گزشتہ روز لاہور کے پریس کلب میں جماعت اسلامی کی ایک مرکزی اور محترم شخصیت حکومت اور اپوزیشن کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکتے دکھائی دی۔ اُن کا لہجہ ناقابلِ فہم حد تک دونوں فریقین کے لیے تلخ اور سخت تھا۔ یہ منظر عجب لگا۔ یہ صاحب ہمارے پرانے اور پیارے دوست ہیں۔
جماعتِ اسلامی پاکستان میں ہم جن چند ایک شائستہ مزاج اور خوشگوار افراد کو جانتے ہیں، اُن دلربا اشخاص میں سے ایک ہیں۔ جماعتِ اسلامی سے اُن کا دیرینہ اور مضبوط رشتہ ہے۔ یہ تعلق زمانہ طالبعلمی سے چلا آتا ہے۔ جب وہ جامعہ پنجاب کے طالبعلم تھے، تب اسلامی جمعیتِ طلبا کا پلیٹ فارم اُن کی بھرپور تربیت و اعانت کرتا رہا۔ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے جمعیت سے اور جمعیت نے اُن سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ یہی بات جماعتِ اسلامی پاکستان سے اُن کے تعلق خاطر کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے۔
وہ اُن خوش بخت انسانوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے سید مودودیؒ کا دیدار کر رکھا ہے، اُن کی ایمان افروز گفتگوئیں سُنی ہیں اور جنھیں اُن کی دلکشا و ذہن ساز مجالس میں بیٹھنے کے اعزازات نصیب ہو چکے ہیں۔ صبر اور شائستگی سید مودویؒ کی پہچان رہی۔ حیرانی مگر یہ ہے کہ ایسے مہذب اور محترم شخص کی مجالس میں بیٹھنے والے ہمارے یہ دوست بات بات پر حکومت اور اپوزیشن کے خلاف تلخ کیوں ہو رہے تھے؟ وہ بزرگ ہو رہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کی مرکزی شخصیت ہونے کے ناتے سے لوگ اُن کی طرف بلند توقعات سے تکتے ہیں۔ پھر تلخ کلامی کیونکر؟ ۔
خان صاحب کی حکومت میں جماعتِ اسلامی جس طرح بچھڑ کر رہ گئی ہے، کیا یہ تلخی اِسی کا شاخسانہ تو نہیں؟ اس میں مگر کسی کا نہیں، خود جماعتِ اسلامی کا قصور ہے۔ پچھلے دو، سوا دو سال سے امیرِ جماعتِ اسلامی، محترم سراج الحق، مسلسل عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف جلسوں پر جلسے کر رہے ہیں۔ سراج الحق صاحب حکومت کو مکمل " ناکام" اور "ناکارہ" قرار دیتے ہیں۔ مجھے خود اُن کے جلسوں میں جانے اور اُن کی تقاریر سننے کے کئی مواقع ملے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کا ماہنامہ جریدہ "عالمی ترجمان القرآن" بھی باقاعدہ میرے زیر مطالعہ رہتا ہے۔
کراچی سے شایع ہونے والا جماعتی پالیسیوں کا عکاس روزنامہ اخبار اور جماعت ہی کا ایک ہفت روزہ بھی پڑھتا ہُوں۔ یوں اِن جرائد کی معرفت عمران خان کی حکومت کے بارے میں جماعتِ اسلامی کے باطنی اضطراب سے وقتاً فوقتاً آگاہی ملتی رہتی ہے۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ جماعتِ اسلامی اور اس کی قیادت حکومت سے دراصل چاہتی کیا ہے؟ جناب سراج الحق کی باتیں سُنی اور بیانات پڑھے جائیں تو لگتا ہے کہ وہ حکومت سے اتنے نالاں اور بیزار ہیں کہ ایک دن بھی خانصاحب کی حکومت گوارا نہیں۔ دوسری طرف مگر اُن کے پاس حکومت سے چھٹکارا پانے اور عوام کی رہنمائی کے لیے کوئی پروگرام ہے نہ کوئی لائحہ عمل۔ ہم لوگ جنھوں نے سابق امیرِ جماعت محترم قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی حکومتوں کے خلاف معرکہ آرائیاں دیکھ رکھی ہیں، موجودہ امیرِ جماعت سے مایوس ہیں۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی 11جماعتوں کا "پی ڈی ایم" کی شکل میں اکٹھا ہونا اب جماعتِ اسلامی اور اس کے امیر کے لیے شائد پچھتاوا بن گیا ہے۔
جماعتِ اسلامی نے دانستہ "پی ڈی ایم" کا حصہ بننا قبول نہیں فرمایا۔ شمولیت کے لیے اُن کی کچھ شرائط تھیں اور یہ شرائط خانصاحب کے خلاف متحد ہونے والوں کے لیے ناقابلِ قبول تھیں ؛ چنانچہ جماعتِ اسلامی اب اپنے شوق سے سولو فلائیٹ پر ہے۔ اب میڈیا پر حضرت مولانا فضل الرحمٰن چھائے ہُوئے ہیں اور جناب سراج الحق کی شخصیت مدہم سی پڑ گئی ہے۔
اب باہر رہ کر جماعتِ اسلامی حکومت پر بھی برس رہی ہے اور "پی ڈی ایم " پر بھی۔ لاہور کے پریس کلب میں جماعتِ اسلامی کی مذکورہ بالا شخصیت اِسی پس منظر میں "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" میں شامل سینئر سیاستدانوں پر برس برس کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرتی پائی گئی۔ جماعتِ اسلامی کو حکومت پر بجا غصہ ہے کہ اس نے بنگلہ دیش میں جماعت کے وابستگان کو ناجائز پھانسی دیے جانے پر خالدہ ضیاء سے کوئی تگڑا احتجاج نہیں کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہورہے ہیں اور ہماری حکومت اپنے عرب دوستوں کو اس پر بھارت کے خلاف ہمنوا نہیں بنا سکی ہے، جماعت کو اس کا بھی رنج ہے۔
ملک میں غریب کُش مہنگائی کے خلاف بھی جماعتِ اسلامی حکومت کو بجا طور پر کوسنے دیتی دکھائی دیتی ہے لیکن عمل کے محاذ پر خاموش۔ امیرجماعتِ اسلامی تو پچھلے دنوں اُن سیاستدانوں میں شامل پائے گئے جنھوں نے خفیہ طور پر طاقتوروں سے ملاقات کی۔ اب یہ راز، کوئی راز نہیں رہا۔ یہ بات مگر سامنے نہیں آ سکی ہے کہ سراج الحق اگر مبینہ طور پر فیصلہ ساز قوتوں سے ملے ہیں تو انھوں نے حکومت کے بارے میں کیا اور کیسا احتجاج ریکارڈ کروایا؟ ایسے میں جماعتِ اسلامی کی ذمے دار ہستی پریس کلب میں احتجاج کرتے ہُوئے کیا محض خانہ پُری کرتی دکھائی نہیں دی؟
عبدالغفار عزیز کی دلفگار رخصتی:ہم سب کے عزیز، عبدالغفار عزیز اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اُن کی اچانک رحلت سے سینے پر گہرا گھاؤ لگا ہے۔ آپ جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور اُمورِ خارجہ کے ڈائریکٹر تھے۔ نہائت شائستہ مزاج، صاحبِ مطالعہ اور ہمیشہ مسکراہٹ سے بات کرنے والے۔ چونکہ عربی زبان کی باریکیوں سے خوب آگاہ تھے، اس لیے عالمِ عرب کے اخبارات، عربستان کی معروف سیاسی و سماجی و ادبی شخصیات سے براہِ راست آگاہ اور خاص طور پر عرب ممالک میں جاری خفی و جلی مذہبی و سیاسی تحریکوں، اُن کے محرکات اور اُن کے بانیان سے نہائت گہری واقفیت رکھتے تھے۔
جب کبھی عالمِ عرب میں کسی شخصیت یا کسی جریدے کے بارے میں تازہ ترین معلومات درکار ہوتیں، استفسار پر معلومات کا دریا بہا دیتے۔ اُن کی دل افروز اور چشم کشا تحریریں ماہنامہ "ترجمان القرآن" میں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ اُن کے لکھے گئے پُر مغز مضامین پڑھ کر رشک آتا: کاش، ہم بھی ایسا لکھ سکتے، کاش ہمارے پاس بھی ایسی کرنٹ انفرمیشن ہوتی!!
عبدالغفار عزیز صاحب کے پاس بیٹھنا قلب و ذہن کے لیے تقویت و مسرت کا باعث بنتا۔ کئی سال پہلے جب راقم لاہور کے ایک پنجابی ٹی وی پر چار ہفتہ وار سیاسی پروگرام کرتا تھا، عبدالغفور عزیز کو کئی مرتبہ اپنے ٹاک شو میں مدعو کرنے کا اعزاز ملا۔ حیرت ہوتی تھی کہ وہ کس روانی سے پنجابی، اُردو، عربی اور انگریزی زبانیں بول لیتے تھے۔ افسوس کہ زندگی نے زیادہ دیر وفا نہ کی۔ بہت جلد خالق و مالک کی طرف سے بلاوا آگیا۔ اُن کی عمر ابھی ساٹھ سال بھی نہیں ہُوئی تھی۔ سرطان کے مہلک مرض نے اچانک ہی دبوچ لیا۔ جب تشخیص ہُوئی تو اُس وقت بہت تاخیر ہو چکی تھی۔
چوتھی اسٹیج پر کینسر کا مکمل خاتمہ ممکن ہی نہیں تھا۔ مجھے اپنا دکھ بانٹنے کے لیے کوئی اور تو نہ ملا، بس پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کو فون کیا، رخصت ہونے والے کے بارے میں کئی باتوں کو یاد کیا اور دل پر پڑے غم کو ذرا سا ہلکا کر لیا۔ جریدہ "ترجمان القرآن" کے نائب مدیر اور کئی کتابوں کے مصنف برادرم سلیم منصور خالد نے بجا فرمایا: "سچی بات یہ ہے کہ عبدالغفار عزیز عالمِ عرب میں پاکستان کے حقیقی اور سچے سفیر تھے۔" دمِ رخصت بھی جماعتِ اسلامی کے مرکزی ہیڈ کوارٹر "منصورہ" ہی میں ہمارا پیارا اور عالم فاضل دوست مقیم تھا۔ اے اللہ، رخصت ہونے والے عبدالغفار عزیز کی بخشش فرما، انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عنائت فرما اور اُن کی دانستہ و نادانستہ لغزشوں کو معاف فرما دے۔ آمین!!