کل 9نومبر ہے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام اپنے عظیم قومی محسن، حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کا 142واں یومِ ولادت ملی جوش و جذبے کے ساتھ منا ئیں گے۔ دُنیا بھر میں بسنے والے عاشقانِ اقبالؒ بھی اس موقع پر علامہ اقبال کی عظیم فکری، دینی، فلسفیانہ خدمات کو اپنے اپنے انداز میں خراجِ عقیدت و تحسین پیش کریں گے۔ ایسے میں بھارت سے ایک عجب خبر آئی ہے۔
یہ خبر ہمیں بتاتی ہے کہ جو افراد اور پارٹی اس وقت بھارتی اقتدار پر قابض ہیں، وہ مسلمانوں اور پاکستان کی نفرت میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ ہر وہ شئے، شخصیت یا مقام جس سے مسلمانوں کی محبت اور احترام وابستہ ہے، اُسے مسمار کر دینا چاہتے ہیں۔ اِس بار بھارتی بنیاد پرست مقتدر ہندو جماعتوں نے حضرت علامہ اقبال علیہ رحمہ کو اپنی نفرت کا ہدف بنایا ہے، یوں کہ اپنے ایک مسلمان ٹیچر کو سزا دے کر اُسے دوسرے بھارتی مسلمانوں کے لیے نشانِ عبرت بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔
پیلی بھیت بھارتی ریاست "اُتر پردیش" کا ایک معروف ضلع ہے۔ وہیں سے یہ خبر آئی ہے۔ "پیلی بھیت" میں ایک پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر، فرقان علی، نے حسبِ معمول صبح سویرے اپنے اسکول میں بچوں کے ساتھ علامہ اقبال ؒ کی ایک مشہور نظم دعا کی شکل میں پڑھی تو متعلقہ ضلع کے مجسٹریٹ نے شکایت پر ہیڈ ماسٹر صاحب کو نوکری ہی سے نکال دیا۔ متعصب بھارتی ہندوؤں کے نزدیک جرم بن جانے والی علامہ اقبالؒ کی یہ نظم "بچے کی دعا" کے عنوان سے شہرت رکھتی ہے۔ اس کا پہلا مصرعہ تو ہم سب کی زبان پر رہتا ہے : لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔
علامہ اقبال کی یہ آفاقی نظم پچھلی ایک صدی سے زائد عرصے سے برِ صغیر میں مسلسل پڑھی اور گائی جا رہی ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھی کئی بھارتی اسکولوں میں صبح کی اسمبلی میں بچے اسے گاتے رہے ہیں۔ کبھی کوئی معترض نہیں ہُوا۔ مگر جب سے نریندر مودی ایسا متعصب ہندو حکمران بھارتی اقتدار پر بیٹھا ہے، مسلمانوں کی پہچان بننے والی ہر نشانی زیر عتاب ہے۔
علامہ اقبالؒ کی مذکورہ نظم بھی موجودہ بھارتی حکمرانوں کے غصے، نفرت اور اعتراض کا سبب بن گئی ہے۔ 19اکتوبر2019 کو جب پیلی بھیت کے اسکول میں علامہ اقبالؒ کی یہ نظم پڑھی گئی تو ایک بنیاد پرست بھارتی ہندو جماعت (وشو ہندو پریشد) کی مقامی شاخ کے سربراہ نے اپنے مجسٹریٹ کے ہاں شکایت درج کروائی کہ ہیڈ ماسٹر فرقان علی اپنے اسکول میں بھارت کے خلاف( اینٹی نیشنل) نظمیں پڑھواتا ہے۔ اس شکایت پر فرقان علی کو ملازمت سے نکال دیا گیا۔ مسلمانوں نے احتجاج میں شور تو بہت مچایا ہے لیکن ابھی تک فرقان علی صاحب ملازمت پر بحال نہیں ہو سکے ہیں کہ "اتر پردیش" کے کٹر ہندو وزیر اعلیٰ (ادیتیا ناتھ) مسلمان دشمنی میں ہر حد پار کر چکے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کی مذکورہ نظم اُتر پردیش کے مذکورہ ضلع کے تمام اسکولوں میں جماعت اوّل تا ہشتم کے اُردو نصاب میں شامل بھی ہے۔ اس کے باوجود اقبالؒ دشمنی میں یہ ظلم کر ڈالا گیا ہے۔
معاندین و معترضینِ اقبالؒ میں صرف ہندو ہی شامل نہیں ہیں، تحقیق کی جائے تو ہمیں اس فہرست میں پاک بھارت کے کئی مسلمان دانشور و نقاد اور عالمِ مغرب کے کئی نام نہاد محققین بھی ملتے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جو علامہ اقبالؒ کی زندگی کے دوران تو سالہا سال اقبالؒ کے خلاف عناد اور دشمنی پالتے رہے لیکن پھر حیاتِ اقبالؒ کے دوران ہی اپنی مخالفتوں سے تائب بھی ہو گئے۔
وطنِ عزیز کے ممتاز محقق و دانشورپروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب صابر صاحب نے تین جلدوں پر مشتمل اپنی معرکہ خیز تحقیقی کتاب میں پاکستان و بھارت سمیت دُنیا بھر کے تقریباً تمام معاندین و معترضینِ اقبال کی فہرست پیش کر دی ہے، اُن کے اعتراضات بھی سامنے لائے ہیں اور پھر اپنے بے لاگ و بے رحم نشترِ تحقیق سے ان سب معترضین کے جملہ اعتراضات کا دندان شکن جواب بھی دیا ہے۔ اور ساتھ ہی وہ اسباب اور وجوہ بھی بتا دی ہیں کہ آخر کیوں اقبال ؒ پر کئی رُخوں اور اطراف سے حملے اور اعتراضات کیے گئے۔ یہ نہایت دلچسپ مطالعہ ہے۔ ڈاکٹرایوب صابر صاحب کی اس چشم کشا تصنیف کا نام ہے: اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات، ایک مطالعے!!
حضرت علامہ اقبالؒ سرزمینِ مشرق کا وہ تابندہ اور بلند ستارہ ہیں جن کے پیغام کی روشنی شرق تاغرب پھیلی ہُوئی ہے۔ بدقسمتی سے انہدامِ اقبالؒ کے لیے وسیع پیمانے پر، برسہا برس تک، زہریلا اور مسموم پروپیگنڈہ ہوتا رہا ہے۔ انفرادی اور نجی حیثیتوں میں اس پروپیگنڈہ کا جواب تو ہمیشہ دیا جاتا رہا ہے کہ اقبال کے شیدائیوں اور عاشقوں کی کبھی کمی نہیں رہی ہے۔ لیکن مبسوط، منظم اور ایک جگہ پر، جَم کر، کبھی معاندینِ اقبالؒ کو جواب نہیں دیا جا سکا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی کمی تھی۔ الحمد للہ، اب پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر صاحب نے اپنی مذکورہ بالا تصنیف میں یہ کمی دُور کر دی ہے۔
ڈاکٹر ایوب صابر نے درست لکھا ہے کہ اقبالؒ کی مخالفت کرنے والے دراصل تنقیصِ اقبالؒ کے پردے میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی سازش ہے۔ تحقیق نگار پروفیسر ایوب صابر نے زیر نظر کتاب لکھ کر سازش کنندگان کے چہروں سے ایک ایک کرکے پردہ بھی اُٹھا دیا ہے اور اُن کی علمی و تنقیدی اوقات کا پردہ بھی چاک کر ڈالاہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک اور باک نہیں ہے کہ یومِ اقبالؒ کے موقع پر اس کتاب کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہونی چاہیے تاکہ محبتِ اقبال میں بھی اضافہ ہو، کلامِ اقبال سے بھی رغبت پیدا ہو، فکرِ اقبال کی تفہیم بھی ہو سکے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کے مطالعے سے ہمارے پاس وہ شاہ کلید اور دلیل ہاتھ آتی ہے کہ موجودہ زمانے میں معترضینِ اقبال کو شائستگی، متانت اور علمی اسلوب میں کیسے جواب دیا جا سکتا ہے۔
" اقبال کی شخصیت اور فکرو فن پر اعتراضات"کے مطالعے سے انکشاف ہوتا ہے کہ 1903 ہی میں اقبالؒ پر حملے شروع ہو گئے تھے۔ اس کا آغاز بھی ایک مسلمان "دانشور" نے کیا تھا۔ حتیٰ کہ "اودھ پنچ" جریدہ31سال تک مسلسل علامہ اقبالؒ کے خلاف تہمتوں اوراعتراضات کی شکل میں حملہ آور رہا۔ آج "اودھ پنچ"کا نام بھی کوئی نہیں جانتا لیکن اقبال کے فکرو فن کا چراغ کل بھی روشن بھی تھا اور آج بھی ضوفشاں ہے۔ اہلِ لکھنو اور اہلِ دلّی، اپنے اپنے انداز اور زبان دانی کے زعم میں، علامہ اقبال پر معترض اور حملہ آور رہے لیکن سب مٹ گئے۔ صرف سچ کا علَم لہراتا رہا اور آج بھی پوری شان کے ساتھ لہرا رہا ہے۔
حیرت ہے کہ ایک دَور میں مخالفین ِاقبال کے لشکر میں مولانا ظفر علی خان بھی شامل رہے ہیں۔ اہم بات یہ کہ پروفیسر ایوب صابر صاحب نے محنت، لگن اور ہدف کے تحت اقبال کی دشمنی میں پاگل ہو جانے والے متعدد اسلام دشمن مستشرقین کی علمی بددیانتیوں کا، تحقیق و برہان کی اساس پر، کچا چٹھہ کھولا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں ایک بار سردار عبدالقیوم خان (سابق صدرِ آزاد کشمیر) نے بھی فکرِ اقبال ؒ پر حملہ کیا تھا؛ چنانچہ ملک بھر میں سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا۔ حتیٰ کہ سردار صاحب کو پسپائی کے ساتھ معافی بھی مانگنا پڑی تھی۔ سردار صاحب کے اس اقدام کے عقب میں دراصل وجہ کیا چھپی تھی؟ اس کی ایک انکشاف خیز اور دلچسپ داستان مصنف نے جِلد اوّل میں سنائی ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ڈھائی ہزار روپے سے زائد ہے۔ تصنیف مگر اتنی وقیع، رفیع الشان اور معتبر ہے کہ یہ قیمت کچھ بھی نہیں۔