18 ستمبر2021 کو ایک ایسی خبر سامنے آئی ہے جس نے خصوصی طور پر عالمِ اسلام میں اتفاق و اتحاد کا ایک ننھا سا چراغ روشن کیا ہے۔ یہ اُمید بھی بندھی ہے کہ جَلد ہی، انشاء اللہ، علمائے طالبان اور عالمِ عرب کے ممتاز اور محترم مذہبی رہنماؤں کے توسط و تعاون سے افغان طالبان اور اسلامی دُنیا میں تسلیم اور یکجہتی کا منظر ظہور پذیر ہونے والا ہے۔
خبر یہ ہے کہ افغانستان کے نائب وزیر داخلہ، شیر محمد عباس ستنکزئی، نے اپنے وفد کے ساتھ عالمِ عرب کے ممتاز علمائے کرام کی منتخب باڈی IURS(International Union of Religious Scholars) کے سربراہ، ڈاکٹر احمد رئیسونی، سے ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات مذکورہ یونین کے صدر دفتر میں ہُوئی ہے اور ملاقات کرنے والے وفد میں IURSکے جنرل سیکریٹری، ڈاکٹر علی قارہ داغی، بھی شامل تھے۔ اس ملاقات کی تصدیق افغان طالبان کے ایک ترجمان، سہیل شاہین، نے بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، IURSنے اجتماعی طور پر افغان طالبان کو حکومت قائم کرنے پر مبارکباد بھی دی۔
نائب افغان وزیر داخلہ، شیر محمد عباس، نے مبارکباد دیے جانے پر عالمِ عرب کے ممتاز علمائے کرام کی بین الاقوامی یونین کا تہ ِدل سے شکریہ ادا کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ "انٹر نیشنل یونین آف ریلیجیس اسکالرز" کی طرف سے طالبان کی حکومت کو مبارکباد دینے کا ایک معنی یہ بھی ہیں کہ کم ازکم عالمِ اسلام کے چنیدہ علمائے کرام کی طرف سے اماراتِ اسلامیہ افغانستان اور طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔"
پاکستان سمیت عالمِ عرب کی کسی بھی حکومت نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن مذکورہ بالایہ خبر یوں بھی اطمینان بخش ہے کہ عالمِ عرب کے جید علما نے کسی قدر افغان طالبان حکام کے قریب آنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے پہلے بھی گزشتہ ایک کالم میں لکھا تھا کہ چند ایک ہچکچاہٹوں کے بعد دُنیا اماراتِ اسلامیہ افغانستان کو نہ صرف تسلیم کر لے گی بلکہ مذہبی افغانستان کے ساتھ ہر میدان میں کام کرتے اور تعاون میں ہاتھ بٹاتے بھی نظر آ ئیگی۔ ہمارے ہاں بھی کئی علمائے کرام، خصوصاً مولانا فضل الرحمن اور اُن کی پارٹی، نئی افغان حکومت کوتسلیم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کے پی کے میں جامعہ حقانیہ کے سربراہ اور مولانا سمیع الحق مرحوم و مغفور کے فرزند، مولانا حامد الحق حقانی صاحب، نے بھی چند دن پہلے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے یہ کہا ہے کہ "اگر دُنیا افغان طالبان کی حکومت تسلیم کرلے، اُن کے لیے ریاستی، خارجی اور سفارتی دروازے کھول دے تو دُنیا ان کی بہت اچھے طریقے سے تربیت کر سکتی ہے۔" یہ الفاظ اس لیے بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ جامعہ حقانیہ ہی سے افغان طالبان کے پیرومرشد اور بانی، مُلا محمد عمر، نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ طالبان حکام کے دلوں میں پاکستان کی دو دینی درسگاہوں کی بے پناہ عزت پائی جاتی ہے: جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور جامعہ بنوریہ کراچی۔ لاتعداد افغان طالبان نے اِنہی دونوں درسگاہوں سے دینی تعلیم حاصل کررکھی ہے۔ جلال الدین حقانی مرحوم بھی "جامعہ حقانیہ" ہی کے فارغ التحصیل تھے۔ آج جلال الدین حقانی مرحوم کے صاحبزادگان اور قریبی نوجوان عزیز افغان کابینہ کا نمایاں ترین حصہ ہیں۔
اگر وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان افغانستان میں وسیع البنیاد یا جامع حکومت بنانے کے لیے افغان طالبان پر کامیاب زور ڈال سکتے ہیں (کہ اب تو پُر امن اور مستحکم افغانستان کے لیے تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کو بھی افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل کیا جا چکا ہے) تو پاکستان کے محترم اور معروف علمائے کرام پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی آگے بڑھیں اور اپنے اثرو رسوخ کو بروئے کار لاتے ہُوئے اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے اتحاد و اتفاق اور تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔
یہ حصہ یوں ڈالا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سبھی مسالک کے چنیدہ علمائے کرام افغانستان کے موثر علماء کے ساتھ رابطہ کریں اور انھیں وسیع تر معنوں میں جامع، مخلوط اور وسیع البنیاد حکومت کے قیام اور استحکام کے لیے مائل اور قائل کریں۔ ہمیں یقینِ کامل ہے کہ ایسی کوششیں ثمر آور ثابت ہوں گی۔
اِ س ضمن میں جماعتِ اسلامی پاکستان موثر ترین کردار ادا کر سکتی ہے کہ جماعت کے کئی لوگ مذہبی سفارتکاری میں خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ ماضی قریب میں، اِس میدان میں، امیرِ جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کئی بار ایسا کردار ادا کر چکے ہیں۔ اب یہ کردار موجودہ امیر جماعت جناب سراج الحق کو ادا کرنا چاہیے۔
سمجھ میں مگر یہ بات نہیں آتی ہے کہ جماعتِ اسلامی پاکستان کی اعلیٰ قیادت اور افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت میں دُوری اور بُعد کا سبب کیا ہے؟ لگتا یوں ہے جیسے جماعتِ اسلامی پاکستان کی قیادت نے افغان علما اور اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے حکام سے لاتعلقی سے اختیار کررکھی ہے۔ ایسا ہونا تو نہیں چاہیے تھا۔ ماضی قریب میں اگر قاضی حسین احمد مرحوم اعلیٰ افغان مجاہد قیادت میں کئی بار کامیاب صلح صفائیاں کروا سکتے تھے تو آج یہی فریضہ، افغانستان کے وسیع ترمفاد میں، جناب سراج الحق کو ادا کرنا چاہیے۔
جماعتِ اسلامی اگر چاہے تو یہ کردار احسن اسلوب میں ادا کر سکتی ہے۔ وہ اگر اکتالیس، بیالیس سال قبل ایران میں، امام آیت اللہ خمینیؒکے زیر قیادت، کامیابی کے ساتھ برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کو مبارکباد دینے کے لیے جماعتِ اسلامی اور جید علمائے کرام کا ایک متنوع، باوقار اور چنیدہ وفد لے کر تہران جا سکتی تھی تو آج یہی جماعتِ اسلامی افغانستان اماراتِ اسلامیہ میں اسلامی انقلاب کی کامیابی پر وفد کے ساتھ قندھار اور کابل کیوں نہیں جا سکتی؟ چار عشرے قبل جماعتِ اسلامی کا بھاری وفد علمائے کرام کے ساتھ امام خمینی سے ملنے چلا گیا تھا تو آج جناب سراج الحق اپنی جماعت کی قیادت کرتے ہُوئے، پاکستان کے ممتاز علماء کے جھرمٹ میں، افغانستان کے سپریم لیڈر جناب ہیبت اللہ اخونزادہ سے کیوں نہیں مل سکتے؟ انھیں ملنا چاہیے۔
اگر ہم میاں طفیل محمد صاحب مرحوم کی کتاب "مشاہدات…مولانا مودودیؒ، جماعتِ اسلامی، پاکستان" کا مطالعہ کریں تو یہ بات تاریخی طور پر کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام خمینی ؒ کے کامیاب اسلامی انقلاب کے فوری بعد جماعتِ اسلامی قیادت کیوں ایک بڑے وفد کے ساتھ تہران میں اُتری تھی اور قائد انقلاب امام آیت اللہ خمینی کے ساتھ ملاقات کیوں کی تھی؟ اس وفد میں ترکی کی ملّی سلامت پارٹی، امریکا کی مسلم اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن، اسلامک کونسل آف یورپ اور پاکستان و بھارت کی جماعت ہائے اسلامی سمیت دوسرے سات ممالک سے آٹھ اسلامی تحریکوں کے رہنما شامل تھے۔
یہ سب لوگ کراچی میں اکٹھے ہُوئے اور وہاں سے میاں طفیل محمد صاحب کی قیادت میں یہ وفد چارٹرڈ طیارے میں 28 فروری 1979 کو اُس وقت تہران میں اُترا جب انقلابِ ایران کو برپا ہُوئے چند روز ہی ہُوئے تھے۔ میاں طفیل محمد صاحب کتاب میں کہتے ہیں:" ہم نے اپنی طرف سے امام خمینی، وزیر اعظم مہدی بازرگان اور وزیر خارجہ ابراہیم یزدی کو یہ پیشکش کی تھی کہ ایران کی تعمیرِ نَو کے لیے آپ کو پروفیسروں، انجینئروں، فنی ماہروں اور غرضیکہ جس قسم کے بھی کارکنوں کی مدد درکار ہو، ہم بھرپور تعاون کے لیے تیار ہیں۔" (صفحہ537) یہ جماعتِ اسلامی پاکستان کی قیادت کی جانب سے انقلابی اسلامی ایرانی قیادت کو ایک فراخدلانہ اور مستحسن پیشکش تھی۔ کیا جماعتِ اسلامی پاکستان کی قیادت آج ایسی ہی خدمات اماراتِ اسلامیہ افغانستان کی کامیاب اسلامی انقلابی حکومت کو بھی پیش کر سکتی ہے؟