ایک تازہ کتاب نے بھی ثابت کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کو بجا طور پر "ہٹلر" کا پیروکار کہتے ہیں۔ مودی کی اسلام دشمنی، کشمیریوں سے عناد اور مسلمانوں سے کھلا بَیر اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب اسے لاعلاج مرض کہا جانے لگا ہے۔
مودی کے اس نظریے کا ذکر ہمارے وزیر اعظم نے عالمی فورموں پر بھی کیا ہے۔ 25ستمبر2020 کو عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے جو خطاب کیا ہے، اس میں دیگر کئی باتوں کے مودی کو آر ایس ایس کے نظریات پر عمل پیرا ہونے کا ذکر بھی کیا کہ آر ایس ایس کی پرچارک بھارتی حکومت اسلاموفوبیا پھیلا رہی ہے۔
اس نے 30کروڑ بھارتی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ جس طرح اڈولف ہٹلر اور نازی پارٹی یہودیوں کے خلاف تھے، اسی طرح آر ایس ایس مسلمانوں کے خلاف ہے۔ دُنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔" بی جے پی اور آر ایس ایس کے پیروکار، ہمارے وزیراعظم کے اس بیانئے سے جزبز ہو رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مودی آر ایس ایس کے دستور پر عمل کررہے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے 5اگست2020کو جن بنیاد پرست ہندو مذہبی رہنماؤں کی قیادت میں ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ "رام مندر" کا نیا سنگِ بنیاد رکھا، اس نے بھی ثابت کیا ہے کہ مودی اورآر ایس ایس کے نظریات ایک ہیں۔ میرے پاس حال ہی میں چھوٹے چھوٹے مگر معرکہ خیز مضامین اور ذاتی یادداشتوں پر مبنی ایک دلچسپ کتاب آئی ہے۔
اِس کتاب کا عنوان ہے: "نایاب ہیں ہم "۔ کتاب مذکور کا ایک مضمون ہم پر منکشف کرتا ہے کہ واقعتاً نریندر مودی آج جن پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں، اس کی تربیت انھوں نے آر ایس ایس کے بانیان اور گروؤں(ڈاکٹر کے بی ہیگواڑ اور گول والکر) سے حاصل کررکھی ہے۔ کتاب کے مصنف 1964 کو ممبئی میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ آر ایس ایس کے چیف اور مودی کے ذہن ساز، گرو گول والکر، سے ملے۔ اس ملاقات کا انکشاف خیز اور دلچسپ احوال کتاب مذکور میں " نریندر مودی کے گرو سے ملاقات" کے زیر عنوان شایع ہُوا ہے۔
آر ایس ایس کے بانی ( ڈاکٹر ہیگواڑ) کے مرنے کے بعد گول والکر کو آر ایس ایس کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ ملاقات میں گرو گول والکر نے اپنے نظریات کی پر فشانی کرتے ہُوئے کھل کر کہا:"مَیں کمونسٹوں کا بھی سخت مخالف ہُوں کیونکہ وہ بھی بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح اس لحاظ سے غیر ملکی ہیں کہ یہ بھی غیر ملکی نظرئیے سے وابستہ ہیں۔ مَیں انھیں بھارت کا داخلی دشمن سمجھتا ہُوں۔" مزید کہا:" میرا سیدھا سادا کہنا ہے کہ جو لوگ ہندو مت میں شامل نہیں ہیں، وہ بے حد بدقسمت ہیں۔
ان کا اِس دیش ( بھارت) سے کوئی سمبندھ( تعلق) نہیں ہے اور انھیں یہاں رہنے کا بھی کوئی ادھیکار( حق) نہیں ہے۔ مسلمان اور عیسائی باہر سے اس ملک میں آئے۔ انھیں ہندوستانی یا بھارتی تسلیم کیا جا سکتا ہے نہ انھیں بھارت میں رہنے کا حق ہے "۔
کتاب کے مصنف نے آر ایس ایس کے سربراہ، گرو گول والکر، سے مکالمہ مزید آگے بڑھایا تو انھوں نے کہا:"مسلمانوں کے آنے سے پہلے چندر گپت موریہ اور اشوکا کے دَور میں ہندوستان اپنی ترقی اور تہذیب میں عروج پر تھا اور ایک لاجواب اتحاد اور یکجہتی تھی اور زندگی امن اورآشتی کی تھی۔ مسلمانوں کے آنے کی وجہ سے ہندوستان میں مذہب کے ٹکراؤ نے پورے ملک کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ آر ایس ایس اُس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھے گی جب تک پاکستان کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور جو اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا.
ہم اُسے بھی ختم کر دیں گے۔ دُنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو بھارت میں رہنے نہیں دے سکتی۔ مسلمانوں کو اس دھرتی سے نکلنا ہوگا۔ اُس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے اِس دھرتی پر قدم رکھا تھا، اب تک ہندوستان اس ملک کو تباہ کرنے والوں سے لڑ رہا ہے۔"ہٹلر کے بارے میں اپنے نظریات بیان کرتے ہُوئے گول والکر نے مصنف سے کہا:"ہندوستان کو ہٹلر سے سبق لینا چاہیے کہ کس طرح مختلف نسلوں اور ثقافتوں کے اختلاف اور تضاد کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے غیر ہندوؤں کو، اپنا سب کچھ ترک کرکے، ہندو دھرم اور ہندو سنسکرتی زبان اختیار کر لینا چاہیے۔" کتاب کے مصنف نے لکھا ہے:" اب جب بھی مَیں اس ملاقات کے بارے میں سوچتا ہُوں تو ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اپنے گرو کے نظریات کے عین مطابق ہندوستان کو ڈھال رہے ہیں جس کی وجہ سے بھارت میں غیر ہندوؤں کا زندگی گزارنا محال ہو رہا ہے۔"
بھارت میں رہنے والے غیر ہندوؤںکی زندگیاں مودی کی حکومت نے جہنم بنا کر رکھ دی ہیں۔ حیرت مگر یہ ہے کہ بھارت کے اندر ہی سے بعض اہم مسلمانوں کی طرف سے ایسی آوازیں بھی اُٹھ رہی ہیں کہ نریندر مودی تو بھارتی مسلمانوں کا "محسن" ہے۔ 6اکتوبر2020 کو معروف بھارتی انگریزی اخبار میں ایک بھارتی مسلمان لیڈر کا تفصیلی آرٹیکل شایع ہُوا ہے۔ موصوف نے اپنے آرٹیکل میں مودی جی کو بے بنیاد طور پر اینٹی مسلم قرار دیا ہے۔"
غلطی کی نشاندہی کا شکریہ: ہمارے گذشتہ کالم(9اکتوبر) میں ایک واقعاتی غلطی کی نشاندہی کرتے ہُوئے ہمارے معزز قارئین میں سے میاں محمد افضل، پروفیسر محی الدین، احمد نعمان اور پروفیسر احمد شاہ نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے جن وابستگان کو پھانسیاں دی گئیں، وہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے دَورِ اقتدار میں نہیں بلکہ موجودہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے دَور میں دی گئیں۔ غلطی کی نشاندہی کا شکریہ۔