میرے یہ پرانے اور پیارے دوست لاہور میں رہتے ہیں۔ چوبرجی اور ایم اے او کالج کے درمیان بسے ریواز گارڈن میں اُن کی رہائش گاہ ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا درمیانے درجے کا گھر ہے، جیسا کہ ایک دیانتدار، ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا ہونا چاہیے۔ میرے یہ دوست پنجاب کے ایک درمیانے درجے کے سرکاری افسر کی حیثیت میں اپنی ملازمت سے ریٹائر ہُوئے۔ اب پنشن پر گزارہ کرتے ہیں۔
وہ یوں خوش قسمت ہیں کہ اُن کے تین صاحبزادے ہیں اور تینوں ہی سرکاری ملازم۔ بڑا صاحبزادہ ایک سرکاری اسپتال میں جونئیر ڈاکٹر ہے، دوسرا بیٹا کنٹریکٹ پر معمولی تنخواہ پانے والا آئی ٹی انجینئر اور تیسرا لختِ جگر لاہور کے مضافات میں بروئے کار ایک سرکاری کالج میں لیکچرار۔ کسی بیٹے کی شادی نہیں ہُوئی۔
تینوں بیٹوں سے جب بھی شادی کے موضوع پر میری بات ہُوئی، تینوں ہی بیک زبان اپنے گھر کی جغرافیائی تنگی کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں: "اِس گھر میں شادی ہوگی؟ "۔ منجھلا بیٹا نسبتاً زیادہ ہی منہ پھٹ ہے: " یہ جو ہمیں تنخواہ مل رہی ہے، موجودہ دَورِ حکومت میں اس تنخواہ سے بیوی اور بچے تو نہیں پالے جا سکتے، اس لیے بھائی ہم لنڈورے ہی بھلے۔"والد صاحب یہ طنزیہ اشارہ دیکھ اور سُن کر بے بسی سے کہتے ہیں: برخوردارو، ایک دیانتدار سرکاری افسر کی حیثیت میں مجھ سے جو بن سکا، یہی بنا، اب آپ لوگ ہمت کر کے دیکھ لیں۔
مذکورہ عزیز دوست کے ہاں میرا آنا جانا لگا رہتا ہے کہ اُن کے گھر میں پڑی قدیم کتابیں میرے لیے خاص باعثِ کشش ہیں۔ 2018کے انتخابات کے دوران تینوں بیٹے اور اُن کے والد صاحب پی ٹی آئی کے بڑے ہی پُر جوش حمائتی تھے۔ گزشتہ روز میرا ریٹائرڈ دوست مجھے کہنے لگا: " 2018 کے جس حبس آلود دن وہ انتخابات تھے، چند دن پہلے ہی مَیں دل کے اسپتال سے دو اسٹنٹ ڈلوا کر گھر آیا تھا۔ تمہیں تو اچھی طرح معلوم ہے ہی کہ ہمارے گھر میں خان صاحب کے لیے کتنی محبت اور جوش تھا۔ مَیں طبیعت کی خرابی اور حساسیت کے باوجود ووٹ ڈالنے گیا۔
لائن میں کھڑا تھا کہ میری زرد رنگت دیکھ کر بندوق بردار ایک محافظ میرے پاس آیا اوراز راہِ کرم مجھے اور میری اہلیہ کو اندر پولنگ بوتھ والے کمرے میں لے گیا جہاں ائر کنڈیشنر بھی لگا تھا۔ باری آنے پر ہم دونوں نے محبت اور چاؤ کے ساتھ پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالا۔ میرے تینوں بیٹوں نے بھی خان صاحب کی پارٹی کو ووٹ دیا۔" بات ختم ہونے سے پہلے ہی اُن کے ایک صاحبزادے نے درمیان میں ٹوکتے ہُوئے شوخی سے کہا: " اور اب ابا جی؟ " ابا جی نے بے بسی اور نہائت افسردگی سے خالصتاً لاہوری لہجے اور اسٹائل میں کہا: " یار، مَیں نے تو اب اِس پارٹی کی محبت کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں، جس طرح نہتا اور بے بس شخص حملہ آور اور طاقتور کے سامنے شکست میں ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے۔"تینوں بیٹے بھی حکومت اور اس کے اقدامات سے نالاں اور ناراض تھے اور بے حد ناراض۔ چھوٹا بیٹا عجب سے بے زار لہجے میں، پنجابی میں بولا:" اور کچھ نہیں تو ہمارے صاحب جنرل اسمبلی میں اپنی قومی زبان ہی میں خطاب کرلیتے، جیسا کہ بھارتی و بنگلہ دیشی وزرائے اعظم نے اپنی قومی زبان میں کیا۔ ہمارے صاحب تو آجکل انگریزی زبان کے خلاف خاصے ناراض بیانات دیتے بھی سنائی دیتے ہیں لیکن یو این جی اے سے خطاب انگریزی میں کیا۔"
ریٹائرڈ دوست کے چھوٹے سے ڈرائنگ رُوم، جس کا فرسودہ فرنیچر پچھلی صدی کی نشانیوں میں سے ایک ہے، میں بیٹھے ہُوئے مجھے افسوس کے ساتھ دُکھ بھی ہُوا۔ میرے یہ ریٹائرڈ دوست امراضِ قلب کا شکار ہیں۔ اُن کے ایک گردے کی سرجری بھی ہو چکی ہے۔ اُن کے ساتھ اُن کی اہلیہ بھی تشریف فرما تھیں۔ اُن کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہنے لگے:" اِس کا حال بھی مجھ سے مختلف نہیں ہے۔
چھوٹے بیٹے کی تقریباً نصف تنخواہ تو اِس کی دوائیوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔" پھر وہ کھانسے اور توقف کے بعد مجھے مخاطب کرتے ہُوئے بولے: " یار، تم تو مجھے برسوں سے جانتے ہو۔ مجھے تم نے ملازمت کرتے بھی دیکھا ہے۔ اتنا ہاتھ کبھی تنگ نہیں ہُوا، جتنا اب تنگ ہے۔ اِس حکومت نے تو جان ہی نکال لی ہے۔" میز پر پڑے ٹیبلٹ دوائی کے ایک نیلے سے پتّے کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہنے لگے:" اس پتّے میں 10ٹیبلٹس ہوتی ہیں۔ دو سال پہلے یہ ایک پتّا 160روپے میں آتا تھا اور اب 490روپے میں "۔
وہ زہر خند ہُوئے: " باقی دوائیوں کا حال کیا پوچھتے ہو؟ میری پنشن تو اب ڈاکٹروں اور دوائیوں کی نذر ہو جاتی ہے۔" کچھ لمحے سفید ڈاڑھی میں اُنگلیوں کی کنگھی کرتے رہے۔ پھر بولے: " کبھی مَیں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ دیانتدارانہ سرکاری افسری کرنے کی یہ سزا بھی ملے گی۔ اِس حکومت نے تو ہمارا کچومر نکال دیا ہے۔ ہم سے کیے گئے سارے وعدے توڑ ڈالے ہیں اس نے۔ شکر ہے بیٹے سرکاری ملازم ہیں، بصورتِ دیگر اب تک نوکریوں سے نکال دیے گئے ہوتے۔"میرے بزرگ، ریٹائرڈ دوست سر کو پنڈولم کی طرح دائیں بائیں ہلاتے رہے اور پھر سامنے اخبار کے بکھرے صفحات کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے بولے: " پہلے ہمارے گھر میں تین اخبارآتے تھے۔ ایک انگریزی کا اور دو اُردو کے۔ اب صرف ایک آتا ہے "۔
بیٹھک میں مایوسی، بددلی اور دُکھ کی بھاری اور بوجھل سی فضا غالب آ گئی تھی۔ یہ ایک زیریں متوسط سرکاری ملازموں کے گھر کی کہانی ہے۔ اور یہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ ہمارے حکمران مگر مُصر ہیں کہ ملک میں خوشحالی اور خوشیوں کا دَور دَورہ ہے، ملک معاشی ترقی کی شاہراہ پر بگٹٹ بھاگ رہا ہے، لوگ کاریں اور موٹر سائیکلیں دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں، اس لیے ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ ملک دشمن ہیں جو میری حکومت کی ناکامی اورملک میں کمر شکن مہنگائی کا منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔
اُن کے وزیر خزانہ ارشاد فرماتے ہیں: ہر ملک میں مہنگائی ہے، پاکستان دُنیا کا انوکھا ملک نہیں ہے۔ اُن کے دوسرے بڑے وزیر، جو ہمہ وقت عوام اور میڈیا کے حواس پر سوار رہتے ہیں، کا ارشادِ گرامی ہے:یہ سراسر جھوٹ ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے، مہنگائی اگر ہے تو ملک میں لوگوں کی آمدن بھی تو بڑھی ہے۔ اور اگر کوئی میرے ریٹائرڈ دوست کی طرح کسی حکومتی شخصیت کے سامنے آٹے، چینی، پٹرول، بجلی اور وائیوں کے نرخوں میں تین تین، چار چار سو گُنا اضافے کی دبے لفظوں میں بھی شکائت کی جرأت اور جسارت کر ڈالے تو آگے سے حکومت کا گھڑا گھڑایا جواب یوں ملتا ہے:"اگر یہ سب کچھ مہنگا ہورہا ہے تو یہ سارا گناہ اور قصور سابق نون لیگی اور پیپلز پارٹی کے "کرپٹ" حکمرانوں کی "کرپشن" کے سبب ہے۔" شکائت کنندہ نادم ہو کر اپنا سا منہ لے کررہ جاتا ہے۔
اور اب تو ایک نیا حکومتی اور وزارتی ٹرینڈ یہ چلا ہے کہ جب میڈیا پر کسی وزیر سے نااہلی، مبینہ کرپشن اور بے لگام مہنگائی بارے استفسار کیا جاتا ہے تو آگے سے جواب یوں آتا ہے: " آپ کو کچھ پتہ ہے نہ آپ کی تیاری ہے۔ پہلے تیاری تو کر لیں۔" حکومتی کار پرداز اور حکومتی کارندے کیااِس تحقیر وتخفیف سے، snub کرنے والے اس لہجے سے اُس عوامی ناراضی اور غصے کو ختم کرسکتے ہیں جو اِس وقت عوام کے دل و دماغ میں ایک طوفان کی طرح پنپ رہا ہے؟ ؟