تقریباً چار سال قبل بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، نے تہران کا دَورہ کیا تو وہاں افغان صدر، اشرف غنی، بھی آئے ہُوئے تھے۔ اس موقعے پر بھارتی وزیر اعظم نے ایرانی قائد، جناب حسن روحانی، سے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
اس کے تحت بھارت اور ایران نے عہد کیا کہ اکٹھے مل کر ایرانی بندرگاہ( چا بہار) سے زاہدان تک628کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھائی جائے گی۔ بعد ازاں اس ریلوے لائن کو افغانستان کے سرحدی علاقے "زرنج" تک پہنچایا جائے گا۔ بھارت نے وعدہ کیا تھا کہ اُس کی ایک کمپنی (IRCON)اس پروجیکٹ پر 1.6ارب ڈالر خرچ کرے گی۔ چار سال گزر گئے مگر بھارت نے امریکا کے ڈر سے اس پروجیکٹ پر ایک دھیلا بھی خرچ نہ کیا۔
ایران نے اب بھارت کو اس اسٹرٹیجک معاہدے سے نکال دیا ہے اور اسی ریل پروجیکٹ کے حوالے سے چین کے ساتھ25سالہ معاہدہ کر لیا ہے۔ اب چین 400ارب ڈالر کے زرِ کثیر سے 2022 تک یہ اور دیگر اہم ترین ایرانی پروجیکٹ مکمل کرے گا۔ گویا اب ایران، چین اور پاکستان تعاون کے ایک مضبوط و مشترکہ رشتے میں بندھ گئے ہیں۔
جولائی کے وسط میں ہونے والے ایران، چین معاہدے پر بھارت، بھارتی میڈیا اور امریکا کے پیٹ میں ایران کے خلاف ابھی تک مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ کا 25جولائی2020کو ایک انگریزی اخبار میں Iran Embraces BRIکے زیر عنوان جو آرٹیکل شایع ہُوا ہے، بہت چشم کشا بھی ہے اور ایرانی جرأت کی تحسین بھی۔ مشہور ترک اخبار "صباح" میں 23جولائی2020 کو معروف ترک دانشور، اُمید شکری کلہسر، کا تفصیلی آرٹیکل کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے کس جرأت سے، تمام تر امریکی ڈراوے کو بالائے طاق رکھتے ہُوئے، چین کے ساتھ اربوں ڈالر کا یہ معاہدہ کیا ہے۔
ایران کے اس جرأتمندانہ فیصلے کو ممتاز امریکی اخبار "نیویارک ٹائمز" نے بھی حیرانی سے دیکھا ہے۔ اس حیرت کا عکس ہمیں "نیویارک ٹائمز" میں China and Iran Approach Trade and Military Cooperation with Resistance to the United Statesکے زیر عنوان شایع ہونے والے مفصل آرٹیکل میں بھی ملتا ہے۔
دو معروف بھارتی اخبارات " انڈیا ٹوڈے" میں کمل جیت سنگھ اور "دکن کرانیکل"میں سری دھر کمار سوامی کے 24جولائی 2020 کو جو آرٹیکلز شایع ہُوئے ہیں، اُن سے بھی معلوم ہوتاہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اس فیصلے سے بھارت کتنا متاثر ہُوا ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے دو تین ہفتوں کے دوران، یکے بعد دیگرے، بھارت کے دو مرکزی وزیروں نے ایران کا دَورہ کیا ہے۔
پہلے بھارتی وزیر دفاع، راجناتھ سنگھ، تہران اُترے۔ یہ گذشتہ 20برسوں کے دوران کسی بھارتی وزیر دفاع کا پہلا دَورہ تھا۔ اس کے بعد ماسکو جاتے ہُوئے بھارتی وزیر خارجہ، ایس جے شنکر، بھی تہران رُکے اور ایرانی وزیر خارجہ سے ملے۔ اِن ملاقاتوں کے پس منظر میں ترک خبر رساں ادارے (اندولو) نے 18ستمبر2020 کو بتایا ہے کہ مذکورہ بھارتی وزرا کی ایران یاترا کا مطلب محض یہ ہے کہ کسی طرح ایران کو روکا جائے کہ وہ چین سے مل کر چا بہار بندرگاہ پراجیکٹ سے باز آجائے ایسا مگر ممکن نہیں۔
ایرانی انقلاب کو شروع دن ہی سے بڑے بڑے چیلنج درپیش رہے ہیں۔ امریکی اور کئی مغربی حکومتوں کی شدید خواہش تھی کہ ایرانی اسلامی انقلاب کو کسی بھی شکل میں ناکام ہونا چاہیے۔ چالیس سال گزر گئے ہیں۔ اس دوران ایرانی قوم و حکام نے یکمشت اور متحد ہو کر مغربیوں اور امریکیوں کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ ایران کے حالیہ دلیرانہ فیصلوں کی بنیاد پر کئی اطراف سے ایران کے خلاف پروپیگنڈہ مشینری بھی متحرک ہے۔
مثال کے طور پر چند دن پہلے مشرقِ وسطیٰ کے ایک مشہور اخبار میں ایران کے سابق فرمانروا، رضا شاہ پہلوی، کی امریکا میں مقیم پوتی، شہزادی نور پہلوی، اور امریکا ہی میں مقیم، ڈاکٹر رضا پرچی زادہ، کے شایع ہونے والے مضامین جن میں ایرانی وزیر خارجہ اور ایرانی معیشت کو ہدف بنایا گیا ہے۔
صدام حسین کی پھانسی کے بعد ایران کا عراق میں کتنا اثرو نفوذ ہے، سب جانتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ 22جولائی2020 کونئے عراقی وزیر اعظم، مصطفی الکاظم، نے اپنے سینئر اور اہم ترین وزرا کے ساتھ ایران کا دَورہ کیا ہے۔
عراقی وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد مصطفیٰ الکاظم کا یہ پہلا اہم ترین غیر ملکی دَورہ تھا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ مصطفیٰ الکاظم کے ایران اترنے سے قبل ایرانی وزیر خارجہ، جواد ظریف، نے بغداد کا تفصیلی دَورہ کیا۔ جواد ظریف اس دَورے میں خاص طور پر بغداد ایئر پورٹ کے اُس مقام پر گئے جہاں جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی ڈرون نے شہید کر ڈالا تھا۔ جواد ظریف کا جنرل سلیمانی کی جائے شہادت پر بالخصوص حاضر ہونا بیک وقت اسرائیل اور امریکا کو پیغام دینا تھا۔
اب اگر عراقی وزیر اعظم، مصطفی الکاظم، ایرانی قیادت سے ملنے کے بعد اگست2020کے آخری ہفتے واشنگٹن میں امریکی صدر سے ملے ہیں تو ملتے رہیں۔ ایران کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ایران نے ابھی حال ہی میں بھاری مقدار میں پاکستان سے باسمتی چاول خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سے بھارت کو بڑی تکلیف پہنچی ہے۔ ایران ہر سال بھارت سے 13لاکھ ٹن باسمتی چاول خرید رہا تھا۔ ا ب اس میں 20فیصد کمی آئی ہے تو بھارت کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ 17ستمبر2020 کو بھارتی انگریزی اخبار "اکنامک ٹائمز" نے لکھا کہ ایران کا پاکستان سے باسمتی چاول خریدنا بھارت کے لیے تشویش کی بات ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل، جب دہلی میں بیکس مسلمانوں کو بنیاد پرست ہندو جماعتیں بیدردی سے تہ تیغ کر رہی تھیں، ایرانی سپریم کمانڈر محترم علی خامنہ ای صاحب نے بھارت کو انتباہ کرتے ہُوئے ایک ٹویٹ یوں کی تھی:"بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر دُنیا بھر کے مسلمانوں کے دل رنجیدہ ہیں۔ بھارت انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں بھارتی مسلمانوں کے قتلِ عام کو روکے اور خود کو مسلمان دُنیا میں تنہا ہونے سے بچائے "۔
اس پر ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ایران، اعلیٰ ایرانی قیادت اور بالخصوص جناب آیت اللہ علی خامنہ ای کا شکریہ ادا کیا تھا۔ حال ہی میں عالمی سطح پر ایران کو ایک اہم سفارتی کامیابی ملی ہے۔ امریکا نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں تجویز پیش کی تھی کہ ایران پر اسلحے کی پابندیوں میں لا محدود توسیع کی جائے لیکن سلامتی کونسل نے امریکی تجویز مسترد کر دی۔
سلامتی کونسل کے13ارکان نے امریکا کے مخالف ووٹ دیا ہے۔ یہ دراصل ایرانی وزارتِ خارجہ کی امریکی زیادتیوں کے خلاف ایک بڑی کامیابی ہے۔ ایران پر بے پناہ امریکی پابندیوں کے کارن ایرانی عوام سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود ایران امریکی سامراج کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے تو اسے شاباش دینی چاہیے۔