فلسطینی وزیر اعظم، محمد اشتیہ، نے کہا ہے: " اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکا کے صدر منتخب ہو گئے تو یہ دُنیا کے لیے بالعموم اور فلسطین کے لیے بالخصوص تباہ کن ہوں گے۔" ہر چار سال بعد ماہِ نومبر کے پہلے ہفتے امریکی صدارتی انتخابات کا میدان سجتا ہے۔
امریکا کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں، ڈیموکریٹ اور ری پبلکن، کے امیدوار میدان میں اُترتے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں فائنل ووٹنگ کے لیے دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے دونوں بڑے پہلوان (ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن) کا خوب زور لگ رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کورونا سے صحتیاب ہو کر پھر سے میدان میں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار بھی صدرِ امریکا بننے کے خواہشمند ہیں لیکن اُن کے حریف، جو بائیڈن، اُن کی راہ کا سب سے بڑا پتھر بن چکے ہیں کہ جو بائیڈن کی مقبولیت کاگراف، فی الحال، ٹرمپ سے اوپر جارہا ہے۔
ٹرمپ نے یہ جو چار سال گزارے ہیں، امریکیوں کی اکثریت اُن سے کوئی خاص خوش نہیں ہے۔ ہاں، سفید فام اور نسل پرست امریکی ووٹروں کا پلڑا ہنوز ٹرمپ کی طرف جھکا ہُوا ہے۔ ان سفید فام نسل پرستوں نے ٹرمپ کی محبت میں پچھلے دنوں "رنگدار" امریکیوں سے اُس وقت خونی تصادم بھی کیا جب اُنہوں نے دانستہ 600گاڑیوں کی ایک ریلی ٹرمپ کے حق میں نکالی۔ اس تصادم میں ایک "رنگدار" امریکی مارا بھی گیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس قتل پر افسوس کیا نہ نسل پرستانہ ریلی نکالنے والوں کی مذمت کی۔
چار سال قبل ٹرمپ جب اقتدار میں آئے تو اپنے حامی امریکیوں سے کئی وعدے وعید کیے تھے لیکن کوئی ایک بھی بڑا وعدہ پورا نہیں کر سکے۔ اب پھر اُنہوں نے انتخابات جیتنے کے لیے ایک بڑے وعدے کا لولی پاپ دیا ہے: مجھے ووٹ دیں، مَیں آپکو ایک کروڑ نوکریاں دوں گا۔ وعدہ فراموش اور عہد شکن ٹرمپ پر مگر کون یقین کرے؟ دو ہفتوں بعد ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے خود امریکی بڑے پریشان ہیں۔ امریکا میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ جو "غیر ملکی قوتیں " امریکی صدارتی انتخابات میں دخل اندازی کررہی ہیں۔
اُن کا سدِ باب کیسے کیا جائے؟ امریکا اور اس کے خفیہ ادارے خود تو دُنیا کے کئی ممالک ( خاص طور پر عالمِ اسلام) میں ہونے والے الیکشنوں میں ہر ممکنہ مداخلتیں کرتے رہے ہیں (اور اب بھی باز نہیں آتے) لیکن " کئی غیر ملکی قوتیں " اب یہی ہتھکنڈے امریکا میں بھی بروئے کار لانے لگی ہیں تو امریکی تڑپ رہے ہیں۔ امریکیوں کو تکلیف ہے کہ روس نے پچھلے صدارتی انتخابات میں بھی مبینہ طور پر دخل اندازیاں کی تھیں، اب بھی کرنے کی ٹھان رہا ہے۔ چینیوں کی خفیہ طاقتوں سے بھی امریکی خوفزدہ ہیں۔ شائد اسی لیے ان صدارتی انتخابات سے قبل امریکا نے چین سے کئی رُخی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
بھارت کو تو خود ڈونلڈ ٹرمپ "دعوتِ مداخلت" دیتے نظر آ رہے ہیں کہ نریندر مودی آگے بڑھیں اور امریکا میں آباد لاکھوں کی تعداد میں دولتمند ہندوؤں کے ووٹ ٹرمپ کو دلوائیں۔ بعض غلطیاں مگر ایسی بھی ہیں جو خود ڈونلڈ ٹرمپ کے گلے پڑ رہی ہیں۔ مثلاً:ٹرمپ صاحب ہمیشہ نسل پرستی کے مظاہرے کرتے ہُوئے امریکا میں آباد غیر سفید فاموں کی توہین کرتے ہیں۔ اُنہوں نے حال ہی میں اپنے حریف ( جو بائیڈن ) کی طرف سے نامزد نائب صدر کی امیدوار کملا ہیرس، جو سفید فام امریکی نہیں ہیں، کا بھری مجلس میں مذاق اُڑایا اور کہا:"کملا ہیرس امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر بن سکتی تھیں بشرطیکہ خوبصورت ہوتیں "۔ انصاف پسند امریکیوں نے اس کا بہت بُرا منایا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو مگر اپنی اس بیہودہ حرکت کا نتیجہ بھی جلد ہی بھگتنا پڑا ہے۔ ہُوا یوں کہ اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ (اور امریکی خاتونِ اوّل جو نسلاً امریکی نہیں ہیں ) میلانیا ٹرمپ اپنے شوہر کی صدارتی انتخابی مہم میں رنگ بھرنے کے لیے ایک جلسے سے مخاطب ہُوئیں تو ٹرمپ کے مخالفین نے اُن کا خوب ٹھٹھہ اُڑایا، اس لیے کہ میلانیا امریکی لہجے میں انگریزی بولنے پر قادر نہیں ہیں۔ ٹرمپ کے مخالف ایک امریکی سینیٹر نے اُن کے لہجے کا مذاق اُڑاتے ہُوئے یوں ٹویٹ کی:"ارے، یہ محترمہ ابھی تک درست لہجے میں انگریزی بھی نہیں بول سکتیں۔" اور جب ٹرمپ کے نسل پرست ووٹرز میلانیا کی وکالت میں سامنے آئے تو اُنہیں جواب ملا:اگر ٹرمپ، کملا ہیرس کے رنگ کا مذاق اُڑا سکتے ہیں تو میلانیا کی غلط انگریزی کا مذاق کیوں نہیں اڑایا جا سکتا؟ ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات و ذہنی میلانات سے اُن کے حریف محسوس کررہے ہیں کہ ٹرمپ ہر صورت میں اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ امریکی صدارت کی سابق اُمیدوار، ہیلری کلنٹن، بھی ایسا ہی خدشہ ظاہر کر چکی ہیں۔ اِنہی خدشات کے پیشِ نظر ٹرمپ کے حریف، جو بائیڈن، کی طرف سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے: "ٹرمپ انتخابات میں ہارنے کے باوجود وائٹ ہاؤس سے نہ نکلیں تو ہمیں اُمید ہے کہ ایسے صورت میں امریکی فوج آگے بڑھے گی اورشکست خوردہ ٹرمپ کو نکال باہر کرے گی۔"
یہ ایک غیر معمولی اور نہایت حساس بیان تھا ؛چنانچہ امریکا کے سب سے سینئر جنرل اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، جنرل مارک ملی، فوری طور پر امریکی کانگریس کی 2 رکنی کمیٹی کے سامنے پیش ہُوئے اور کہا:" نومبر2020میں ہونے والے انتخابات میں فوج کوئی کردار ادا نہیں کرے گی اور انتخابی نتائج میں کسی بھی قسم کے تنازع کے حل میں بھی کوئی مدد نہیں کرے گی۔ مَیں اس عمل میں امریکی فوج کو نہیں دیکھ رہا۔ انتخابات اور اس سلسلے میں کسی بھی تنازع کے حل کے لیے امریکی آئین اور قوانین میں طریقہ کار موجود ہے۔ امریکی فوج کسی بھی انتخابی تنازعے کے حل کے لیے فریق نہیں بنے گی۔ میں سیاست سے پاک امریکی فوج کے اصول پر بے انتہا یقین رکھتا ہوں "۔ اس بیان سے یقیناً ڈونلڈ ٹرمپ کو کوئی خوشی نہیں ملی ہوگی۔
ان امریکی انتخابات میں عجب تماشے ہورہے ہیں۔ پہلے تو یہ روایت رہی ہے کہ کوئی بھی سابق امریکی صدر عمومی طور پر امریکی انتخابات کے کسی بھی امیدوار کی حمایت یا مخالفت نہیں کرتا تھا لیکن اِس بار یہ روایت بھی ٹوٹ گئی ہے۔ ٹرمپ نے جب دانستہ سابق سیاہ فام امریکی صدر، باراک اوباما، بارے دل آزار بیان دیا تو اوباما نے پلٹ کر کہا: "ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی اقدار کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ یہ شخص خود غرض بھی ہے اور خود پرست بھی۔ اس آدمی کو دوبارہ صدر منتخب کرنے کا مطلب عظیم امریکا کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔" لیکن 15اکتوبر2020 کو "واشنگٹن پوسٹ" کے تجزیہ کار Max Bootنے خبر دی ہے کہ "ڈونلڈ ٹرمپ کی بُری کارکردگی کے باوجود 42فیصد امریکی ٹرمپ کے حامی ہیں جب کہ جو بائیڈن کو52فیصد امریکیوں کی حمایت حاصل ہے۔"گویا مقابلہ انتہائی سخت ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی سگی بھتیجی بھی کتابیں اور مضامین لکھ کر اپنے چچا کو ناکام اور بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان امریکی صدارتی انتخابات میں پاکستانی نژاد امریکی، پاکستان کے مفاد میں، نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن تازہ سروے بتا رہے ہیں کہ پاکستان نژاد امریکیوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو پارہا کہ وہ اکثریت میں کس اُمیدوار کوووٹ دیں گے۔
امریکا میں متعین ایک سابق پاکستانی سفیر نے اپنے انٹرویو میں حیرت سے کہا ہے: "دونوں صدارتی امیدواروں نے اپنی پالیسی تقریروں میں بھارت کا ذکر تو کیا ہے لیکن پاکستان کا نام تک نہیں لیا۔"یہ نظر اندازی پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ساتھ ساتھ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی ناکامی بھی ہے۔ اس کے برعکس امریکا میں انڈین کمیونٹی یکمشت بھی ہے اور یکجا بھی۔ ممتاز امریکی تھنک ٹینک"کارنیگی انڈومنٹ"، جانز ہاپکنز یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا نے 17اکتوبر 2020ء کے اپنے سروے میں بتایا ہے کہ امریکا میں آباد بھارتیوں کا68فیصد جو بائیڈن کو ووٹ دے گا۔