بد امنی، معاشی بد حالی، روپے کی بے قدری، کمر توڑ مہنگائی اور ہیبت ناک بے روزگاری نے پاکستان کی اکثریتی آبادی کا جینا حرام کررکھا ہے، ہر طرف ہا ہا کار مچی ہے لیکن افسوس ہماری حکمران اشرافیہ کو اٹھکیلیاں سُوجھی ہُوئی ہیں۔
گزشتہ روز ہمارے وزیر خزانہ ایک اور وفاقی وزیر کے ساتھ پریس کانفرنس میں بیٹھے تجاہلِ عارفانہ سے کہہ رہے تھے:"لگ یہی رہا ہے کہ مہنگائی ہو رہی ہے۔" جنھیں ابھی تک یہ معلوم نہیں تھا کہ "ستم ظریفی" کسے کہتے ہیں، وزیر خزانہ کے یہ الفاظ سُن اور پڑھ کر "ستم ظریفی" کے معنی سمجھ گئے ہوں گے۔
وزیر خزانہ "صاحب " کے یہ الفاظ پاکستان کے عوام "کالانعام" کے زخموں پر نمک پاشی سے بڑھ کر محسوس کیے گئے ہیں۔ مہنگائی کے کئی پاٹوں کے درمیان پستے پاکستان کے مجبور اور لاچار عوام کو ایک بار پھر یہ الفاظ شدت سے احساس دلا گئے ہیں کہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کے ٹیکسوں پر پلتی ہماری یہ حکمران اشرافیہ عوام کے مسائل و مصائب سے لاتعلق ہے۔
اس حکمران طبقے کو مہیب مسائل میں گھرے عوام کا احساس ہے نہ ہی وہ ان کا بھرم رکھنا جانتے ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب ایک اور مشہور وفاقی وزیر کا یہ ارشادِ گرامی سامنے آیا تھا: "پاکستان میں مہنگائی ہوگی تو پاکستان ترقی کرے گا۔" سبحان اللہ! ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے۔ معاشیات کے ایسے "نابغوں " کی موجودگی میں ہمیں بھلا عالمی ماہرینِ معیشت کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ اور یہ عبقری صفت بیان تو ابھی کل ہی کا ہے جب ہمارے اسٹیٹ بینک کے گورنر صاحب نے لندن میں چنیدہ پاکستان کمیونٹی سے خطاب کرتے ہُوئے یہ زریں بیان دیا: " روپے کی قیمت کم ہونے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے دراصل سمندر پار پاکستانیوں کا فائدہ ہورہا ہے۔"
اس بیان کے بعد اووَرسیز پاکستانی شدت سے ایک ڈالر کے 200روپے تک پہنچنے کے منتظر ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ڈالر کی قیمت روز بروز بڑھنے سے "انڈر سیز" یعنی پاکستان میں رہنے والوں کی جان ہلکان ہوتی جا رہی ہے۔ اب جناب عمران خان کو سعودی بادشاہ کی دی گئی مالی سہولت سے ڈالر کو وقتی سہارا ملا ہے۔
اگلے ماہ نومبر میں بھی پٹرول کی قیمتیں مزید بڑھانے کی خبر ہے۔ یہ کہہ کر مزید ڈرایا جا رہا ہے کہ مارچ2022 تک پٹرول کی قیمت مسلسل بڑھتی رہے گی۔ ہماری حکمران اشرافیہ مگر عوامی احساسات و تفکرات سے قطعی بالا رہ کر اپنی سرکاری مراعات کی رنگین دُنیا میں مگن ہے۔ گزشتہ روز مشہور اور موقر برطانوی جریدے "دی اکانومسٹ" نے اپنی خصوصی اشاعت میں دُنیا کے 43 ممالک کی معیشت کا باریک بینی سے تحقیقی جائزہ لیتے ہُوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان دُنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے۔
مہنگائی اور گرانی کے کارن پاکستانیوں کی نکلنے والی چیخیں "دی اکانومسٹ" نے تو سُن لی ہیں لیکن ہماری حکمران اشرافیہ اس کا بھی مذاق اور مضحکہ اُڑا رہی ہے۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم جناب عمران خان کے ایک معلوم و معروف وزیر نے اس خبر پر یوں ارشاد فرمایا: "پاکستان دُنیا کا کوئی انوکھا ملک ہے؟ ساری دُنیا میں مہنگائی ہو رہی ہے۔" لیجیے، اِسے کہتے ہیں عوام کے دکھوں اور مصائب و مسائل سے آشنا اصل عوامی نمایندہ۔ تھینک گاڈ، وفاقی وزیر موصوف نے فرطِ جمہوریت سے یہ نہیں کہہ دیا کہ: اکانومسٹ کی یہ تحقیق فیک نیوز ہے۔
آجکل وفاقی وزرا مبینہ فیک" نیوزوں "سے بہت ناراض اور نالاں ہیں۔ حکمران اشرافیہ کے بقول: ہمارا سو شل میڈیا مبینہ طور پر فیک نیوز کا گڑھ بن چکا ہے۔ سچ بولنے اور سچ سُننے والا ہر صاحبِ ضمیر فیک نیوز کو ایک ناپسندیدہ عمل اور فعل سمجھتا ہے۔ فیک نیوز دراصل کردار کشی اور جھوٹ کے پھیلاؤ کا اصل سبب اور مرکز بنتا ہے۔
حقیقت مگر یہ ہے کہ فیک نیوز اُسی وقت فروغ پاتی اور جگہ بناتی ہے جب مین اسٹریم میڈیا پر حقیقی خبر کا گلا گھونٹنے کی ناقابلِ رشک کوششیں بروئے کار آتی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مقتدر اشرافیہ نے ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی جو درگت بنائی ہے، اِس نے سوشل میڈیا کے فروغ اور پھیلاؤ کے لیے اسپیس پیدا کی ہے۔ مین سٹریم میڈیا میں خبر کے نشر ہونے اور اشاعت سے قبل جو ادارہ جاتی فلٹر بروئے کار آتا تھا، سوشل میڈیا نے یہ فلٹر ختم کر دیا ہے۔
یوں فیک نیوز کو پاؤں پسارنے کے مواقعے ملتے گئے۔ اب مگر ہاتھ ملنے کا فائدہ؟ حکمران اشرافیہ نے مین اسٹریم میڈیا میں، دباؤ کے تحت، مخالف اور اپوزیشن کی آوازوں کو جبریہ منہا کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیدا ہونے والے خلا کو سوشل میڈیا نے پُر کر دیا۔ مخالفانہ آوازیں سوشل میڈیا کے توسط سے باہر نکلی ہیں۔ اگرچہ ساتھ ہی احتیاط کا دامن بھی چھوٹتا چلا گیا مگر یہ تو ہونا ہی تھا۔
اب اس مقبول و معروف جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے حکومتی اشرافیہ کئی جتن کررہی ہے مگر تمنا ؤں میں رنگ بھرنا دشوار ہورہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی اور مقتدر اشرافیہ خود بھی اس قوی جن کی چاہت و محبت میں مبتلا ہے۔ کرائے کے جن بھی دستیاب ہیں اور ہر حکم بجا لا رہے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہر گروہ نے اپنے اپنے ماہر جن اپنے اپنے "مقاصد" کے لیے ہائر کررکھے ہیں۔ فریقین کے جن ٹوہ میں رہ کر آتشیں نیزوں سے ایک دوسرے پر حملہ آور بھی ہیں۔ یہ انوکھی اور ہلاکت خیز جنگ ہے۔
اخلاقیات کی دھجیاں اُڑ رہی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا اس جنگ کا اَنت اور اخیر کیا ہوگا۔ کوئی اس جنگ کو "ہائبرڈ وار" کہتا ہے تو کوئی اسے "ففتھ جنریشن وار" کا نام دے رہا ہے۔ اس جنگ کا اصل میدان ٹوئٹر ہے۔ اور نفع مغرب اور امریکا کما رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر وطنِ عزیز میں پچھلے چند ایام کے دوران یہ جنگ کئی "محاذوں " پر لڑی گئی (1) کچھ عسکری تبادلے (2) وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی جنگ(3) وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دَورئہ سعودی عرب(4)ایک کالعدم مذہبی جماعت کا احتجاج (5) امریکا سے آنے والی ایک موعودہ کال (6)پاک بھارت کرکٹ کا تصادم (7) پی ٹی وی اسپورٹس کے ایک تبصراتی پروگرام میں کرکٹ ہیرو شعیب اختر کے خلاف میزبان نعمان اعجاز کا مبینہ توہین آمیز سلوک (8) کچھ صحافیوں کے خلاف حکومتی اشرافیہ کے مبینہ پروردہ عناصر کی دل آزار تیر زنی(9)ایک گھڑی کی مبینہ فروخت کا شر انگیز قصہ (10) ایک پُر اسرار اور "بے معنی" تازہ آڈیو لیک کی داستان جس کی ٹائمنگ بڑی خطرناک ہے۔
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں رہ گئی ہیں؟ وقت، توانائی اور پیسے کا بے تحاشہ ضیاع ہورہا ہے لیکن کوئی بھی اس" ہائبرڈ وار" میں اپنے ہتھیار وں سے دستکش نہیں ہونا چاہتا۔ ملک میں مہنگائی 15فیصد سے متجاوز ہو کر قیامت برپا کررہی ہے، سڑکوں پر خندقیں کھودی جارہی ہیں اور لاپروا حکومتی اشرافیہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہُوئے مبینہ ففتھ جنریشن وار جیتنے کی لگن میں ہے۔ پنجاب میں بوجوہ رینجرز آ چکی ہے۔
جناب عمران خان کے دَور میں ہم نے کتنے بڑے خوابوں اور آدرشوں کے جلَو میں سفر شروع کیا تھا لیکن صرف ساڑھے تین برسوں کے عرصے میں پاکستان کے 22کروڑ عوام کہاں آ پہنچے ہیں؟ تبدیلی والے حکمرانوں نے ہمیں کہاں آ پھینکا ہے۔ ہر کوئی کفِ افسوس مَل رہا ہے۔