اُموی خلیفہ نے سپہ سالار طارق بن زیاد سے اچھا سلوک تو نہیں کیا تھا لیکن اُموی بادشاہ طارق بن زیاد کے کہے گئے تاریخی اور دلیرانہ جملے کو تاریخ کے اوراق سے حذف نہیں کر سکا۔ صدیوں سے ابنِ زیاد کا کہا گیا جملہ دہرایا جا رہا ہے۔ اس کی للکار مدہم نہیں پڑی ہے۔ ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان نے بھی 7 اگست2020 کو یہ جملہ دہرایا ہے۔ فرمایا: "کشتیاں جلا دی ہیں۔ اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔" جناب وزیر اعظم نے یہ دل افروز الفاظ اُس وقت ادا فرمائے جب وہ لاہور میں "راوی اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ" کا افتتاح کر رہے تھے۔
اس مبینہ عظیم الشان پروجیکٹ پر 50 کھرب روپے خرچ ہوں گے اور یہاں 60 لاکھ پودے بھی لگائے جائیں گے۔ وزیر اعظم صاحب متعدد بار ارشاد فرما چکے ہیں کہ ہمارے پاس تو فنڈز ہی نہیں ہیں تو پھر یہ کھربوں روپے آئیں گے کہاں سے؟ اس کا جواب خود وزیر اعظم صاحب ان الفاظ میں دیتے ہیں : "اس کے لیے سرمایہ کاروں کو لے آئیں گے۔" وزیر اعظم کے منہ میں گھی شکر۔ ایک وفاقی وزیرکے موعودہ 200 ارب ڈالر تو پاکستان ابھی تک نہیں پہنچ سکے ہیں لیکن اب خدا کرے وزیر اعظم کے مبینہ سرمایہ کار وقت پر پاکستان پہنچ سکیں۔
شاعر نے کہا تھا: چھیتی بَوڑیں وے طبیبا، نئیں تاں مَیں مر گئی آں۔ جناب وزیر اعظم کے ان 50 کھرب روپوں پر مسلم لیگ نون کے جنرل سیکریٹری، پروفیسر احسن اقبال، نے کچھ بنیادی سوال یوں اُٹھائے ہیں : "حکومت کے پاس ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو دینے کے لیے 10 ارب روپے تو نہیں ہیں، راوی اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے لیے50 کھرب روپے کہاں سے لائیں گے؟ پاکستان کی سرکاری جامعات بدترین مالی خسارے سے دوچار ہیں اور انتظامیہ اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتی کر رہی ہیں۔ ایم ایل ون منصوبے کی کل مالیت 7 ارب ڈالر ہے جب کہ حکومت نے بجٹ میں 6 ارب روپے رکھے ہیں، اگر اسی تناسب سے منصوبے پر رقم لگائی گئی تو منصوبہ 200 برس میں مکمل ہو گا۔
حکومتی تخمینے کے مطابق دیا میر بھاشا ڈیم کے لیے 28 ارب روپے درکار تھے اور منصوبے کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے ہیں، اس طرح 12 ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔ ایک طرف تو قومی نوعیت کے منصوبوں کے لیے 10 اور 12 ارب روپے کا شارٹ فال ہے لیکن حکومت راوی فرنٹ منصوبے کی تختی لگا رہی ہے۔ کسے بیوقوف بنانے کی کوشش ہے؟ "۔ احسن اقبال کو اپنے آبائی ضلع اور انتخابی حلقے میں تعمیر کے رکے مراحل سے گزرنے والے "نارووال اسپورٹس سٹی" کے نامکمل ہونے بلکہ برباد ہونے کا سخت رنج بھی ہے۔ اسی اسپورٹس سٹی کے بارے میں وہ "نیب" میں تاریخیں بھی بھگت رہے ہیں۔
اس بارے میں کہتے ہیں : "اسپورٹس سٹی منصوبے کی 86 فیصد فنڈنگ ہو چکی تھی مگر وزیراعظم عمران خان نے آتے ہی اس منصوبے کی فی الفور فنڈنگ روک دی جو صرف 14 فیصد باقی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے کافی زیادہ تعداد میں درآمد شدہ سامان ضایع ہو گیا۔ اگر نوجوان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی معیار کی سہولت فراہم کرنا جرم ہے تو اس منصوبے کو نقصان پہنچانا اس سے بھی سنگین جرم ہے"۔ راقم اس اسپورٹس سٹی کو خود بھی دیکھ چکا ہے۔ دیکھ کر دل دُکھتا ہے کہ اب خوبصورت عمارتیں گھن زدہ ہیں۔ عدم نگرانی اور عدم توجہی کے کارن ہر طرف گھاس اور خود رو پودوں کا جنگل اُگ رہا ہے۔ کوئی دن آتا ہے کہ اگر یہی صورت رہی تو اربوں روپے کی عمارتیں خاک میں مل جائیں گی۔ تب شاید کسی کا انتقام ٹھنڈا پڑ جائے۔
جناب وزیر اعظم کے 50 کھرب روپے کے منصوبے اور اس کے نقادوں کی بازگشت ایسے موقعے پر سنائی دے رہی جب فضا ہمارے وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی، کے ایک آتشیں اور متنازع بیان سے گونج رہی ہے۔ شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اس بیان سے پاکستان کا معروف اور آزمودہ دوست ملک، سعودی عرب، شاید ناراضی کا اظہار کرے۔ ایک ہفت روزہ انگریزی جریدے (اشاعت 7 تا 13 اگست 2020) نے اپنے ادارئیے میں لکھا ہے کہ اس ناراضی کا شاخسانہ وہ بیان بھی ہے جو 5 اگست2020 کو "یومِ استحصال ِ کشمیر" کے موقعے پر ہمارے وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی، نے دیا ہے۔ اس بیان کا لہجہ خاصا تیز اور تلخ تھا۔ اس لہجے کو محسوس کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ہماری اپوزیشن نے بھی اسے پسند نہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، میاں شہباز شریف، نے بھی اس کا نوٹس لیتے ہُوئے کہا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان پاک، سعودیہ تعلقات کے منافی ہے کہ سعودی عرب نے تو ہر آزمائش کے موقعے پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہُوا ہے؟ ۔
"ایکسپریس نیوز" کے اقتصادی تجزیہ کار، شہباز رانا، بھی اس بارے ایک دلچسپ اور منفرد کہانی سناتے ہیں : "سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے قرض میں سے ایک ارب ڈالر واپس لے لیے ہیں جب کہ یہ رقم جولائی2020کے آخری ہفتے میں چین سے ایک ارب ڈالر قرض لے کر واپس کی گئی ہے"۔ 7 اگست 2020 کو نشر ہونے والے "ایکسپریس نیوز" کے پروگرام "دی ریویو" میں کامران یوسف سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے شہباز رانا نے کہا : "قرض واپس کرنے کے بارے میں بار بار پوچھنے کے باوجود وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس موقعے پر انھوں نے بریکنگ نیوز دیتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر 3.2 ارب ڈالر کی سالانہ تیل کی فراہمی کا معاہدہ رواں سال مئی میں ختم ہو چکا ہے۔ معاہدے کی تجدید کے لیے وزارتِ خزانہ کے رابطے کا سعودی عرب نے مثبت جواب نہیں دیا۔ اس موقعے پر اُن کے ساتھ تجزیہ کار، کامران یوسف، نے کہا : "شاہ محمود قریشی کے بعد دفتر خارجہ میں تمام متعلقہ لوگوں کا متفقہ ردِعمل ہے کہ وزیرخارجہ، شاہ محمود قریشی، نے یہ بیان دے کر پاکستان کو خود بخود کارنر کر لیا ہے۔ سفارتکاری اس طریقے سے نہیں کی جاتی۔ سعودی عرب اس بیان کا جائزہ لے رہا ہے۔ سعودی عرب کو ناراض کر کے ہم اپنے لیے مزید مسائل پیدا کریں گے"۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ تمام تر معاملات کے باوجود سعودی عرب بڑے بھائی کا احسن کردار ادا کرے گا۔