یہ نائن الیون کے تاریخی سانحہ سے دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ میری رہائش گاہ بروکلین ( نیویارک) میں تھی۔ ایک شب، کوئی دو بجے کے قریب مَیں ڈی ٹرین سے اپنی رہائش گاہ کے نزدیک "ایونیو ایم" اسٹیشن پر اُترا۔ برفباری کے جھکڑ چل رہے تھے اور سردی بے پناہ تھی۔ اسٹیشن کے باہر دائیں طرف ایک چھوٹاسا گروسری اسٹور تھا جو ایک پاکستانی مسلمان کا تھا۔
سوچا، برفباری کے اس طوفان میں، جب کہ محلّے کی تمام گلیاں دو دو فٹ برف میں دھنسی پڑی ہیں، کون دوبارہ باہر نکلے گا، اسلیے دودھ کے چند ڈبے، انڈے اور بریڈ خرید لُوں۔ بھاری گرم جیکٹ کے کالر کانوں تک چڑھاتے ہُوئے اور یہ سامان خرید کر باہر نکلا ہی تھا کہ NYPD (نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ)کے دو باوردی پولیس افسروں نے میرا راستہ روک لیا۔ اُنہوں نے پہلے تو "ایکسکیوز می" کہا اور پھر بڑی پریشانی کے عالم میں مجھے پوچھا: "آپ نے کہیں Homeless ( بے گھر افراد) تو نہیں دیکھے؟ "۔ مجھے "ٹونی" یاد آیا۔ ہمارے محلّے کا وہ سدا بہار، بے گھر، امریکی گورا شہری تھا۔ کبھی اُسے کچھ کھاتے ہُوئے نہیں دیکھا گیا۔
سردی ہو یا گرمی، ہمیشہ شراب اور بیئر کے نشے میں دھت رہتا۔ مَیں نے پولیس افسروں کو ٹونی کا بتایا۔ وہ مسکرائے اور کہا: "او یار، اُس کو تو دوپہر ہی کو اُٹھا لیا تھا۔ کوئی اور بتاؤ۔" دونوں پولیس اہلکاروں نے بتایاکہ نیویارک کے میئر، اڈولف جولیانی، کا سخت حکم صادر ہو چکا ہے کہ سخت سردی کے ان ایام میں اگر کوئی "ہوم لیس" بھوک اور سردی کے کارن مر گیا تو پولیس والوں کی خیر نہیں۔ بیچارے پولیس والے اپنی نوکری بچانے کے لیے اِسی لیے رات گئے بے گھر اور بھوکے افراد کو ڈھونڈنے اور اُنہیں مہمان خانوں اور اسپتالوں میں پہنچانے کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے۔
کئی برس پہلے کا یہ واقعہ مجھے آج اسلیے یاد آیا ہے کہ آجکل وزیر اعظم عمران خان صاحب کے حکم پر اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف بڑے شہروں میں بے آسرا اور بے چھت (Homeless) افراد کو شدید سردی سے بچانے کے لیے شیلٹر ہومز میں پناہ دینے کی خبریں گردش میں ہیں۔ ان شیلٹر ہومز یا عارضی گھروں میں سردی کے ماروں کو نئے بستروں کے ساتھ لحاف بھی فراہم کیے جا رہے ہیں اور کھانا بھی۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ اقدام مستحسن ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب، عثمان خان بزدار، بھی بھوکوں کو کھانا فراہم کرنے اور راتوں میں بے گھر افراد کو سردی سے بچانے کے لیے اپنے وزیر اعظم کے احکامات کی تعمیل میں بھاگے پھرتے ہیں۔
اُن کے اقدامات بھی قابلِ تعریف ہیں۔ ان شیلٹر ہومز کو "پناہ گاہیں " بھی کہا جا رہا ہے اور "لنگر خانے" بھی۔"ایکسپریس" نے اِسی بارے اپنے میٹرو پولیٹن سیکشن میں ایک تین کالمی فوٹو شائع کی ہے۔ تصویر میں کئی لوگ گرم چادروں کی بُکلیں مارے طویل قطار میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ فوٹو کی کیپشن یوں ہے : "پشاور موڑ ( اسلام آباد) پر احساس کے زیر اہتمام لنگر خانے سے کھانا کھانے کے لیے لوگ قطار میں کھڑے ہیں۔" ہمارے وزیر اعظم کی طرف سے مستحقین کو کھانا فراہم کرنے کے جو بھی بندوبست کیے گئے ہیں، قابلِ تحسین ہیں لیکن روٹی کے حصول کے لیے مجبور لوگوں کو انتظار میں قطاروں میں کھڑا کرنا شائد مناسب نہیں ہے۔ اس میں احترامِ انسانیت کا عنصر غالباً مفقود ہے۔
مجھے راولپنڈی اور لاہور کے چند ایک لنگر خانے اور شیلٹر ہومز کا مشاہدہ کرنے کے مواقعے ملے ہیں۔ یہ آئیڈیل نہیں ہیں، شائد اسلیے بھی کہ ابھی یہ آغاز ہے، اِسی لیے ان انتظامات میں کئی خامیاں اور نقائص ہیں۔ ان کی بہتری کی اُمید رکھی جانی چاہیے۔
ایک اطلاع کے مطابق، پنجاب کے36 اضلاع میں 92 پناہ گاہیں کام کر رہی ہیں۔ مبینہ طور پر ان میں مستحقین کو گرم بستر بھی فراہم کیے جا رہے ہیں اور گرم کھانا بھی۔ اس انسانیت نواز پروگرام کو کرپشن، بد انتظامی اور جعلسازی کی لعنتوں سے محفوط رکھنا ہو گا۔ جیسا کہ ڈسکہ (ضلع سیالکوٹ) سے خبر آئی ہے کہ وہاں لنگر خانے اور شیلٹر ہوم کا سرکاری سطح پر افتتاح تو کیا گیا لیکن افتتاح کے اگلے ہی روز اسے تالا لگا دیا گیا۔
بستر اور کھانا یکسر غائب۔ عثمان بزدار کو برق رفتاری سے ایسے واقعات کا انسداد کرنا ہو گا۔ حکومت کا کچھ افراد کے لیے شیلٹرز بنانا، وہاں روٹی پانی اور لحافوں کا بندوبست کرنا اگرچہ ایک مستحسن عمل ہے لیکن کیا یہ اقدامات و انصرامات اجتماعی سطح پر عوامی دستگیری کا متبادل بن سکتے ہیں؟ اس وقت لاہور کی آبادی سوا کروڑ، راولپنڈی کی25 لاکھ، فیصل آباد کی30 لاکھ اور اسلام آباد کی15 لاکھ ہے۔
اور ان شہروں میں حکومت کی قائم کردہ پناہ گاہوں کی تعداد کتنی ہے اور کتنے ضرورتمند شہریوں کو تین بار ان پناہ گاہوں میں کھانا فراہم کیا جا رہا ہے؟ اگر یہ کاسمیٹک انتظامات نہیں ہیں تو سوال یہ ہے کہ آیا ناداروں اور بے آسروں کے لیے یہ شیلٹر ہومز حکومت کی طرف سے وعدہ کیے گئے پانچ ملین گھروں کا متبادل بن سکتے ہیں؟ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت سرکاری سطح پر اعلان کرے (اور اسے اپنی ویب سائیٹس پر بھی ڈالے) کہ رواں لمحوں میں وفاقی دارالحکومت اور پنجاب کے مختلف شہروں میں کتنے شیلٹر ہومز، کہاں کہاں بروئے کار ہیں۔
اب تک ان کی پر کتنے اخراجات ہو چکے ہیں اور ان میں روزانہ کے حساب سے کھانا کھانے والوں پر کتنے اخراجات اُٹھ رہے ہیں؟ تبدیلی والے حکمران یہ اخراجات اپنی جیبوں سے نہیں کر رہے ہیں۔ یہ عوام کا پیسہ ہے، اسلیے عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ٹیکسوں کی بھرمار کی شکل میں اُن سے لیا گیا پیسہ کس مَد میں کہاں، اور کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ اب تو فیصل آباد میں بھی ایک نئے شیلٹر ہوم کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔ مبینہ طور پر وزیر اعظم عمران خان اور اُن کے چند ایک وزیروں نے وہاں آلو گوشت بھی کھایا ہے۔
تبدیلی سرکار اگر وفاقی دارالحکومت اور پنجاب کے چند شہروں میں مستحق افراد کو فری کھانا کھلا نے کے ساتھ ساتھ بے آسروں کو سردی سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ کوئی احسان اور بڑی مہربانی نہیں ہے۔ وطنِ عزیز کو تو اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا۔ اور تبدیلی سرکار تو ویسے بھی پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے کے دلنشیں اور دلفریب وعدوں پر برسرِ اقتدار آئی تھی۔ اب اسے اپنا وعدہ نبھانا ہو گا۔
اگر ہمارے حکمرانوں کے ملک کے ہر بڑے شہر میں ایکڑوں پر پھیلے محل نما گھر ہو سکتے ہیں اور وہ دبئی، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا میں بھی پُرتعیش گھروں کے مالک ہو سکتے ہیں تو ملک کے نادار شہریوں کو مفت سر چھپانے کی جگہ کیوں فراہم نہیں کر سکتے؟ اگر عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے پیسوں سے صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے منتخب ارکان کو فی کس لاکھوں روپے ماہانہ کی تنخواہیں دی جا سکتی ہیں۔
اسمبلی کیفے ٹیریاز میں اُنہیں نہایت اعلیٰ کھانا نہایت سستے داموں فراہم کیا جا سکتا ہے اور اُنہیں بے شمار دیگر مراعات بھی فراہم کی جا سکتی ہیں تو ریاستی سرپرستی میں خالی پیٹ اور بیروزگار پاکستانی شہریوں کو مفت کھانا کیوں فراہم نہیں کیا جا سکتا؟ بھوکوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کو کھانا کھلانا تو اللہ کا حکم ہے
۔ سو، جس نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اتباع میں ضرورتمندوں کو کھانا پیش کیا، حاجتمندوں کی دستگیری کی، وہ اجر کا مستحق ہے۔ نیتوں کا احوال تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اور اگر عمران خان کی نیت یہ ہے کہ منجمد کر دینے والی سردی اور تڑپا دینے والی گرمی میں شیلٹر ہومز میں خاک نشینوں کو پناہ دینا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا نری سیاست بازی نہیں، درحقیقت ایک دینی حکم کی پاسداری بھی ہے تو خالقِ کائنات کے ہاں اُن کے لیے یقیناً اجرِ عظیم ہے۔ اس مستحسن راہ میں صرف عمران خان، عثمان بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری سرور مگر اکیلے کیوں؟ وطنِ عزیز کے باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کو بھی انسانیت نوازی کے اس بے مثل راستے کا راہی بننا چاہیے۔