر تقریباً مفقود تھا۔ کسی قدر مایوسی بھی۔ مثال کے طور پر اُن کا یہ فرمانا کہ "یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان استعفیٰ دیں گے۔ " پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی طرف سے توقعات کے مطابق "آزادی مارچ" کے لیے شرکت کنندگان کا نہ ملنا بھی مولانا موصوف کی اُمیدوں پر اوس ڈال گیا ہے۔
ملکی سطح پر بعض ایسے واقعات بھی رُونما ہُوئے ہیں جنھوں نے اس مارچ ( یا مبینہ دھرنے) پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب کے مشہور علاقے، رحیم یار خان، میں لیاقت پور شہرکے نزدیک ٹرین کا خوفناک اور مہلک حادثہ۔ تیز گام ٹرین کراچی سے لاہور آرہی تھی۔ زیادہ تر مسافر رائے ونڈ میں منعقد ہونے والے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شریک ہونے کے لیے آ رہے تھے۔
یہ تو بعد از تحقیقات ہی معلوم ہوگا کہ دراصل واقعہ کیا ہُوا لیکن فی الحال تو وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی جانب سے یہی بتایا جا رہا ہے کہ"تیز گام" کی دو تین بوگیوں میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی اور اُس نے پلک جھپکتے میں چار درجن کے قریب مسافروں کی جان لے لی۔ جاں بحق ہونے والے یہ سبھی افراد شہید ہیں۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ لیکن تیز گام میں آگ لگی کیسے؟ وزیر موصوف کا کہنا ہے کہ مسافروں میں سے کسی نے ناشتہ بنانے کے لیے چولہا جلایا تو بے احتیاطی سے آگ بھڑک اُٹھی تاہم میڈیا پر عینی شاہد کے حوالے سے مختلف بات بھی آرہی ہے۔
شیخ رشید صاحب آئے روز ریلوے نظام کو اپ ٹو ڈیٹ اور جدید بنانے کے جو دعوے کرتے رہتے ہیں، اس تازہ ترین سانحہ ہی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اُن کا وضح کردہ اسکیننگ سسٹم کتنا جدید اور اَپ ٹو ڈیٹ ہے۔ لیاقت پور شہر کے نزدیک ہونے والے اس افسوسناک حادثے کی فضا سے مولانا فضل الرحمن صاحب کا "آزادی مارچ" الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ ملک پر ان شہادتوں کی اساس پر جو سوگوار کیفیت طاری ہُوئی ہے۔
اس میں مولانا موصوف کی آواز شائد مدھم پڑ جائے۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے جڑواں شہر مگر خوف میں ضرور مبتلا ہیں۔ ان دونوں شہروں کے باسیوں نے عمران خان صاحب کے 126دنوں کے تاریخی دھرنے اور مولانا خادم حسین رضوی صاحب کے سخت احتجاجی جلوسوں کے مناظر بھی دیکھ رکھے ہیں اور ان کے "مزے" بھی چکھ چکے ہیں۔ دونوں سیاسی ومذہبی دھرنوں نے جڑواں شہروں کی زندگی قیامت بنائے رکھی۔ ا نہیں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ یہ دراصل افسوس اور بربادی کی داستانیں ہیں۔
اب حضرت مولانا فضل الرحمن اپنے جانثاروں کی سنگت میں آ بیٹھے ہیں تو اسلام آباد و راولپنڈی کے مکینوں کا اپنے سابقہ تلخ تجربات کی روشنی میں پریشان اور خوفزدہ ہونا غیر حقیقی اور غیر فطری نہیں ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، راولپنڈی اور اسلام آباد کے سبھی تعلیمی ادارے بند ہیں۔ ٹرانسپورٹ غائب ہو چکی ہے۔ دفاتر کی حاضری بھی کم کم ہے۔ ہر گوشے میں لبوں پر بس یہی ایک سوال ہے: عمران خان 126دنوں کے دھرنے کے باوصف وزیر اعظم نواز شریف سے حسبِ منشا استعفا نہیں لے سکے تھے تو مولانا فضل الرحمن اکیلے ہی وزیر اعظم عمران خان کا استعفا کیسے لے سکیں گے؟
یہ درست ہے کہ عمران خان کی حکومت میں عوامی زندگیاں تلخ تر ہو چکی ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور نا اُمیدی میں بے بہا اضافہ ہُوا ہے۔ عوامی آرا جاننے کے حوالے سے معروف ادارے "گیلپ" نے بھی اپنے تازہ ترین عوامی سروے کے نتائج میں یہی کہا ہے کہ "کرپشن نہیں بلکہ مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ " عوام کو جس روشن مستقبل کے سہانے خواب پی ٹی آئی قیادت نے جوشِ جذبات میں دکھائے تھے، وہ سب کسی نا معلوم دھند میں غائب ہو چکے ہیں۔ ملکی معیشت ڈانواڈول ہے۔ صنعتی پہیہ تقریباً منجمد ہے۔ کئی غیر ملکی بینک بھی یہاں سے اپنی بساط لپیٹنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
مسلط کردہ نئے ٹیکسوں کی بھرمار تو ہے لیکن کسی طرف سے عوامی ریلیف کی کوئی صورت گری سامنے نہیں ہے۔ نون لیگی اور پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت حوالہ زندان ہے۔ ایسے میں تنہا مولانا فضل الرحمن کی دارالحکومت پر یلغار کیونکر ثمر آور ثابت ہو سکے گی؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہاں اس یلغار کا صرف یہ نتیجہ ضرور برآمد ہو سکتا ہے کہ ملک مزید بے یقینی اور بے اعتمادی کا شکار بن جائے۔
ان پیش افتادہ حقائق کے باوجود مولانا مذکور کو حق الیقین ہے کہ اُن کے احتجاجات اپنے مقاصد سے ہمکنار ہو کر رہیں گے۔ موصوف کہتے ہیں کہ "آزادی مارچ دھرنا نہیں، تحریک ہے جو نتائج ملنے تک چلتی رہے گی۔ " اس امید کی بنیاد اور اساس کیا ہے؟ دراصل عالمی سطح پر اِنہی ایام میں کئی ایسے واقعات رُونما ہُوئے ہیں کہ حکومتوں اور حکمرانوں کے خلاف سخت عوامی احتجاجات نے کئی حکمرانوں کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا ہے؛ چنانچہ مولانا فضل الرحمن صاحب کو بھی اُمید ہے کہ ممکن ہے اُن کا "آزادی مارچ" بھی کسی کے استعفے کا باعث بن جائے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی گزشتہ روز ہی لبنان کے نہایت طاقتور، دولتمند اور تجربہ کار وزیر اعظم، سعد الحریری، عوامی احتجاجی یلغار کے سامنے تنکے کی طرح بہہ گئے اور بالآخر مستعفی ہو کر گھر چلے گئے۔ سعودی عرب ایسا طاقتور حلیف ملک بھی سعد الحریری کی پشت پر کھڑا تھا لیکن حریری صاحب عوامی احتجاجی سیلاب کے سامنے ٹھہر نہ سکے کہ مہنگائی اور ٹیکسوں کی کمر شکن بھرمار نے عوامی زندگیاں اجیرن بنا رکھی تھیں۔ الجزائر میں عوام اپنے صدر اور وزیر اعظم (عبد القادر بن صالح اور نورالدین بدوئی) سے استعفے لینے کے لیے سڑکوں پر مارچ کررہے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم، عادل عبدالمہدی، کے خلاف بھی عوام سخت احتجاجات کررہے ہیں۔ مطالبہ ہے کہ وہ استعفیٰ دیں کہ مہنگائی، بیروزگاری اور لاقانونیت نے اُن کی زندگیاں جہنم بنا دی ہیں۔
عراقی وزیر اعظم کے حکم پر عراقی سیکیورٹی فورسز اب تک ڈھائی سو احتجاجی عراقیوں کا قتل کر چکے ہیں لیکن ہنگامے، فسادات اور احتجاجات ختم نہیں ہو رہے۔ عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم مہدی صاحب مستعفی ہو ں اور گھر کی راہ لیں۔ یہ عالمی مناظر شائد حضرت مولانا فضل الرحمن کو تقویت دے رہے ہیں۔