مرید حسین میرا ہم جماعت بھی ہے اور بہت پرانا دوست بھی۔ اُس کے والد صاحب بھی ٹیچر تھے اور مرید حسین خود بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس کے ابا جی پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے اور مرید حسین مڈل اسکول میں پڑھاتا ہے۔
ایف ایس سی فرسٹ ایئر میں میرے یہ دوست اور کلاس فیلو، مرید حسین صاحب، نے نظر کی کمزوری، کیمسٹری کی پیچیدگیوں اور میتھ کے پروفیسر کی ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آ کر ایف ایس سی چھوڑ کر ایف اے کرنے کا ارادہ کیا۔ بہت اچھے نمبروں سے ایف اے کیا اور پھر ریگولر بی اے بھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا۔ اپنے والد صاحب کے ایما پر بی ایڈ کیا۔ تین سال بیکاری کے دھکے ٹھیڈے کھانے کے بعد بالآخر ایک دور دراز کے سرکاری مڈل اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔
کئی سال بعد میری اُس سے ملاقات ہُوئی تو ٹیچر ابنِ ٹیچر مرید حسین کی حالت خاصی کمزور تھی۔ دو بچے ہو چکے تھے۔ نظر کی کمزوری آخری حدوں میں تھی۔ ہم اپنے آبائی شہر کے اُسی کھوکھا ہوٹل میں بیٹھ گئے جہاں کالج کے زمانے میں کبھی کبھار کریم رول کے ساتھ چائے پینے کی عیاشی کرتے تھے۔ کھوکھا اب بھی کالج کی دیوار کے سہارے قائم تھا، برتن بھی ویسے ہی "صاف ستھرے " تھے جیسے برسہا برس قبل ہمارے کالج کے دَور میں تھے۔ البتہ اُس کا مالک برسوں قبل تہِ خاک جا سویا تھا اور اب اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا یہ "کاروبار" چلا رہا تھا۔
مَیں نے اپنے لاغر اور نہایت کمزور دوست سے شرارتاً کہا: "مریدیا، تُوں اجے وی چاء سُڑک سُڑک پینا ویں یار۔"وہ کچھ مگر بولا نہیں۔ اُس کی اداسی اور خاموشی مجھے بہت کھلی۔ درد کا مارا بولا:" یار، اسکول بہت دُور ہے۔ نظر نہایت کمزور۔ بچے چھوٹے اور بیوی بیمار۔ تبادلہ شہر کے قریب نہیں ہوتا۔ سفارش میری کوئی نہیں۔"
میرے دل پر گھونسا لگا۔ مَیں لاہور واپس آیا اور اپنے ایک سیکریٹری تعلیم دوست سے مرید حسین کے تبادلے کے لیے ترلا منت کیا۔ کوئی تین ماہ بعد مرید صاحب کا تبادلہ اُس کی خواہش کے عین مطابق شہر کے مضافات میں پڑنے والے ایک نزدیکی مڈل اسکول میں ہوگیا۔ بڑا خوش تھا۔ کوئی تین ماہ قبل مرید حسین کی اہلیہ محترمہ کا مجھے فون آیا کہ اُن کی نظر تقریباً ختم ہو چکی ہے، اگر ہو سکے تو اُن کا پتہ کر لیجیے۔ قصہ لمبا ہے۔
مختصر بات یہ ہے کہ اپنے پرانے دوست مرید حسین کو مَیں لاہور، راولپنڈی اور ٹیکسلا کے اُن سرکاری اسپتالوں میں لے لے کر خجل خوار ہوتا رہا جہاں سے کچھ رعایت کے ساتھ آنکھوں کا آپریشن یا ایک ضایع شدہ آنکھ دوبارہ مل جائے۔ جناب عمران خان کی حکومت نے سرکاری اسپتالوں کی فیسیں، ادویات اور آپریشن اتنے مہنگے کر دیے ہیں کہ غریب بیمار آدمی کی پہنچ سے بہت دُور ہو چکے ہیں۔ اس سارے سفر میں مجھے یہ تلخ تجربہ ایک بار پھر ہُوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غریب اور بے نوا پاکستانی کے لیے سرکاری ڈاکٹر کی محبت اور تعاون حاصل کرنا تقریباً ناممکن بن چکا ہے۔
اسلام آباد میں بروئے کار بلند بانگ دعوے کرنے والی ایک این جی او کے مالک سے بھی مَیں نے رابطہ کیا اور مرید حسین کے لیے اعانت چاہی لیکن وہاں سے بھی سوائے لاروں لپاروں کے کچھ نہ مل سکا۔ پھر مجھے پانچ درد مند انسان ملے اور اُن کے مالی تعاون سے مرید حسین ایک نجی اسپتال سے ایک بڑے آپریشن کے بعد دوبارہ ایک آنکھ کی مکمل بینائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
الحمد للہ۔ ایک آنکھ بھی اُس کے لیے بہت بڑی نعمت ہے مگر یہ کسی کی آنکھ ہے۔ عطیہ شدہ آنکھ۔ ایک آنکھ کی نعمت پا کر مرید حسین دُنیا جہان کی خوشیوں کے ساتھ گھر پہنچا تو اُس نے مجھے احمد فراز کا یہ شعر وٹس ایپ پر بھیجا:دیکھوں یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ مری؟ / دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو؟ ۔
لندن سے لاہور آئے اپنے دوست، عبدالرزاق ساجد، کو راقم نے یہ کہانی تفصیل سے سنائی۔ دانستہ سنائی کہ وہ ایک خدمتِ خلق ادارہ ( المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ) کے روحِ رواں ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، برما سمیت دُنیا کے کئی غریب ممالک میں عسرت زدہ، مستحق افراد کی آنکھوں کی بیماریوں کے حوالے سے دستگیری کرنے کی عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان میں وہ اپنے مذکورہ ادارے کے پرچم تلے اب تک ایک لاکھ سے زائد اُن غریب افراد میں مکمل علاج کی شکل میں مسرتیں تقسیم کر چکے ہیں جو تنگدستی کے کارن آنکھوں کے امراض سے نجات حاصل کرنے سے قاصر تھے۔
مرید حسین کی کہانی سنانے کا واحد مقصد یہ تھا کہ اگر اُن کے ادارے کے تحت اُن غریب افراد کوجو آنکھوں کی نہایت حساس بیماریوں میں مبتلا ہیں، مفت علاج فراہم ہو سکے تو بڑی عظیم خدمت ہوگی۔ حکومت نے تو سرکاری اسپتالوں میں مستحقین کا بھی ہاتھ تھامنے سے صاف انکار کررکھا ہے۔ بات سُن کر عبدالرزاق ساجد صاحب نے کہا:" اگر آپ مجھے بروقت مرید حسین کے بارے میں آگاہ کرتے تو یقیناً مَیں اُن کی مدد کو فوری پہنچتا۔"گفتگو کے دوران یہ سُن کر نہایت مسرت ہُوئی کہ لندن سے آئے ہمارے دوست نے اب لاہور میں ایک ایسا اسپتال تعمیر کر دیا ہے جہاں صرف آنکھوں کے امراض کا جدید اسلوب میں ماڈرن مشینری کے ساتھ علاج ہوگا اور غریبوں کے لیے سارا علاج بھی مفت ہوگا۔ اس اسپتال کا نام "المصطفیٰ آئی اسپتال" رکھا گیا ہے۔
المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتایا:"اللہ کے فضل و کرم سے المصطفیٰ آئی اسپتال اب آپریشنل ہو چکا ہے۔ یہ اسپتال لاہور میں گنگا رام اسپتال کے عقب میں اور سیکنڈری بورڈ آف ایجوکیشن کی عمارت سے متصل واقع ہے۔"
لیکن اتنے بھاری اخراجات اُٹھائے گا کون؟ ان سوالوں کے جو حیرت انگیز جوابات عبد الرزاق ساجد نے مجھے بتائے، راقم اس کی تفصیل لکھنے سے قاصر ہے۔ بس اتنا بتانا شاید ضروری ہے کہ اس عظیم کارِ خیر میں اور "المصطفیٰ آئی اسپتال" کی استواری میں لاہور کی جن مخیر اور دردِ دل رکھنے والی شخصیات نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، اُن میں شیخ طارق حمید فضل، شیخ خالد حمید فضل، شیخ عزیز الرحمن، شیخ سعد عطا، شیخ احمد عطاکے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ مجھے یہ مسرت افزا خبر بھی بتائی گئی کہ "المصطفیٰ آئی اسپتال" کا باقاعدہ افتتاح آیندہ چند ایام میں کیا جارہا ہے۔
اس کی افتتاحی تقریب میں مہمانِ خصوصی پنجاب کی ایک اہم شخصیت ہوگی۔ برطانیہ سے لارڈ نذیر احمد بطورِ خاص لاہور تشریف لائیں گے کہ لارڈ صاحب اور پنجاب کی اہم شخصیت دیرینہ دوست بھی ہیں۔ دونوں صاحبان نے برسہا برس تک برطانوی مسلمانوں کی خدمت بھی کی ہے اور دیارِ فرنگ میں پاکستان اور اسلام کا جھنڈا بھی ایک خاص شان سے بلند کیے رکھا۔