15ستمبر2020ء کو آخر کارماضی کے تین دشمن ملک امریکی ثالثی میں دوست بن گئے ہیں۔ امریکی دارالحکومت میں، امریکی صدر کی زیر سرپرستی، متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل نے باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت ایک دوسرے کو جائز مملکتیں تسلیم کر لیا ہے۔
ترکی اور ایران ( اور کسی حد تک پاکستان ) کی طرف سے متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل کے باہم مل بیٹھنے کی مخالفت کے باوصف تینوں نے ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال دی ہیں۔ یوں ترکی کے بعد چار عرب مسلمان مملکتیں ( اردن، مصر، یو اے ای، بحرین) اسرائیل کے پیارے بن گئے ہیں۔
ان "پانچ پیاروں " میں ترکی سب سے پرانا ہے کہ ترکی نے تو70سال پہلے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ ایک اور مشہور عرب ملک بھی اسرائیلی دوستی کا کمبل اوڑھنے کے لیے مبینہ طور پر تیار بیٹھا ہے۔ بدلتے حالات کے پیش منظر میں عرب ممالک کے کئی اخبارات میں یہودیوں کے بارے میں نرم گوشہ کے حامل مضامین اور کالم بھی شایع ہو رہے ہیں۔ مثلاً: چند دن قبل مشہور اخبار "عرب نیوز" کے صفحہ اول پر ایک تفصیلی آرٹیکل شایع ہُواہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ لبنان میں بسنے والے یہودی (جن کی اکثریت اب امریکا جا چکی ہے)مملکتِ لبنان کا عظیم سرمایہ اور اثاثہ تھے اور یہ پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں لبنان میں کنیساؤں(یہودیوں کی عبادت گاہیں )کی تعداد16 تھی۔
یہ بھی لکھا گیا ہے کہ لبنانی یہودی لبنان سے بہ امر مجبوری ہجرت تو کر گئے لیکن عالمِ عرب سے یہودیوں کا ناتا نہیں ٹوٹ سکتا۔ ایک اہم عرب ملک کے مشہور خطیب و امام نے پچھلے دنوں اپنے خطبہ جمعہ میں "تاریخی حوالے" دے کر یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں ہمیشہ دوستیاں رہی ہیں۔ چند دن پہلے سابق سعودی انٹیلی جنس چیف، شہزادہ بندر بن سلطان، نے بدلتے عالمِ عرب اور فلسطین کے بارے میں جو انکشاف خیز گفتگو کی ہے، اس کے بین السطور پیغام کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ معروف عرب اخبار "العربیہ" میں ڈاکٹر میگنس نوریل کے ایک مفصل آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ" یو اے ای اور اسرائیل میں ہونے والے معاہدے میں سعودی عرب کے لیے ایک سنہری موقع پنہاں ہے۔"
ہم پاکستان میں بیٹھ کر مگر یو اے ای، بحرین اور اسرائیلی دوستی کو اپنے نظریات و خیالات کے پیمانے میں تول رہے ہیں لیکن دُنیا اس دوستی کو مالی و معاشی مفادات کی کسوٹی پر پرکھ رہی ہے۔ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے ایک دوسرے کے وجود کو جائز تسلیم کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کو کن کن شعبوں میں کتنی منفعت ملنے والی ہے۔ عالمی تجزیہ کار اس حوالے سے سیاحت کو سرِ فہرست حیثیت دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر:دبئی میں ایک مشہور فنانشل اینڈ ٹورازم فرم کا کہنا ہے کہ اگلے چھ ماہ کے دوران(اندازاً) اسرائیل کے 5لاکھ سیاح یو اے ای کی سیر کو آئیں گے اور یواے ای کے ساڑھے سات لاکھ سیاح اسرائیل یاترا کے لیے تل ابیب کے ہوائی اڈے پر اتریں گے۔
دونوں ممالک امیر ہیں اور دونوں مملکتوں کے شہریوں کی فی کس آمدنی اتنی زیادہ ہے کہ وہ ایک سال کے دوران کم از کم چار بار سیاحت کے لیے اپنے اپنے ملک سے باہر نکلتے ہیں۔ اسرائیلی کرنسی( شیکل) اور متحدہ عرب امارات کی کرنسی ( درہم) قیمت کے اعتبار سے تقریباً ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ چونکہ حال ہی میں بحرین اور سعودیہ نے اپنی اپنی فضائیں اسرائیلی مسافر طیاروں کے لیے کھول دی ہیں، اس لیے اسرائیلی مسافر جہازوں کو دبئی پہنچنے کے لیے وقت بھی کم لگے گا اور یوں کرائے بھی کم کر دیے گئے ہیں۔
یہ پہلو بھی دونوں ملکوں کی سیاحت پر گہرے مثبت اثرات مرتب کرنے والا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دبئی عالمی سیاحوں کے لیے خاصی پُر کشش جگہ ہے۔ اسی طرح اسرائیلی شہر بھی عالمی سیاحوں کے لیے کم توجہ کا باعث نہیں ہیں۔
دونوں ملکوں کی مضبوط اور خوشحال ٹورازم انڈسٹری کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے سال (2019ء میں )اسرائیل نے سیاحوں کی آمد سے 22ارب شیکلز (6.3ارب ڈالر) اور یو اے ای نے23ارب درہم کمائے تھے۔ اسرائیلی سیاحوں کی آمد کے پیشِ نظر متحدہ عرب امارات نے فوراً یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملک بھر کے تمام ہوٹلز کوشر (Kosher) کھانوں کا اہتمام کریں۔ یہودی کوشر کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ دبئی کا یہ ترنت فیصلہ اس امر کا غماز ہے کہ سیاحت کے فروغ اور سیاحوں کی جملہ سہولتوں کے لیے وہ کس قدر بیدار مغز اور چوکنا ہے۔ ابو ظہبی کے دو عرب مسلمان سرمایہ دار اسرائیل کی فٹ بال تنظیم میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے بھی تیار بیٹھے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مذکورہ تینوں نئے دوست ممالک کے فیصلوں اور اقدامات سے ہم بھی کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان کہتے ہیں کہ "پاکستان اسرائیل کو اُس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک(غاصب و قابض) اسرائیل، فلسطینیوں کو اُن کے جملہ حقوق نہیں دے دیتا۔" بالکل بجالیکن جب تک یہ تاریخ رقم نہیں ہوتی، تب تک پاکستان کو اپنی ٹورازم اکانومی کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی راہ تو نکالنی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے ہاں عالمی سیاحوں کو (دبئی، ترکی اور اسرائیل کی طرح) سہولیات فراہم نہیں کر سکتالیکن خان صاحب کو بہرحال اپنے وعدوں میں رنگ بھرنا ہے جس میں وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم پاکستان کو عالمی سیاحوں کے لیے جنت بنائیں گے۔
بلا شبہ پاکستان کے کئی علاقے عالمی سیاحوں کے لیے جنت ہیں لیکن اس جنت کے دروازے کھولنے کے لیے فی الحال عمران خان کی حکومت خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ یہ درست ہے کہ کووِڈ 19نے بھی ہماری ٹورازم انڈسٹری کا بھٹہ بٹھایا ہے لیکن پچھلا پورا سال تو مملکتِ خداداد اس وائرس کی گرفت میں نہیں تھا۔ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر اور خان صاحب کی توقعات کے مطابق ڈھلے ہوتے تو شائد پاکستان کی سیاحتی صنعت کو کچھ سہارا ملتا لیکن یہ دروازہ بھی بند ہو چکا ہے اور اس کے جلد کھلنے کے امکانات بھی نظر نہیں آ رہے۔
پھر کیا کِیا جائے؟ ایران ہمارا ہمسایہ برادر اسلامی ملک ہے۔ اگر اس کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت اور حیثیت آئیڈیل ہوتی تو بھی ہماری سیاحت میں کوئی مثبت ہلچل ہو سکتی تھی۔ لیکن یہ بھی نہیں ہو سکا۔"ایکسپریس ٹربیون" نے خبر دی کہ پاکستان میں آلو اور ٹماٹر مہنگے ہونے کے باوجود ایرانی ٹماٹر اور آلو پاکستان نہیں آنے دیے( شائد کووِڈ 19کی وجہ سے)ایسے میں ایرانی سیاحوں کی پاکستان آمد سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں؟ اور افغانستان سے مہاجر تو گروہ در گروہ پاکستان آ سکتے ہیں، سیاح نہیں (21اکتوبر2020ء کو جلال آباد کا واقعہ تو ابھی تازہ ہے) چوتھا ہمارا ہمسایہ اور دوست ملک چین ہے: شہد سے زیادہ شیریں، ہمالہ سے زیادہ بلند اور سمندروں سے زیادہ گہرا۔ چین سے مگر کتنی تعداد میں سیاح پاکستان آتے ہیں؟ نہ ہونے کے برابر۔ یہ ہمارے بنیادی حقائق ہیں۔
سیاحت کے حوالے سے اپنے مذکورہ چاروں ہمسایہ ممالک کی طرف دیکھا جائے تو وہاں سے چِٹّا جواب ہے۔ پھر ہماری سیاحتی صنعت پھلے پھولے تو کیسے؟ ایسے میں عالمی سیاحوں کی طرف نگاہیں اُٹھتی ہیں۔ مگر اُنہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہماری موجودہ حکومت نے کیا پُرکشش اقدام کیے ہیں؟ اس بارے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سیاحتی وزارتوں کی ویب سائٹس خاموش ہیں۔ ہماری معیشت کی گراوٹ آخری حدوں پر ہے۔ ایسے میں لاریب پاکستان کو عالمی سیاحوں کی شدید ضرورت ہے لیکن وطنِ عزیز کی سیاست میں جو قیامت خیز ہلچل اور افراتفری مچی ہُوئی ہے، ایسے ماحول میں کسی غیر ملکی سیاح کی آمد بارے سوچنا ہی عبث ہے۔