جب سے خلیجی عرب مسلمان ملک، متحدہ عرب امارات، نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، کئی دیگر عرب اور مسلمان افریقی ممالک کے دل بھی اسرائیل کی محبت میں پگھلتے جا رہے ہیں۔ سوڈان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، حیدر بداوی، نے کہا ہے کہ "ہماری حکومت بھی اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے بارے سوچ رہی ہے۔" اس سے قبل سوڈان کے عبدالفتاح البرہان( جو سوڈان کی جوائنٹ سویلین ملٹری حکمران کونسل کے سربراہ ہیں ) یوگنڈا میں اسرائیلی وزیر اعظم، نیتن یاہو، سے ملاقات کر چکے ہیں۔
اور جب عبدالفتاح سے اس ملاقات بارے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا تھا :" ایسا کرنا سوڈان کے سپریم قومی مفاد میں ہے۔" کئی عرب ممالک کے اخبارات بھی اپنے اپنے Opinion Pagesپر اس بات کی تبلیغ کرتے ہُوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ "اگر کوئی عرب مسلمان ملک، یہودی اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کرتا ہے تو اُسے اپنے قومی مفادات کے لیے ایسا اقدام کرنے کا پورا حق ہے۔"مثال کے طور پر :یکم ستمبر2020کو عالمِ عرب کے ایک ممتازعربی اور انگریزی اخبار، العربیہ، میں ڈاکٹر ولید فارس کا آرٹیکل شائع ہُوا ہے جس میں دیگر "فائدے" کی باتوں کے یہ بھی کہا گیا ہے :"متحدہ عرب امارات کو اب اسرائیل کی جدید زراعت سے لے کر دفاعی شعبے و جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔
دونوں ممالک خود کو اگر ایک معاندانہ ماحول میں پاتے ہیں تو ان کے درمیان فوجی تعاون کھیل کا پانسہ پلٹنے کے لیے اہم عامل ثابت ہوگا۔"مذکورہ اخبار میں ایک اور صاحب، عبدالرحمن الراشد، کا بھی ایک مفصل مضمون شائع ہُوا ہے۔ یہ صاحب یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان تازہ تعلقات کے پس منظر میں لکھتے ہیں :"درحقیقت عربوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا مرحلہ عبور کر لیا ہے۔ یہ کوئی انہونی یا صدمے والی بات نہیں ہے، بلکہ اب اس قصے پر گفتگو ’بورنگ، ہوتی جارہی ہے۔ اسرائیلی تمام عرب دارالحکومتوں کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر اُتررہے ہیں۔ ہر جگہ اُن کا سرکاری سطح پر بطورِ سفارتکار، کھلاڑی، سیکیورٹی اہلکار یا صحافی خیر مقدم کیا جارہا ہے۔"
ان عرب دانشوروں اور لکھاریوں کی ایسی تحریریں ہم پڑھتے ہیں تو ہمیں دکھ اور صدمے کی کیفیات آ گھیرتی ہیں۔ ہم نے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بیٹھ کر اسرائیل بارے کچھ اورہی خواب دیکھے اور دکھائے تھے۔ یہ عرب دانشور مگر ہمیں اب کچھ اور دکھانے کے درپے ہیں۔ ہم نے پچھلے کالم میں اپنے معزز قارئین کو بتایا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ بھی اسرائیل مملکت کے مخالف تھے۔
قائد اعظم کی طرح شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ بھی اسرائیل بنانے بارے یہودیوں اور مغربیوں کی سازشوں سے آگاہ تھے اور اپنی شاعری اور خطوط کے ذریعے یہودیوں کے منصوبوں بارے اپنے معتمد ساتھیوں کو خبردار بھی کررہے تھے۔
جناب افتخار شیخ نے اپنے ایک مضمون (فرائیڈے اسپیشل، 21اگست2020) میں بڑی دردمندی کے ساتھ غاصب اسرائیلی یہودیوں بارے علامہ اقبال کے خیالات کو یکجا کیا ہے۔ علامہ اقبال اپنے ایک خط میں قائداعظم محمد علی جناح کو لکھتے ہیں : "مَیں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کو تیار ہوں، اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے۔ یہ ایشیا کا دروازہ ہے جس پر بُری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں "۔ تقسیمِ فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔
ماہر اقبالیات پروفیسر فتح محمد ملک کے مطابق: "اپنی زندگی کے آخری ایام میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصور نے مسلسل بے چین رکھا۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کردی تھیں جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا، مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کُل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔ علامہ اقبال 30 جولائی 1937 کو فارکو ہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں : "عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے، میں اس کو شدت سے محسوس کرتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا۔ انگریز قوم کو بیدار کرکے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے ہیں "۔ اورایک جگہ عرب ممالک کے بادشاہوں اور ان کی پالیسیوں بارے یوں رقم طراز ہیں :"عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بحالاتِ موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں "۔ اقوام متحدہ کی پیش رَو "لیگ آف نیشنز" کا رویہ بھی مسئلہ فلسطین پر انتہائی سرد مہری سے عبارت تھابلکہ کہنا چاہیے کہ "لیگ آف نیشنز" بھی اندر خانے یہودیوں سے ملی ہُوئی تھی۔
اقبالؒ اس کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ چنانچہ اس کی پالیسیوں اور رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں : "لیگ آف نیشنز کو چاہیے کہ بیک آواز اس ظلم و طغیان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں "۔ اس کے باوجود مغربیوں نے اسرائیل کے لیے فلسطینی عربوں سے نا انصافی کی۔ اقبال کی آواز صدا بصحرا ثابت ہُوئی۔ شاعرِمشرق کی وفات کے دس سال بعد مملکتِ اسرائیل کا خنجر فلسطینی عربوں کے سینے میں گھونپ دیا گیا اور پورا عالمِ اسلام دیکھتا رہ گیا۔
محترم بانیانِ پاکستان نے تو غاصب اور سازشی اسرائیل کے خلاف بند باندھنے کی اپنی سی بھرپور اور مقدور بھر کوششیں کی تھیں۔ اب مگر پاکستان کے اندر اور بیرونِ پاکستان ایسی کئی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جو ہمیں یہ باور کرانے اور یقین دلانے کی کوششیں کررہی ہیں کہ بدلے حالات کا تقاضا ہے کہ فلسطین اور فلسطینیوں پر ہر قسم کے ڈھائے جانے والے اسرائیل مظالم کے باوصف اسرائیل سے مصافحہ اور معانقہ کرنا ہی ہمارے مفاد میں ہے۔
مثال کے طور پر معروف عرب میڈیا "الجزیرہ" میں ایک مشہور عرب تھنک ٹینک کی سربراہ اور دانشور، خُلود خیر، کا 3 ستمبر 2020کو شائع ہونے والا مفصل آرٹیکل۔ دیکھنے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ کئی عرب ممالک میں یو اے ای اور اسرائیل کے تازہ معاہدے بارے مخالفت کرنے والی تقریباً سبھی آوازیں بند کر دی گئی ہیں۔ مثلاً: مصری حکومت نے مبینہ طور پر اِسی سلسلے میں اپوزیشن کی حامی 549ویب سائٹس بند کر دی ہیں۔ عالمِ عرب کے مشہور دانشور اور ایک تھنک ٹینک (نائیل سینٹر فار اکنامک اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز) کے سربراہ، عبدالخالق فاروق، کا کہنا ہے: کہ یو اے ای اور اسرائیلی معاہدے بارے کچھ پہلو سامنے نہیں لائے جار ہے۔