بروز اتوار بتاریخ 16اگست2020جس وقت صبح کے وقت یہ الفاظ لکھے جا رہے ہیں، کہا جارہا ہے کہ آج سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب کے دَورے پر جا رہے ہیں۔ اور جب یہ سطور شایع ہوں گی، ممکن ہے جنرل صاحب واپس پاکستان آ بھی چکے ہوں۔ اس دَورے سے پاکستان اور حکومتِ پاکستان کو بڑی توقعات ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پاک، سعودیہ تعلقات میں مبینہ طور پر کچھ رخنہ آیا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں عالمِ اسلام کی نمایندہ تنظیم "او آئی سی" سے برادرانہ اسلوب میں کچھ گلے شکوے کیے تھے۔
یاد رکھا جانا چاہیے کہ پاک، سعودیہ تعلقات کشیدگی کے دونوں ممالک نہ تو متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دونوں برادر و اسلامی ممالک کے تعلقات کو دشمنان بلڈوز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس سے پہلے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مشترکہ دشمن بے پر کی ہوائیاں اُڑا کر اپنے ملعون مقاصد کی تکمیل کریں، پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر، محترم نواف بن سعید المالکی، پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سے بنفسِ نفیس ملے۔ فوری طور پر کیے گئے اس اقدام کی تحسین کی جانی چاہیے۔ 13اگست2020کو افواجِ پاکستان کے ترجمان، میجر جنرل بابر افتخار، نے میڈیا بریفنگ دی۔
اس موقعے پر پاک، سعودیہ حالیہ تعلقات پر بھی استفسار کیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا: " ہمیں برادر ملک سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر فخر ہے۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر سوال اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے بہترین تعلقات ہیں اور رہیں گے۔ سعودی عرب سے ہمارے دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں۔ ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔
یہ دوستی محبت اورخلوص کے رشتے میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگی"۔ جناب نواف سعید المالکی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی ملے ہیں اور چوہدری برادران سے بھی۔ قاف لیگ کے صدرچوہدری شجاعت حسین اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی لاہور میں رہائش گاہ پر سعودی سفیر کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں چوہدری برادران نے بجا کہا : " دُنیا کی کوئی طاقت سعودی عرب اور پاکستان کا بھائی چارہ کم نہیں کر سکتی۔"
اس موقعے پر سعودی سفیر نے بھی برابر کی محبت اور پاکستان بارے نیک جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "سعودی عرب ہرمشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔"ہم سعودی سفیر صاحب کے ان الفاظ کی قدر کرتے ہیں۔ اچھا ہُواہے کہ 15 اگست کوسعودی سفیرجناب نواف گورنر پنجاب، چوہدری محمد سرور، سے بھی ملے ہیں۔ اس ملاقات میں گورنر پنجاب نے کہا:" پاک، سعودیہ تعلقات چٹان کی طرح مضبوط ہیں۔ دونوں ممالک کے مثالی تعلقات ہیں۔ سعودیہ اور پاکستانی عوام کے دل ہمیشہ ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔
ہر مشکل وقت میں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چلتا ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں سعودی حکومت کا تعاون لائقِ تحسین ہے۔" جواباً سعودی سفیر نواف المالکی صاحب نے کہا: "پاکستان اور سعودی تعلقات دو بھائیوں جیسے ہیں، ہم پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں، اس کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں، پاکستان کو پہلے کبھی تنہا چھوڑا نہ ہی آیندہ چھوڑیں گے"۔ ماشاء اللہ۔ روزنامہ "ایکسپریس" نے اپنے ادارئیے میں بھی ان اقدامات کو سراہا ہے۔
ان ایام میں پاکستان میں سعودی سفیر بوجوہ خاصے متحرک ہوئے ہیں۔ ایسے پس منظر میں سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کا دَورۂ سعودی عرب خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان حساس لمحات میں بعض اطراف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان کی مدھانی کیوں چلائی جا رہی ہے؟ مثال کے طورپر ہفت روزہ "نیوزویک" میں 13 اگست کو Pakistan After Hostile Cartographyکے زیر عنوان شایع ہونے والا آرٹیکل جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ " اب جب کہ پاکستان شدید معاشی بدحالی سے گزررہاہے۔
شاہ محمود قریشی کو غیر محتاط بیان کا گولہ داغنے کی کیا ضرورت تھی؟ " یہ بھی درست ہے کہ سعودی عرب کے بھارت سے بھی گہرے تجارتی اور سفارتی تعلقات ہیں۔ ابھی 15 اگست کو ممتاز سعودی انگریزی اخبار "عرب نیوز" میں سعودی عرب میں بھارتی سفیر، ڈاکٹر اوصاف سعید، کا ایک تفصیلی آرٹیکل شایع ہُوا ہے جس میں فخر اور مسرت سے کہا گیا ہے کہ " بھارت اور سعودی عرب کے تجارتی، اسٹرٹیجک اور سفارتی تعلقات روزبروز آ گے بڑھتے ہوئے مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔"پاکستان کی کامیابی یہ ہے کہ ان حالات کے باوجود سعودیوں کے دل میں اپنے لیے مثبت اور پُر کشش مقام پیدا کرے۔ جنرل قمر باجوہ کے اس تازہ دَورے سے اسی لیے اونچی توقعات وابستہ کی گئی ہیں۔
بقول شیخ رشید احمد، اگر دونوں ممالک میں کوئی دراڑ پیدا ہُوئی بھی ہے تو جنرل صاحب کا یہ دَورہ اُسے بھی پُر کر دے گا۔ حساس اور پُر آزمائش بات یہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ ایسے موقعے پر سعودی عرب پہنچے ہیں جب متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تازہ تازہ "امن معاہدہ" کی خبر سامنے آئی ہے۔ امارات، سعودی عرب کا معتمد اور دوست ملک ہے۔ شائد اس لیے بھی سعودی میڈیا میں اس معاہدے کے خلاف یا حق میں کوئی واضح تصویر سامنے نہیں آ رہی لیکن سعودی پرنٹ میڈیا میں اس معاہدے بارے جو خبریں شایع ہو رہی ہیں، وہ منفی نہیں ہیں۔
اس اقدام کو اماراتی حکمرانوں کا "حق" کہا گیا ہے۔ اس معاہدے بارے پاکستان کا ردِ عمل بھی محتاط اور بین السطور ہے۔ پاکستان بجا طور پر یہ چاہتا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کو اُن کے غصب شدہ سارے حقوق واپس مل جائیں البتہ ترکی اور ایران سخت غصے میں ہیں۔ ایران کی ناراضی تو قابلِ فہم ہے لیکن ترکی کس طرح اس معاہدے کی مخالفت کر سکتا ہے؟ ترکی تو خود اسرائیل سے گہرے سفارتی، دفاعی، تجارتی اور سیاحتی تعلقات رکھتا ہے۔ ابھی پچھلے سال 6لاکھ اسرائیلی سیاحوں نے ترکی کے شہروں اور خوبصورت ساحلوں سے لطف اُٹھایا تھا۔