مہلک کورونا پھیلنے سے ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر ملک اپنی سرحدیں بند کرکے خود کو اور اپنے عوام کو محفوظ بنانے کی سعی کررہا ہے۔ کوشش یہی ہے کہ ہم خود بچ جائیں، باقی بعد میں دیکھیں گے۔ وطنِ عزیز میں وائرس سے بظاہر محفوظ رہنے کے لیے جس طرح فیس ماسک اور سینیٹائزرز نایاب بنا دیے گئے ہیں، اِسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نفسا نفسی کیا ہوتی ہے۔
آزمائش کی ان گھڑیوں میں بہت سی عالمی پابندیوں میں گھرے ایران سے وزیر اعظم عمران خان کا دستِ تعاون و اخوت مزید بڑھ گیا ہے۔ مشہور امریکی خبر رساں ادارے "ایسوسی ایٹڈ پریس" کو اسلام آباد میں انٹرویو دیتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری اور خصوصاً امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ وقت ہے کہ ایران پر سے اب امریکی پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ چین اور اٹلی کے بعد ایران وہ ملک ہے جہاں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی صورتحال خاصی خراب ہے۔ مذکورہ انٹرویو میں ایران کا ہمدردانہ ذکر کرکے عمران خان نے ایک شاندارمثال قائم کی ہے۔ ایران پر عائد سخت پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرکے اُنہوں نے اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ایران پر سخت امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت خاصی کمزور ہو چکی ہے لیکن ایران اس کے باوصف امریکی جبر کے سامنے ڈٹا کھڑا ہے۔ اوپر سے کورونا وائرس کی پھیلتی وبانے ایران کو مزید پریشان کررکھا ہے۔ امریکا نے ایران کو پیشکش کی ہے کہ وہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں میں ایران کی ممکنہ مدد کرنا چاہتا ہے لیکن ایرانی سپریم لیڈر ِ آئت اللہ خامنہ ای، نے یہ پیشکش قبولنے سے انکار کر دیا ہے۔ اللہ کرے ایران میں کورونا کی ہلاکت خیزیوں کا پھیلتا دائرہ سکڑ جائے۔ جو ایرانی کورونا کے کارن انتقال کر گئے ہیں، اُن میں چند اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔
اس پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان کا عالمی برادری اور خصوصاً امریکا بہادر سے یہ اپیل کرنا کہ ایران سے معاشی پابندیاں ختم کی جائیں، ایک مستحسن عمل ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ساری اسلامی برادری ہماری سانجھی اور مشترکہ برادری ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے کو مذکورہ انٹرویو میں ہی عمران خان نے ایران سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ امریکی احساس کو بیدار کرنے کے لیے اُن کا یہ مطالبہ مسلسل جاری ہے۔ مثال کے طور پر 21مارچ کو وزیر اعظم عمران خان نے پھر ایسا ہی مطالبہ کر ڈالا۔ خبر کے مطابق:"عمران خان نے اسلام آباد میں اینکروں سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا کہ کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے، ایسے میں ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنی چاہئیں۔
ایران کورونا وائرس سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ اس دوران ایران پر عالمی پابندیاں بہت بڑا ظلم ہے۔ تفتان سے متعلق بلیم گیم چل پڑی ہے جو افسوس ناک ہے۔" دریں اثنا ایرانی صدر، حسن روحانی، نے عمران خان کے نام ایک خط بھی لکھا ہے جس میں اُن سے ایران پر عائد امریکی پابندیاں ہٹانے کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ جناب حسن روحانی نے اپنے خط میں پاکستان سے کورونا وبا پر قابو پانے کے لیے اپیل بھی کی گئی ہے۔ اس خط کے بعد پاکستان نے، خان صاحب کی ہدائت اور قیادت میں، ریاستی سطح پر ایران پر عائد پابندیاں ختم کروانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔
اللہ کرے کورونا کی تازہ قیامت کے دوران سنگین مسائل میں گھرے ایران کو مالی مشکلات سے نجات دلانے کے لیے وزیر اعظم پاکستان کی جاری کوششیں ثمر آور ثابت ہو سکیں۔ ایران کی کوشش ہے کہ امریکی پابندیوں کی آہنی گرفت سے نکلنے کے لیے دوسرے چینلز بھی بروئے کار لائے جائیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں متعین ایرانی سفیر، سید محمد علی حسینی، نے چند دن پہلے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب، میاں محمد شہباز شریف، کو بھی ایک خط لکھا ہے جس میں میاں صاحب سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی ایران پر لگائی گئی امریکی پابندیاں ہٹانے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ کورونا وائرس کے پیدا کردہ نئے مسائل و مصائب کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران ہر طرف ہاتھ ماررہا ہے۔
سفارتی سطحوں پر بھی اور اقتصادی محاذوں پر بھی۔ امریکی جریدے "فارن پالیسی " نے بھی اپنے تازہ شمارے میں اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایرانی پر نافذ امریکی اقتصادی پابندیوں نے ایرانی معیشت پر نہائت منفی اثرات ڈال رکھے ہیں۔
ایران کی ہمت ہے کہ پچھلے 40برسوں سے امریکی ناجائز پابندیوں کا مقابلہ کررہا ہے۔ ان پابندیوں نے ایرانی کرنسی کی عالمی قیمت بھی کمزور کر ڈالی ہے۔ امریکی خواہش ہے کہ ایران اُس کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہُوئے اُس کے سارے مطالبات تسلیم کرلے۔ خاص طور پر ایرانی جوہری معاملات کے حوالے سے۔ ایسا کرنا شائد ایران کے لیے ناممکن ہے۔ یہ ایرانی افتخار اور قومی وقار کے منافی ہے۔ کورونا وائرس کے پیدا کردہ شدید معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے مگر ایران نے بہ امر مجبوری آئی ایم ایف سے درخواست بھی کی ہے کہ اُسے 5ارب ڈالر کا قرضہ ( ایمر جنسی لون) فوری فراہم کیا جائے۔
آئی ایم ایف کو دی گئی اس ایرانی درخواست کو غیرمعمولی قرار دیا جارہا ہے۔ تقریباً ساٹھ سال بعد ایران نے آئی ایم ایف سے ایسی درخواست کی ہے۔ اس درخواست کو منظور یا نا منظور ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ امریکا اگر چاہے تو چند دنوں میں یہ منظوری ہو سکتی ہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں امریکا "بہادر" کو مرکزی اور فیصلہ کن مقام حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایران کا ہر صورت میں بازو مروڑنے کے خواب دیکھنے والا امریکا کیونکر ایران کی یہ درخواست منظور کرے گا؟ امریکا تو عالمی سطح پر یہ جھوٹا پروپیگنڈہ بھی کررہا ہے کہ " ایران کو چونکہ صحت اور خوراک کے حوالے سے پابندیوں کا سامنا نہیں ہے، اس لیے دیگر پابندیاں ہٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔" یہ افسوسناک اور دکھ بھرا رویہ ہے۔ طاقتور مگر بے حس اور سفاک بھی تو ہوتے ہیں۔ امریکا تو اِن ایام میں کچھ اور بھی خواب دیکھ رہا ہے۔
مثلاً ایرانی معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والی ممتاز امریکی ماہرِ سیاسیات، باربراسلاون، کہتی ہیں کہ" امریکا کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کی پیدا کردہ اس قیامت میں اگر امریکا، ایران کی کوئی اعانت نہ کرے تو ایرانی عوام اصل ایرانی حکمرانوں کا تختہ اُلٹ دیں گے۔ امریکی امداد نہ ملنے سے ایران میں مزید سنگین معاشی و میڈیکل مسائل پیدا ہوں گے۔ اور یوں شدید ناراضی میں ایرانی عوام ایرانی مقتدرین کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گے۔" ایسا مگر ہوگا نہیں۔ ایرانی عوام کو بغاوت پر اکسانے کے لیے امریکا پہلے بھی کئی کوششیں کر چکا ہے لیکن اُس کی ایک بھی کوشش حسبِ خواہش کامیاب نہیں ہو سکی۔
اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ کورونا وائرس کے پیدا کردہ تازہ سنگین مسائل میں امریکا کی کوشش یہ ہے کہ ایران کا ناطقہ مزید تنگ کیا جائے۔ مثال کے طور پر19مارچ کو "الجزیرہ" نے خبر دی ہے کہ امریکا نے ایک دولتمند خلیجی ملک کی پانچ کمپنیوں پر سخت عالمی پابندیوں میں جکڑ ڈالا ہے۔ امریکا نے الزام لگایا ہے کہ ان خلیجی کمپنیوں نے خفیہ طور پر ایران سے لاکھوں ٹن پٹرولیم مصنوعات خریدی ہیں۔ یہ ظالمانہ اقدامات زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں کہ ایرانی مصائب پر امریکا کا دل فی الحال پسیج نہیں رہا۔ اس ظلم پر کئی امریکی ماہرین امریکی انتظامیہ کو خبردار بھی کررہے ہیں کہ اگر امریکی حکمرانوں کا ایران بارے یہی غیر انسانی رویہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ ایران مزید روس اور چین کی طرف جھک جائے گا۔