Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Americi Sadarti Intikhab Se Hamara Kya Lena Dena?

    Americi Sadarti Intikhab Se Hamara Kya Lena Dena?

    سات سمندر پار، دُور اور دُنیا سے الگ تھلگ، بسنے والے وسیع و عریض ملک " ریاستہائے متحدہ امریکا" میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ مکمل ہو چکی ہے۔

    حتمی نتیجہ مگر ابھی تک سامنے نہیں آ رہا۔ کوئی پتہ نہیں چل رہا کہ کون وہائیٹ ہاؤس کا نیا مکین ہوگا؟ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ آ جائیں گے یا جو بائیڈن کی صورت میں نیا صدر؟ بروزجمعرات بتاریخ 5نومبر2020ء کی صبح جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں، عالمی خبر رساں ادارے بتا رہے ہیں کہ امریکی صدارت کے لیے ڈیمو کریٹ اُمیدوار، جو بائیڈن، 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے264ووٹ لے کر اپنے حریف، ڈونلڈ ٹرمپ، سے بہت آگے ہیں جو ابھی تک 214الیکٹورل ووٹس کے ساتھ کھڑے واویلا کررہے ہیں۔

    گویا جو بائیڈن تخت ِ اقتدار کے بالکل سامنے کھڑے ہیں (انھیں 270ووٹوں کی ضرورت ہے) لیکن واضح طور پر اپنی حتمی فتح کا اعلان کرنے سے قاصر ہیں۔ امریکی ہمارے ووٹنگ سسٹم اور انتخابی نظام کو جو طعنے مہنے دیتے رہے ہیں، اب ان طعنوں کا خود ہدف بن گئے ہیں۔ امریکی ہمیں مطعون کرتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں ہر الیکشن متنازع بن جاتا ہے۔ مار کٹائی ہوتی ہے۔ اب امریکی صدارتی انتخاب بھی متنازع بن گیا ہے۔

    دونوں صدارتی اُمیدواروں میں سر پھٹول ہو رہی ہے۔ ایک امیدوار ( ڈونلڈ ٹرمپ) شکست ماننے پر تیار نہیں ہے اور کہہ رہا ہے کہ "ہم سے دھوکا ہوا ہے۔" نواز شریف کی طرح وہ بھی زبانِ حال سے پکار رہا ہے: ووٹ کو عزت دو۔ ٹرمپ صاحب اپنی انتخابی فتح کے لیے امریکی سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دیتے نظر آرہے ہیں جب کہ اُن کے مخالف ووٹر ہاتھوں میں پلے کارڈز اُٹھائے نعرے لگا رہے ہیں: امریکی صدارتی انتخاب کا فیصلہ امریکی عوام کرتے ہیں، امریکی سپریم کورٹ نہیں۔

    صحافتی اور کالمی دُنیا سے الگ ہو کر دیکھا جائے تو یہ سوال بہرحال بنتا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب سے ہم پاکستانیوں نے کیا لینا دینا ہے؟ اس کے باوجود مگر ہمارے ہاں امریکی صدارتی انتخابی نتائج کے بارے میں یوں بحثیں ہو رہی ہیں جیسے یہ ہمارے گھر کے آنگن کا کوئی اہم معاملہ ہو۔ پچھلے 73برسوں کے دوران ہمارے ہر حکمران نے امریکا بہادر سے ہمارے حال اور مستقبل کاتعلق کچھ اس طرح سے نتھی کر دیا ہے کہ لاتعلق ہونے کے باوجود ہم امریکا اور امریکیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ یہ فکر ہماری لاتعداد اور گمبھیر معاشی اور سیاسی کمزوریوں کی منہ بولتی تصویر ہے۔

    ہم ہی کیا، ویسے تو ساری دُنیا ہی ان امریکی صدارتی نتائج پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ ہر کوئی امریکا سے جڑے اپنے اپنے مفادات کے پس منظر میں ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن سے توقعات لگائے بیٹھا ہے۔ ہم بظاہر کہتے تو ہیں کہ امریکی صدارتی الیکشنوں سے ہمارا کیا لینا دینا لیکن بد قسمتی سے ہماری قسمت اِنہی امریکی صدارتی انتخاب سے بندھی ہُوئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک اورمشرقِ بعید سے لے کر جنوبی امریکا تک، ہر ملک کا حکمران اور ہر خطے کی اسٹیبلشمنٹ امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج پر نظریں گاڑے ہُوئے ہے۔

    یہ دراصل اکلوتی سپر پاور کی دہشت و حشمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں ڈیموکریٹس آ جائیں یا ری پبلکنز، وہ عالمِ اسلام کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر مسلم حکمران اپنے عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں تو کوئی امریکی حاکم مسلم عوام کا خیرخواہ کیوں ہوگا؟ اگر ہمارے حاکم طبقات کی اولادیں اور جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں تو کیا یہ حقیقت امریکی اسٹیبلشمنٹ پر عیاں نہیں ہے؟

    واہائیٹ ہاؤس پر ڈونلڈ ٹرمپ پھر براجمان ہو جائیں یا جو بائیڈن بطورِ نئے صدرِ امریکا سامنے آجائیں، ہمیں اُن سے کسی خیر کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ہمارا مسئلہ کشمیر حل کروانے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں نہ مسئلہ فلسطین۔ دونوں ہی بھارت کے ہنود اور اسرائیل کے یہود کی خوشنودیوں کے حصول کی کوشش کرتے رہیں گے۔

    کیا کوئی بھی امریکی صدر آگے بڑھ کر افغانستان، عراق، شام، لیبیا میں ڈھائے جانے والے لاتعداد امریکی مظالم اور جارحیت پر مسلمان عوام سے معافی مانگے گا؟ سوویت رُوس نے مظلوم و مقہور افغان عوام سے معافی مانگی نہ ظالم امریکیوں نے۔ دونوں ظالموں نے مسلم ممالک کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے اور کبھی شرمسار بھی نہیں ہُوئے۔

    امریکی حکمرانوں، امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور امریکی خفیہ اداروں کے ہاتھوں پر افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے لاکھوں معصوم عوام کا خون جما ہُوا ہے۔ امریکی حکام نے عراقی صدر کو پھانسی پر لٹکایا اور لیبیا کے صدر کوگٹر میں موت سے ہمکنار کیا۔ اِس وقت عالمِ اسلام میں جو فساد اور انارکی نظر آ رہی ہے، یہ مختلف النوع امریکی اداروں کا کیا دھرا ہے۔

    ان میں سے بیشتر اداروں کی کوئی واضح صورت ہے نہ کوئی شکل مگر اُن کے وار انتہائی مہلک اور گھناؤنے ہیں۔ تو کیا ایسے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سے ہم نے اپنی اپنی اُمیدیں وابستہ کررکھی ہیں؟ قدرت نے امریکیوں سے یوں انتقام لیا ہے کہ جو لوگ تیسری دُنیا کے انتخابات پر بڑی بے رحمی سے انگشت نمائیاں کرتے رہے تھے، اب دُنیا اُن پر انگلیاں اُٹھا رہی ہے اور امریکی نادم ہو رہے ہیں۔

    ممکن ہے جب یہ سطور شایع ہوں ڈونلڈ ٹرمپ یا جو بائیڈن کے بارے میں کوئی حتمی اور واضح فیصلہ سامنے آ چکا ہو۔ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ نئے امریکی صدر کے ظہور سے کیا ہم پاکستانیوں کے دکھ، مسائل اور مصائب میں کوئی کمی آ سکے گی؟ شائد نہیں۔ ہمیں تو اب امریکی امدادی یا سستے داموں اپنی مشہورِ زمانہ امریکی گندم بھی دینے پر تیار نہیں ہیں۔ ہمیں تو رُوس سے خریدی گئی مہنگی گندم ہی کھانی ہے۔

    ہماری حکمران اشرافیہ کہہ رہی ہے: ٹرمپ آ جائے یا جو بائیڈن، ہم "برابری کی سطح پر" امریکا سے تعلقات کی پالیسی جاری رکھیں گے۔"ایکسپریس نیوز" کے پروگرام "ایکسپرٹس" میں کہا گیا ہے:" امریکا میں کوئی بھی صدر ہو، پاک امریکا تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔" اور ہماری پالیسیوں کا عالم یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے نے رُوسی کسانوں کی جیبوں میں تو ڈالر بھر دیے لیکن اپنے ملک کے غریب کسان کی دستگیری کرنے سے انکار دیا ہے۔

    جس وقت ہماری دانشور اشرافیہ امریکی صدارتی انتخابات پر نکتہ آفرینیاں کررہی تھی، عین اُس وقت لاہور میں احتجاجی غریب کسانوں پر پولیس لاٹھی چارج کررہی تھی۔ کسانوں کے سر پھوڑے جا رہے تھے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں نیا انصاف یہ ہے کہ سردیوں میں کسان گندم کاشت کریں اور جھلسا دینے والی وحشتناک گرمی میں گندم کاٹیں اور نتیجے میں حکومت سے لاٹھیاں کھائیں۔ مجروح دل اور مجروح بدن کسان کے ساتھ ہمدردی کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی اور امیر جماعتِ اسلامی نے پھٹے سر کسانوں کے حق میں ہمدردی کے چند بول بولے ہیں ؛ یہ کہ گرفتار کسانوں کو رہا کیا جائے اور اُن کے مطالبات پورے کیے جائیں۔

    نون لیگ کی نائب صدر، مریم نواز، نے بھی کسانوں پر بے پناہ تشدد کی مذمت کی ہے۔ پاکستان میں کمر توڑ مہنگی روٹی کھانے والے عوام اور لاٹھیاں کھانے والے کسانوں کو بھلا امریکی صدارتی انتخاب سے کیا لینا دینا؟ پاکستان کااعلیٰ تعلیم یافتہ مگر بے روزگاری کے جہنم میں تڑپتا نوجوان طبقہ شائد نئے امریکی صدر سے مثبت توقع لگائے بیٹھا ہو کہ اُس کے آنے سے ویزہ پالیسی نرم ہو اور وہ اُڑان بھر کر امریکا پہنچ جائے۔

    ہماری حکمران اشرافیہ بھی شائد یہ آس لگائے بیٹھی ہو کہ نئے امریکی صدر کی آمد سے شائد بھارت، امریکا گٹھ جوڑ (جو سرا سر پاکستان کے خلاف ہے) میں کوئی کمی آ جائے۔ لیکن شائد یہ توقعات سب خواب اور سراب ہیں۔