کورونا وائرس کی دہشت انگیز وبا، عالمی دگرگوں معیشت، پاک بھارت و بھارت چین کشیدگی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم میں تسلسل کے باوجود پاکستان کی مسلسل کوشش ہے کہ برادر و ہمسایہ اسلامی ملک، افغانستان، امن کی نعمتوں سے فیضیاب ہو سکے۔
افغانستان کے کچھ شر انگیز عناصر، جنہیں بھارت کی شہ و آشیرواد حاصل رہتی ہے، کی شرارتوں کے باوصف پاکستان نے کسی بھی معاملے میں افغانستان کی مدد کرنے سے انکار نہیں کیا ہے۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ بھی کی جاتی ہے جن میں کئی بار ہمارے شہری شہید ہُوئے ہیں لیکن اس صریح زیادتی کو پاکستان نے تحمل سے دیکھا اور برداشت کیا ہے، حالانکہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز میں استعداد ہے کہ افغان فائرنگ کا منہ توڑ جواب دے سکے۔
پاک افغان بارڈر پر پاکستان کی طرف سے باڑ لگائی جا رہی ہے تاکہ دہشت گرد عناصر کا انسداد کیا جا سکے۔ باڑ کی استواری پر پاکستان کا زرِ کثیر بھی خرچ ہو رہا ہے اور تصورات سے بھی کہیں زیادہ انسانی محنت لگ رہی ہے۔ افغانستان کی طرف سے اس باڑ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی دانستہ کوششیں بروئے کار رہتی ہیں۔ پاکستان نے مگر ان افغان رکاوٹوں کے باوجود اپنے اسٹرٹیجک کام کو روکا نہیں ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ افغانستان کی طرف سے پاکستان مخالف اقدامات کے پیشِ نظر پاکستان کی طرف سے ایسا رویہ اختیار کیا جاتا جو اس عمل کا اظہار ہوتا کہ افغانستان سے لاتعلق ہو کر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے۔ افغان زیادتیوں کے باوجود پاکستان نے افغانستان اور افغان عوام کی دستگیری اور بہبود میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو ثمر آور بنانا پاکستان کی سب سے بڑی آرزُو ہے۔
اِسی آرزُو میں ایک بار پھر نئے سرے سے رنگ بھرنے کے لیے سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمرجاوید باجوہ نے 9جون 2020 کو افغانستان کے دارالحکومت، کابل، کا ایک روزہ دَورہ کیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے خطے اور امریکا میں اس دَورے کوخصوصی نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ اس دَورے کا مرکزی اور محوری نکتہ افغانستان میں جلد از جلد قیامِ امن ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس تازہ ترین دَورۂ کابل کے بعد افغان امن عمل (Afghan Peace Process) میں عالمی توقعات کے عین مطابق تیزی آئے گی۔
افغان امن عمل کو باقاعدہ قانونی اور اخلاقی حیثیت دینے میں اگرچہ تقریباً چار ماہ قبل، 29فروری کو "معاہدۂ دوحہ " بھی ہو چکا ہے۔ پاکستان نے اس معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا اور یوں قطر کے دارالحکومت میں امریکی اور افغان طالبان کے نمایندگان ایک میز پر اکٹھے ہو گئے۔"معاہدۂ دوحہ" اس امر کا ثبوت ہے کہ افغان امن عمل کی جلد از جلد کامیابی ہی پاکستان کی سب سے بڑی آرزُو ہے۔
دُنیا بھی جانتی ہے کہ پاکستان کے اساسی کردار ہی سے افغان امن عمل ثمر آور ہوگا۔ بھارت کو اگرچہ افغانستان کے لیے پاکستان کی ان امن ساز کوششیں سے عناد اور چِڑ ہے؛ چنانچہ بھارت کی طرف سے افغانستان میں پاکستان کی ان امن ساز کوششوں کو بلڈوز اور سبوتاژ کرنے کی سازشیں جاری رہتی ہیں لیکن بھارتی سازشوں اور کوششوں کے باوجود پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی مدد کرنے سے دستکشی اختیار نہیں کی۔ دُنیا بھی افغان امن عمل کے لیے پاکستان کی ان کوششوں اور مساعی جمیلہ کو تسلیم کرتی ہے۔
امریکا بھی افغان امن عمل کو جلدی سے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ شائد رواں سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے پہلے، دو عشروں پر پھیلی بے ثمر افغان جنگ سے امریکا عاجز آ چکا ہے، اب وہ اپنا پِنڈ چھڑانا چاہتا ہے۔ افغانستان پر سوویت رُوس اور امریکی فوجی یلغار سے پاکستان اور پاکستانی عوام نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ بھارت کا تو کچھ نہیں بگڑا۔
افغان امن عمل کے حوالے ہی سے جب 7جون 2020 کو امریکی صدر کے نمایندہ خصوصی برائے افغانستان، زلمے خلیل زاد، پاکستان آئے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی اُن سے بھی تفصیلی ملاقات ہُوئی تھی۔ اس ملاقات سے صرف دو روز بعد جنرل قمر باجوہ نے کابل کا دَورہ کیا ہے۔ اُن کے ہمراہ آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی تھے اور وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی مندوب برائے افغانستان محمد صادق بھی ( محمد صادق، جو افغان امور کو بخوبی سمجھتے ہیں، کا چند دن پہلے ہی تقررکیا گیا ہے۔
ماضی قریب میں وہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں )کابل کے صدارتی محل میں مبینہ طور پر نہایت اچھے ماحول میں افغان صدر جناب ڈاکٹر اشرف غنی اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے درمیان ملاقات ہُوئی ہے۔ جب سے اشرف غنی نے دوسری بار افغان صدر کا عہدہ سنبھالا ہے، کسی ہائی رینکنگ پاکستانی عہدیدار کا یہ پہلا سرکاری دَورۂ افغانستان ہے۔
جنرل باجوہ سے افغانستان کی دوسری اہم ترین شخصیت، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، کی بھی ملاقات ہُوئی ہے۔ ان ملاقاتوں میں اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے "افغان امن عمل" میں پاکستان کے مستحسن کردار کو تو سراہا ہی ہے، اصل بات یہ ہے کہ دونوں اہم ترین افغان شخصیات نے اس امر کی بھی پاکستان کی تعریف کی ہے: (1) پاکستان نے طورخم اور چمن بارڈرز کھول دیے ہیں جس کی وجہ سے افغانوں کو سہولیات مل رہی ہیں (2) پاکستان نے افغان ٹرانزٹ سامان کی ترسیل کے لیے اپنے راستے دیے ہیں (3) پاکستان میں رُکے افغانوں کو زمینی اور ہوائی راستوں سے واپس اپنے وطن آنے میں اعانت فراہم کی ہے(4) کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں کو کم کرنے اور افغان متاثرہ شہریوں کی طبّی امداد میں پاکستان کے دستِ تعاون کی فراہمی!
دیکھا جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ کا دَورۂ کابل حالیہ ایام میں اہم ترین واقعہ ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں دوستی اور قربت میں نئے سرے سے اضافہ ہوگا۔ انشاء اللہ اس کے دُوررَس اور مثبت اثرات برآمد ہوں گے۔ باجوہ صاحب نے بجا طور پر افغانستان میں جمہوریت کے چلن کی بھی تحسین کی ہے اور اس کے فروغ کی بھی دعا کی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ اس ہائی پروفائل ملاقات کے بعد Intra Afghan Talks کا آفتاب بھی طلوع ہوگا اور متحارب افغان طالبان اور افغان حکومت ایک میز پر بیٹھ کر اپنے ملک اور پریشان و بدحال افغان عوام کی بہتری اور بہبود کے لیے قابلِ عمل راستے نکالیں گے۔
یہ بھی اُمید کی جاتی ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت افغان طالبان کے بقیہ قیدیوں کو بھی طالبان مطالبات کے مطابق فوری رہا کر دے گی۔ افغان طالبان کا مطالبہ ہے کہ معاہدۂ دوحہ کے مطابق افغان حکومت اُن کے سارے قیدی رہا کرے ( قیدی طالبان کی کُل تعداد5ہزار بتائی جاتی ہے) جوں جوں افغان امن عمل کی کامل کامیابی کے دن قریب آ رہے ہیں، افغانستان میں بھارتی عمل دخل کم ہورہا ہے۔ یہ عمل دخل مزید کم ہوگا اور یوں بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے خلاف افغانستان کے جو راستے استعمال کرتا ہے، وہ مسدود تر ہو جائیں گے۔
بلاشبہ افغانستان میں بھارت Peace Spoilerکا کردار ادا کررہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں کوئی ملک بھارت کی امن دشمنی سے محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان اُس کا خاص ہدف ہے۔ پاکستان نے اپنے ہاں اُن عناصر کو کبھی پنپنے دیا ہے نہ اُن کی حوصلہ افزائی کی ہے جو افغانستان میں بدامنی کرنا چاہتے ہیں۔ جنرل باجوہ کے تازہ دَورۂ کابل کے بعد پاکستان اُمید رکھتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے میں کبھی معاونت نہیں کرے گی۔