نیا سال 2020 طلوع ہو چکا ہے۔ اﷲ کرے، یہ سال بنی نوعِ انسان کے لیے مبارک و مسعود ثابت ہو اور امن کی نوید بھی۔ یہ نیا سال بھی گزشتہ برس کی طرح بھارت اور بھارتیوں کے لیے اچھی خبریں لے کر نہیں آیا ہے۔ ہماری تو دعا ہے کہ بھارتی مقتدر جماعت، بی جے پی، ہوش کے ناخن لے اور انسانیت کا دامن تھامے۔ ہم دعا گو اس لیے بھی ہیں کہ بھارت میں 20کروڑ کے قریب مسلمان بستے ہیں۔
ہمیں اُن کی سلامتی بھی عزیز ہے۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہم دُنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتے کہ یہی اسلامی اخوت ہے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی مسلمانوں کی تعذیب کے لیے جو نئے امتیازی قوانین (NRC اور CAA) وضع کیے ہیں، اس نے سارے بھارت ہی کو نہیں، ساری دُنیا کو شرما دیا ہے۔ شائد یہ اِسی ظلم اور استحصال کا نتیجہ ہے کہ کروڑوں انصاف پسند غیر مسلم بھارتی بھی پورے اخلاص اور جذبوں کے ساتھ بھارتی مسلمانوں کے ہمقدم اور ہم نظر دکھائی دے رہے ہیں۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور مودی جی کی حکومت کے لیے یہ مناظر حیرت خیز اور پشیمان کن ہیں۔ اُن کی توقعات کے قطعی برعکس۔ مودی کی مقتدر پارٹی نے ہندو غلبے کی جو آگ صرف بھارتی مسلمانوں کے لیے دہکائی اور جلائی تھی، وہ اب پورے بھارتی وجود کو بھسم کرتی نظر آ رہی ہے۔ پچھلے سال کے وسط میں مودی جی نے یہ آگ پہلے پہل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے جلائی۔ اس آگ کو جلتے ہُوئے آج پانچ ماہ گزر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیری جن جہنم نما حالات سے گزر رہے ہیں، ہم پاکستان کی محفوظ جنت میں بیٹھ کر اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اُٹھائے گئے قدم سے حوصلہ اور شہ پا کر وہ قوانین (NRC اور CAA) بنائے جن کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف آگ بھڑکائی جائے۔ یہ تنفر آفریں آگ اب تک 45 افراد کو ہڑپ کر چکی ہے اور اس کے شعلے لپکتے ہُوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس آگ نے بھارتی سیکولرزم اور بھارتی سیاحتی انڈسٹری کو بھی جلا دیا ہے۔
بھارت کے باقی علاقے تو رکھئے ایک طرف، صرف اُتر پردیش صوبے کے حالات دیکھتے ہیں۔ یہ دراصل "بھارتی دیگ" کا ایک "دانہ" کہا جا سکتا ہے۔ یہ "دانہ" ہی بتا دے گا کہ بقیہ بھارت میں کس قسم کی آگ بھڑک رہی ہے؟ اُترپردیش آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کا موجودہ وزیر اعلیٰ، یوگی ادیتیہ ناتھ، کٹر ہندو مذہبی لیڈر ہے۔ ہمیشہ زعفرانی رنگ میں ملبوس یوگی "صاحب" کو فخر ہے کہ وہ صرف ہندو ووٹ لے کر، ہندو مقاصد کی تکمیل کے لیے، وزیر اعلیٰ منتخب ہُوا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے نئے امتیازی قوانین کا وہ سب سے بڑا حامی ہے۔ وزیر اعظم مودی کا دستِ راست بھی کہلاتا ہے۔
بھارت جس آگ میں آج جل رہا ہے، یوگی جی اس کی شدت اور حدت میں اضافہ "فرما" رہے ہیں۔ اس کا اندازہ کئی مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ نئے امتیازی قوانین کے خلاف مظاہرے کرنے والے جن تین درجن سے زائد افراد کو بھارتی فورسز نے قتل کر ڈالا ہے، ان بہیمانہ ہلاکتوں کی 80 فیصد تعداد اُتر پردیش سے تعلق رکھتی ہے۔
اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ کو فخر ہے کہ وہ نئے امتیازی قوانین کے خلاف مظاہرین کا زور توڑنے کے لیے طاقت اور اختیار کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اس فخر کا اظہار اپنی ٹویٹس کی شکل میں دھڑا دھڑ کر رہے ہیں اور انھیں کسی کی پروا ہے نہ فکر۔ انھوں نے اپنے آئی جی پولیس (او پی سنگھ) کو مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلانے کا کھلا اختیار دے رکھا ہے۔ اس اختیار میں وزر اعظم مودی کی اشیرواد بھی شامل ہے۔
اس اشیرواد کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اُترپردیش میں ہلاکتوں کی تعداد بھی روز افزوں ہے اور مجروح ہونے والوں کی بھی۔ دو دن پہلے یوگی جی نے فخریہ طور پر اپنی ٹویٹ میں لکھا: "مَیں نے اپنی ریاست میں مظاہرین کے قدم روک کر پورے ملک میں ایک نئی مثال قائم کی ہے۔" پھر دوسری ٹویٹ میں لکھا: "جو بھی ریاستی ملکیت کی جائیدادوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، اس کا ازالہ ریاستی خزانے سے نہیں بلکہ نقصان پہنچانے والوں کی جیبوں سے پورا کر رہا ہُوں، اُن کی جائیدادیں بحقِ سرکار ضبط کر کے۔"
لیکن اس کے باوصف اُترپردیش کی آگ پھیلنے سے رُک نہیں رہی۔ اب تک ہلاک ہونے والے بے گناہ مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہُوا ہے تو مظاہرین کے ہاتھوں شدید زخمی ہونے والے سیکیورٹی فورسز کی تعداد بھی 290 سے تجاوز کر چکی ہے۔ آگ ہے کہ روکنے سے رک نہیں رہی۔ اس آگ نے اترپردیش میں واقع "تاج محل" کو بھی عالمی سیاحوں سے دُور کر دیا ہے۔
اُترپردیش کی یہ آگ قابو کرنے کے لیے یوگی کی حکومت ڈرونز کا بھی بکثرت استعمال کر رہی ہے۔ مشتعل اور غصے میں جلتے بھنتے مظاہرین کے خلاف اُترپردیش ریاست کے کریک ڈاؤن شدید سے شدید تر ہیں لیکن اپنے ہاتھوں سے دہکائی گئی آگ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ بھارتی سیکولرزم کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ رہا ہے۔ انسانیت کی توہین کے مرتکب مودی اور اُن کے دستِ راست ( از قسم امیت شاہ، راجناتھ سنگھ اور اجیت ڈوول) پر دُنیا بھر کی لعنتیں بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ مسلمان سہمے تو ہُوئے ہیں لیکن انھوں نے نئے سرے سے ہمت پکڑی ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کے زبردست دباؤ پر بھارتی میڈیا بھارت بھر میں لگی آگ کی صحیح تر تصویر نہیں دکھا رہا لیکن شاباش ہے بھارتی سوشل میڈیا اور ویب اخبارات پر جو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اپنے قارئین اور ناظرین تک خبریں فوری پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
بھارت میں لگی آگ بجھانے اور اس کی حدت کم کرنے کے لیے بھارتی حکومت اپنے متنوع مخالفین کی زبانیں بند اور انھیں مستقل طور پر خاموش کرنے کی نیت سے "ڈی ٹینشن سینٹرز" اور "کنسنٹریشن کیمپس" کی تعمیر بھی تیزی سے کر رہی ہے۔ سرکاری سطح پر ان ظالم اور استحصالی مراکز کا انکار تو یقیناً کیا جا رہا ہے لیکن ان کا بھانڈا بھارتی دلیر اخبار نویس ہی پھوڑ رہے ہیں۔ آسام اور بنگلور میں ایسے کئی نئے ڈی ٹینشن سینٹرز کی تعمیر کے انکشافات ہُوئے ہیں۔ بھارتی کانگریس کے مرکزی رہنما، راہل گاندھی، بھی ان "حفاظتی" مراکز کی موجودگی کا اقرار کرتے ہُوئے مودی حکومت کی مذمت کر رہے ہیں۔
نریندر مودی نے عوامی غصہ فرو کرنے کے لیے یہ اُلٹا الزام لگایا ہے کہ ان سینٹرز کی تعمیر "دراصل" کانگریسی حکومتوں میں شروع ہُوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ڈی ٹینشن سینٹرز کے وجود سے انکار نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بھارت میں موجود "غیر قانونی مسلمانوں " کو ان مراکز میں قید رکھا جائے گا۔ ایسے ہی ڈی ٹینشن اور کنسنٹریشن کیمپ جرمنی کے ہٹلر نے بھی اپنے سیاسی، سماجی، نظریاتی اور معاشی مخالفین کے خاتمے کے لیے بنائے تھے۔ ہٹلر کا جو پھر انجام ہُوا، وہ شائد مودی کی نظروں سے ابھی اوجھل ہے!