مقبوضہ کشمیر میں حُریت، جہاد، پاکستان، قائد اعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کا نام بلند آواز سے پکارنے والے جناب سید علی گیلانی کی آواز خاموش ہو گئی ہے۔
بظاہر موت نے اُن کی آواز اور زبان تو خاموش کردی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرحوم نے92سال کی عمر تک مقبوضہ کشمیر میں جن جذبات کی آبیاری کی، جن احساسات کو پروان چڑھایا، وہ جذبات و احساسات کبھی سرد نہ ہو پائیں گے۔
کشمیر کی کامل آزادی تک کشمیر کے ہر فرد کی زبان پر حریت کے نغمے جاری رہیں گے۔ علی گیلانی صاحب مرحوم کے تربیت یافتہ کشمیریوں کے قلوب میں شعلہ آزادی بڑھکتا رہے گا، تاآنکہ یہ جنتِ ارضی بھارتی جبرواستبداد سے کامل نجات و آزادی حاصل نہ کر لے۔ سچ یہ ہے کہ یکم ستمبر2021ء کو سید علی گیلانی کی رحلت سے پاکستان، بھارت اور دُنیا بھر میں بسنے والے کشمیری اور پاکستانی افسردہ اور اُداس ہیں۔
بڑے آدمی کی موت نسلِ انسانی کا بڑا خسارہ سمجھا جاتا ہے۔ اور گیلانی صاحب مرحوم کی موت کا سب سے بڑا دکھ اور خسارہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور دُنیا کے کسی کونے میں اُن کا کوئی متبادل بھی میسر نہیں ہے۔ ایک عظیم مقصد کی خاطر زندگی وقف کر دینا صرف علی گیلانی ہی کا خاصہ تھا۔ ایسا حوصلہ اور استقامت رکھنے والا شخص ہمیں اب شاید ہی کبھی مل سکے۔
علی گیلانی صاحب کی رحلت سے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے عوام ہی ملول اور غمگین نہیں ہیں، ہر اہم اور قابلِ ذکر شخص اُن کی موت پر دلگیر ہے۔ ہم گیلانی صاحب مرحوم و مغفور سے کبھی نہیں ملے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اُن کے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے پر ہم سب یوں اشکبار ہیں جیسے ہمارا کوئی عزیز ترین قریبی عزیز ہم سے جدا ہو گیا ہے۔
ابھی چند دن پہلے میری آخری پھوپھو صاحبہ کا لاہور میں انتقال ہُوا ہے۔ اُن کی موت ہم رشتہ داروں کے لیے بڑے دکھ اور زیاں کا باعث بنا ہے کہ وہ ہم سب کی محبوب ہستی اور دعاؤں کا مرکز تھیں۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ گیلانی صاحب کی موت سے مگر دل کو کہیں زیادہ دھچکا لگا ہے۔ وہ کروڑوں افراد کی محبتوں کا مرکز و محور تھے۔ اُن کی عمرنوے سال سے اوپر جا چکی تھی۔ وہ کئی عوارض کا شکار بھی تھے۔ کئی اقسام کی سرجریوں سے گزر چکے تھے۔
جماعتِ اسلامی کے معروف دانشور اور مشہور مصنف برادرم سلیم منصور خالد صاحب کی زبانی جب بھی گیلانی صاحب کے متعدد عوارض اور آپریشنزکا سُنا، حیرت ہوتی تھی کہ ان سب کے باوجود وہ زندہ کیسے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے مگر انھیں طویل عمرعطا فرما کر دراصل تحریکِ آزادی کشمیر کو زندہ کیے رکھا۔ اُن کی طول العمری میں بھی اللہ کریم کی کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔ کشمیری حریت پسند اُن کی بزرگی سے روشنی اور ہمت و حوصلہ پاتے تھے۔
بدقسمتی سے اب یہ چراغ بجھ گیا ہے لیکن آزادیِ کشمیر کا شعلہ مسلسل ضو فشاں رہے گا۔ اس شعلے کو گُل کرنے اور اِس کی لَو مدہم کرنے کی کئی مقامی اور عالمی سازشیں بروئے کار ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادیِ کشمیر کے روشن ترین چراغ کو بجھانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
مجھے کہنے دیجیے کہ سید علی گیلانی صاحب مرحوم مقبوضہ کشمیر میں محض آزادیِ کشمیر کا ایک بڑا نام نہیں تھے بلکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نظریہ پاکستان اور دو قومی نظرئیے کے بھی عظیم پرچارک اور مبلّغ تھے۔ اسلام اور پاکستان کے ایک نظریاتی مملکت ہونے کے ناتے سے وہ کشمیر اور پاکستان کو ایک ہی سکّے کے دو رُخ سمجھتے، کہتے اور اس پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ اں کی مجالس اور جلسوں میں بلند آہنگی سے "ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے" کے اعلانات اور نعرے گونجتے اور بھارتی بنئے کے سینے پر مونگ دلتے تھے۔
حق یہ ہے کہ علی گیلانی صاحب مرحوم کے بوڑھے اور نحیف سینے میں شیر کا دل دھڑکتا تھا۔ اِسی قوی اور مضبوط دل کے ساتھ وہ برسوں اور متعدد بار بھارتی جیلوں میں قید رکھے گئے لیکن اُن کی استقامت اور عزم کو متزلزل نہ کیا جا سکا۔ اگر ہم اُن کی دوجلدوں پر مشتمل سوانح حیات "رُو دادِ قفس" کا مطالعہ کریں تو یہ منظر پوری طرح کھلتا ہے کہ گیلانی صاحب نے کس حوصلے اور جرأت کے ساتھ مختلف بھارتی جیلوں میں بھارتی سامراج کا ظلم و تعدی برداشت کیا لیکن قید کرنے والوں سے رہائی کی بھیک مانگی نہ اپنی کمٹمنٹ کا سودا کیا۔ واقعتاً وہ ایک غیر معمولی حریت پسند لیڈر تھے۔ اُن ایسا لیڈر اب کہیں نہیں رہا۔
یہ دیکھ کر دل دُکھتا ہے کہ سید علی گیلانی کو بھارتی قیدہی میں موت کا سندیسہ آیا۔ اور یہ منظر تو مزید دکھی کر جاتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی قابض بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے خاندان پر اپنے جابرانہ دباؤ برقرار رکھے۔ بھارت کے نزدیک کشمیریوں پر ظلم کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی مگر یہ احساس ہمارے لیے باعثِ فخر بھی ہے کہ انھوں نے تا مرگ اپنی قوم، نظرئیے اور کمٹمنٹ کے ساتھ وفا کا عہد نبھایا۔
ایک مقصد کی خاطر جان، جانِ آفریں کے سپرد کی۔ کوئی بات نہیں اگروہ اپنی حیاتِ مستعار میں مقبوضہ کشمیر کو بھارتی پنجے سے آزاد ہوتا دیکھ نہ پائے لیکن اس آزادی کے لیے اُن کی جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ اس کا ثمر اگلی نسل کو ضرور مل کررہے گا۔
فرشتہ اجل کو دیکھ کر گیلانی صاحب کے لبوں پر ضرور مسکراہٹ کے پھول کھلیں ہوں گے، یہ سوچ کر کہ ساری عمر اُن کے دل و زبان پر دینِ اسلام کے نغمے جاری رہے، وہ اللہ اور اللہ کے آخری رسول حضور نبی کریم ﷺ پر یقینِ کامل رکھتے تھے، وہ طاغوتی قوتوں کے سامنے جھکنے سے مسلسل انکاری رہے اور ہندو کی غلامی سے نجات کے لیے مسلسل جدو جہد کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ایک کامیاب اور بامقصد زندگی اور کیا ہو سکتی ہے؟ یوں دیکھا جائے تو مرحوم علی گیلانی صاحب سرخرو ہو کر اپنے خالق و مالک کے دربار میں حاضر ہُوئے ہیں۔
سید علی گیلانی صاحب مرحوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ، علامہ اقبال ؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے عشاق میں سے تھے۔ سید مودودی صاحب ؒ کی تحریروں کو دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ وہ تحریر و تقریر میں جس کثرت کے ساتھ علامہ اقبال کے اشعار بر محل استعمال کرتے، اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبالؒ کی شخصیت، کلام اور افکار سے انھیں کس قدر محبت اور رغبت تھی۔
اُن کی سوانح حیات میں بھی ہمیں کلامِ اقبال بار بار پڑھنے کو ملتا ہے۔ اقبال ؒ سے اُن کی محبت اور کلامِ اقبال سے اُن کے شوق کی جھلک اُن کی تین جلدوں پر مشتمل تصنیف "اقبال رُوحِ دین کا شناسا" میں تو نہائت واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گیلانی صاحب مقبوضہ کشمیر میں اُردو زبان کے بھی بڑے مبلّغ تھے۔ انھوں نے اُردو زبان میں دو درجن سے زائد چھوٹی بڑی کتابیں لکھ کر اُردو سے اپنی انمٹ محبت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ ہائے یہ قیمتی اور انمول شخص اب ہمارے درمیان سے اُٹھا لیا گیا ہے۔ تیری لحد پر کھلیں جاوداں گلاب کے پھول۔