آج جب کہ ہم سب جشنِ عیدِ میلاد النبیﷺ منارہے ہیں، پورے عالمِ اسلام میں فرانس اور فرانسیسی صدر کے خلاف غم و غصہ کی زبردست لہر اُٹھی نظر آ رہی ہے۔ توکیا تہذیبوں کے تصادم کا وقت قریب آپہنچا ہے؟
اگر سیموئیل ہنٹنگٹن کی پیشگوئی کے مطابق تہذیبوں کا تصادم(Clash of Civilizations)ہونے والا ہے تو اس تصادم کا ذمے دار نفرت کا پرچارک مغربی میڈیا اور ضدی مغربی حکمران ہوں گے۔
سچی بات یہ ہے کہ راقم تو اُس فرانسیسی جریدے کا نام بھی لکھنے کے لیے تیار نہیں ہے جونبی کریمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیوں کا مرتکب ہُوا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر فرانس ہی کے ایک ہائی اسکول ٹیچر(سیموئیل پیٹی)نے اپنی کلاس میں طلبا کو، متعدد بار، یہ توہین آمیز خاکے دکھائے۔ کلاس میں مسلمان طلبا بھی تھے جن کی بجا طور پر دل آزاری ہُوئی۔
فرانسیسی ٹیچر کی یہ دل آزار حرکت دانستہ تھی۔ اُسے پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ ایک اٹھارہ سالہ مہاجر نوجوان چیچن مسلمان طالبعلم (عبداللہ انذاروف) نے استاد مذکور کا سر قلم کر دیا۔ افسوس یہ ہے کہ فرانسیسی صدر، ایما نوئیل میکرون، نے توہین کے مرتکب فرانسیسی جریدے اور دل آزار خاکے دکھانے والے فرانسیسی استاد کی حمایت میں بیان دیے ہیں۔
میکرون نے مقتول استادکو اپنے ملک کا سب سے بڑا سویلین تمغہ عنایت کرکے ساری دُنیا کے مسلمانوں کے دل مزید دکھائے ہیں۔ اس پر او آئی سی نے بھی بجا طور پر فرانس سے احتجاج کیا ہے، جامعہ ازہر نے بھی مذمت کی ہے اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی متفقہ طور پر فرانسیسی صدر کے اقدامات و بیانات اور توہین کے مرتکب فرانسیسی جریدے کے خلاف قرارداد منظور کی ہے۔ یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ پاکستان فرانس میں متعین اپنا سفیر واپس بلا کر باقاعدہ فرانس کے خلاف احتجاج کرے۔ ہمارے وزیر اعظم نے بھی اس سلسلے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے:" فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکرون، نے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی حوصلہ افزائی کر کے اسلام اور ہمارے پیارے نبیﷺ کو ہدف بنا کر مسلمانوں، بشمول اپنے شہریوں کو جان بوجھ کر مشتعل کرنے کی راہ اختیار کی۔ یہ وہ وقت ہے جب ایمانوئیل میکرون دُوریاں بڑھانے اور ایک خاص گروہ کو دیوار سے لگانے کے بجائے ان کے زخموں پر مرہم رکھتے اور شدت پسندوں کو گنجائش دینے سے انکار کرتے"۔
جناب عمران خان نے مزید کہا: "بدقسمتی سے فرانسیسی صدر نے تشدد پر آمادہ دہشت گردوں کے بجائے اسلام پر حملہ آور ہوتے ہوئے اسلاموفوبیا کی حوصلہ افزائی کا راستہ چنا۔ اسلام پر اپنے بلا سوچے سمجھے حملے سے صدر ایمانوئیل میکرون یورپ اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات پر حملہ آور ہوئے ہیں اور انھیں ٹھیس پہنچانے کا سبب بنے۔ جہالت کی بنیاد پر دیے گئے عوامی بیانات سے مزید نفرت، اسلامو فوبیا اور انتہا پسندوں کے لیے جگہ پیدا ہوگی۔"
عمران خان سے قبل ترک صدر جناب رجب طیب اردوان نے بھی فرانسیسی صدر کے بیان اور اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ اردوان صاحب اس حوالے سے عالمِ اسلام کے وہ حکمران ہیں جنھوں نے سب سے پہلے، کسی بھی سودو زیاں کی پرواہ کیے بغیر، ایمانوئیل میکرون کی گوشمالی کی ہے۔ انھوں نے اپنے فرانسیسی ہم منصب پر اسلام اور مسلمانوں سے متعلق متنازع پالیسیوں پر سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ایمانوئل میکرون کو سب سے پہلے اپنا دماغی معائنہ کرانے کی ضرورت ہے۔
فرانسیسی صدر کہلانے والے اس شخص کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ ایسے سربراہِ مملکت کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جو اس طرح کا دل آزار سلوک کرتا ہو؟ "۔ فرانس نے ترک صدر کے بیان پر خاصی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ فرانسیسی حکومت کی ڈھٹائی کا مگر عالم یہ ہے کہ مسلمانوں کی دل آزاری پر معذرت نہیں کررہا۔ اُلٹا فرانس نے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ واضح رہے کہ فرانس، یورپ میں مسلم اقلیتی آبادی کا سب سے بڑا ملک ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت 60 لاکھ یا اس سے زیادہ مسلمان فرانس میں آباد ہیں۔ فرانس وہ ملک ہے جس نے یورپ میں سب سے پہلے مسلم خواتین پر، عوامی مقامات میں، چہرے کے نقاب پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اب تک سیکڑوں فرانسیسی مسلمان خواتین پر اسی بنیاد پر جرمانے کیے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے فرانس کی جانب سے مسلمان خواتین کے پورے چہرے کے نقاب پر عائد پابندی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس قانون سازی پر نظرثانی کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن فرانس نے یہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ فرانس اور فرانسیسی صدر کو آزادیِ اظہار اگر اتنا ہی عزیز ہے تو ذرا یہودیوں کے خلاف کوئی بیان دے کر دیکھیں !
فرانسیسی صدر اسلام اور مسلمانوں بارے پہلے بھی متنازع بیانات دیتے رہے ہیں۔ انھوں نے چند دن پہلے کہا تھا: " اسلام بطورِ مذہب دنیا میں بحران کا شکار ہے۔ اسلام پسند فرانس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اب میری حکومت فرانس میں مذہب اور ریاست کو باضابطہ طور پر الگ کرنے والے 1905ء کے قانون کو مستحکم کرنے کے لیے دسمبر2020ء میں ایک بل زیادہ مضبوط اسلوب میں پیش کرے گی"۔
انھوں نے فرانسیسی اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ پر سخت کنٹرول کا اعلان بھی کیا ہے۔ فرانس کی اُس مسجد کو بھی عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے جہاں سے مقتول و توہین کے مرتکب فرانسیسی استاد کی مخالفت میں آوازیں اُٹھی تھیں۔ فرانسیسی صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ اب کسی بھی مسلمان مبلغ کو فرانس سے باہر کسی مسلمان ملک میں جا کر تربیت حاصل کرنے اور کسی بھی مسلمان ملک سے علمائے دین کے فرانس میں آنے پر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔
فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف بیان و اقدام سے عالمِ اسلام میں شدید غصہ اور طیش کی لہر جاری ہے۔ کویت، اُردن اور قطر نے تو فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیاہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ چار درجن سے زائد مسلمان ممالک کے سبھی حکمران بیک زبان اور یکمشت ہو کر فرانسیسی صدر کی دل آزار حرکت کی مذمت کرتے۔ دولت مند مسلم ممالک اکٹھے ہو کر اگر صرف فرانسیسی خوشبوؤں ہی کا مکمل مقاطع کردیں تو فرانس کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ فرانس کی معاشی کمر توڑ کر فرانسیسی صدر کے ہوش ٹھکانے لگائے جا سکتے ہیں۔ ترک صدر نے اپنے عوام سے تو باقاعدہ کہہ دیا ہے کہ وہ پورے ملک میں فرانسیسی مصنوعات کا استعمال بند کر دیں۔ پاکستان میں بھی یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
ارب کھرب پتی مسلمان حکمران اور تاجر اگر فرانس میں کی گئی سرمایہ کاری اور فرانس میں خریدی گئی اربوں ڈالرز کی جائیدادیں فروخت کرکے اپنا سرمایہ اپنے اپنے ممالک منتقل کردیں تو بھی گستاخ فرانسیسی صدر کے ہوش ٹھکانے لگائے جا سکتے ہیں۔ یہ جرأتمندانہ اور مومنانہ قدم عملی سطح پر مگر اُٹھائے گا کون؟ تمام مسلمان حکمرانوں کو فرانسیسی صدر اور تمام مغربی حکمرانوں پر غیر مبہم الفاظ میں واضح کرنا ہوگا کہ فرانس اور اہلِ مغرب کو اگر اپنے ہاں آزادیِ اظہار سب سے زیادہ عزیز ہے تو مسلمانوں کو اپنے آخری نبیﷺکی حرمت دُنیا کی ہر شئے سے زیادہ عزیز ہے!