دو واقعات اچانک سامنے نہیں آئے ہیں۔ ان کا ایک خاص پس منظر ہے۔ ایک تو یہ کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان صاحب نے کہا ہے کہ "اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کو واقعی معنوں میں اسلامی دُنیا کی متحدہ آواز بننا چاہیے۔" سعودی بادشاہ کو یہ بیان خاص طور پر اس لیے دینا پڑا ہے کہ اُمتِ اسلامیہ میں او آئی سی کے کردار کے بارے میں کئی گلے شکوے پیدا ہو رہے ہیں۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ سعودی وزیر خارجہ، شہزادہ فیصل بن فرحان السعود، ایک روزہ دَورے پر پاکستان آئے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل ملائیشیا میں منعقدہ سہ روزہ کانفرنس میں (سعودی عرب کی مبینہ ایما پر) پاکستان کی عدم شرکت کی وجہ سے پاکستان اور سعودیہ میں سفارتی سطح پر جو موڑ آیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ شہزادہ فیصل اس "موڑ" میں سعودی محبت اور اعتماد پیدا کرنے تشریف لائے ہیں۔ بھارتی میڈیا تو یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ "شہزادے کا یہ دَورہ دراصل Damage Control Exercise ہے۔"
کوالالمپور سمٹ( ملائیشیا) میں عمران خان کی عدم شرکت سے خاص طور پر مہاتیر محمد اور طیب اردوان کو رنج پہنچا ہے۔ اس ناراضی کو محسوس بھی کیا گیا ہے۔ مہاتیر محمد تو مصلحتاً خاموش رہے ہیں ( کہ وہ اس منفرد سربراہی کانفرنس کے میزبان اور منتظم بھی تھے) لیکن ترک صدر طیب اردوان خاموش نہیں رہ سکے۔
سمٹ سے دو دن قبل ہنگامی طور پر وزیر اعظم عمران خان کا سعودی عرب پہنچ کر سعودی حکام سے ملاقات کرنا اور پھر پاکستان کا کسی بھی سطح پر "کوالا لمپور سمٹ" میں شریک نہ ہونے کے اعلان سے طیب اردوان نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان دراصل سعودی دباؤ کے تحت اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک نہیں ہُوا ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ترک صدر نے اس غصے کا کھلے لفظوں میں اظہار بھی کیا۔
وہ پاکستان پر کم اور سعودی عرب پرزیادہ برسے۔ سعودی عرب نے بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ وجہ؟ سعودی حکام کا کہنا تھا کہ پونے 2 ارب مسلمانوں کے اہم مسائل پر گفتگو کے لیے یہ سمٹ "غلط فورم" ہے۔ ممکن ہے سعودی عرب کا یہ بیان مبنی بر حقیقت ہی ہو لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سعودیہ کو خدشہ تھا کہ اگر اُس نے کوالا لمپور سمٹ میں شرکت کی تو ایران، ترکی اور قطر جیسے علاقائی حریف اُسے مسلم دنیا میں تنہا کر دیں گے۔ اگر ایسا ہی خیال کہیں پنپ رہا ہے تو کیا اس کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ مالی اعتبار سے طاقتور اور باوسائل اسلامی ممالک محض اپنے مفادات کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ پھر اتحادِ امت کے مفادات اور نعرے چہ معنی دارد؟
ایٹمی پاکستان کی طرف سے "کوالا لمپور سمٹ" میں عدم شرکت بارے ترک صدر طیب اردوان نے سعودی عرب کے جس مبینہ دباؤ کا ذکرکیا، ریاستی سطح پر سعودی عرب نے اس کی کوئی تردید نہیں کی ہے؛البتہ اسلام آباد میں بروئے کار سعودی سفارتخانے کی طرف سے مختصر الفاظ میں طیب اردوان کے ’الزام، کی تردید ضرور کی گئی ہے۔ یہ تردید سعودی انگریزی اخبار (عرب نیوز) نے بھی شایع کی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے بھی اِسی حوالے سے ایک مختصر سی وضاحت یوں جاری کی گئی: "مسلم اُمہ کی ممکنہ تقسیم روکنے اور کئی اہم مسلم ممالک کے خدشات دُور کرنے کے لیے وقت اور کوششوں کی ضرورت ہے، اس لیے پاکستان نے( کوالا لمپور) کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔" لیکن 22دسمبر2019ء کو "ایکسپریس ٹربیون" نے اِسی حوالے سے ایک خبر یوں شایع کرکے سب کو حیران کردیا ہے: "کوالالمپور سمٹ میں شرکت کرنے کے حوالے سے وزیر اعظم آفس نے دفترِ خارجہ کی سفارشات نظر انداز کیں۔" خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر ہمارے وزیر اعظم پاکستانی فارن آفس کے ذمے داران کے مشوروں پر کان دھرتے تو پاکستان سبکی سے بچ سکتا تھا۔
ایٹمی اسلامی جمہوریہ پاکستان اور عمران خان کی حکومت کو جن شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان حالات میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے شائد ایسا ہی بیان دینا مناسب اقدام تھا جیسا کہ جاری کیا گیا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اُمتِ اسلامیہ، پاکستان اور جناب عمران خان سے زیادہ کی توقعات لگائے بیٹھی تھی۔
"نیوز ویک" کے تازہ شمارے میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ اُمتِ اسلامیہ تو عمران خان کے حوالے سے جاری کردہ اُن بیانات اور خوابوں پر یقینِ کامل کیے بیٹھی تھی جو وہ مختلف اوقات اور مختلف عالمی فورموں پر دیتے رہے ہیں لیکن جب اتحادِ اُمت کی موہوم سی تشکیل کا موقع آیا، خان صاحب بہ امرِ مجبوری قدم آگے بڑھانے سے قاصر رہے۔ شائد اتحادِ اُمت کے بارے میں ایسی ہی مجبوریاں ہر اسلامی ملک کے پاؤں کی زنجیر بنی ہُوئی ہیں۔ اتحادِ اُمت کا مرحلہ مگر کب آئے گا؟ اُمت کو درپیش سنگین مصائب و مسائل کے حل کے لیے" او آئی سی" سے وابستہ توقعات تو بُری طرح ناکام ہُوئی ہیں۔
او آئی سی ( جس میں یقیناً سعودی عرب مرکزی کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے اور اس کے بیشتر اخراجات بھی وہی ادا کر رہا ہے) آج تک اُمتِ اسلامیہ کو درپیش کئی شدید بحرانوں کو حل کروانے میں "او آئی سی" کا ادارہ کوئی ایک بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے۔
مثال کے طور پر فلسطین و کشمیر کے دیرینہ سنگین مسائل کے حل میں ناکامی کے ساتھ ساتھ : (۱)ایران عراق دس سالہ جنگ (۲) افغانستان کے خلاف پہلے سوویت رُوس کی جارحیت اور پھر امریکی حملہ (۳) سوڈان کا داخلی انتشار اور پھر اس کی تقسیم (۴) انڈونیشیا کے اندر ہی ایک نئے ملک (مشرقی تیمور) کا بن جانا (۵) عراق و لیبیا کے صدور (صدام حسین و کرنل قذافی) کا بہیمانہ قتل (۶) شام و لیبیا کی مکمل تباہی اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم (۸) عراق میں جاری حالیہ بحران (۹) روہنگیا مسلمانوں پر میانمار ی بدھ حکمرانوں کے خونریزمظالم اور آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش ہجرت (10) اور اب بھارتی مسلمانوں کی نئی غلامی کے لیے بھارت سرکار کا نیا ظالمانہ اقدام۔۔۔ تو کیا ان ناکامیوں میں مناسب نہیں ہے کہ "او آئی سی" کے مردہ گھوڑے کی جگہ کوئی نیا اور قوی گھوڑا میدانِ عمل میں اتارا جائے؟۔
لگتا یہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ مجھے یہاں فرزندِ اقبال ؒ ڈاکٹر جاوید اقبال سے کی گئی اپنی کئی ملاقاتیں یاد آ رہی ہیں۔ وہ بھی عالمِ مایوسی میں یہ فرمانے لگے تھے کہ پاکستان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ عالمِ اسلام سے وابستہ ہو کر اپنے مسائل حل کرنے کے خواب دیکھنا بند کرے اور علاقائی طور پر خود کو مضبوط اور خوشحال بنانے کی سعی کرے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی خود غرضی اور لالچ دیکھ کر آخر آخر اتحادِ اُمت کے خواب کو سراب کہنے لگے تھے۔
اگر اتحادِ اُمت کی کوئی اصلیت اور حقیقت ہوتی تو ایک عرب شہزادہ 23 دسمبر 2019ء کو بیجنگ پہنچ کر چینی مسلمانوں (یغور ) کے بارے میں چینی موقف کی حمایت میں بیان جاری نہ کرتا۔ مغربی پروپیگنڈے کے برعکس ہم بحثیتِ اُمت بہرحال یغور مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ جنرل (ر) صدر پرویز مشرف بھی اپنے دِورِ اقتدار میں، اپنی پالیسیوں کی شکل میں، اتحادِ اُمت کی نفی کرنے لگے تھے۔ وہ جب "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ لگاتے تھے تو اس کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ اُمت کے مسائل و مصائب کو چھوڑئیے، پہلے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کیجیے۔ تو کیا واقعی اتحادِ اُمت ایک خواب اور سراب ہے؟