Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kayi Rangon Ki Yaddashtain

Kayi Rangon Ki Yaddashtain

فرخ سہیل گوئندی کے ساتھ میری تُو اور تم والی فرینکنیس نہیں ہے۔ مَیں نے انھیں کبھی فارغ نہیں دیکھا۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنا اُن کا وظیفہ حیات ہے۔ اُن کے خون اور وجود میں سیالکوٹ کی دانش و بینش اور سرگودھا کی اکڑ رچی بسی ہے، مگر وہ مدتوں سے لاہور میں ایسے رہ رہے ہیں جیسے اصل لاہورئیے ہوں۔

اُن کے تحرک، چال ڈھال اور لہجے سے کوئی پہچان نہیں سکتا کہ وہ لاہور کے جم پل نہیں ہیں۔ بیک وقت سیاست کار بھی ہیں اور قلمکار بھی۔ سیاسی دھڑے باز بھی اور عالمی سیاح بھی۔ ساری جوانی لیفٹ کی سیاست کرتے اور لیفٹ کا لٹریچر حفظ کرتے گزار دی لیکن لیفٹ کے سرمایہ دارسیاستدانوں نے انھیں غچہ ہی دیا۔ کتاب اور حرفِ مطبوعہ کے رسیا، بلکہ عاشق۔ بھٹو صاحب کے عشق میں بھی مبتلا رہے۔

ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کتاب لکھنے، کتاب رکھنے اور کتاب پڑھنے والوں کی عزت کم کم کی جاتی ہے لیکن فرخ سہیل گوئندی اس کے باوصف کتابوں اور کتاب لکھنے والوں سے عشق کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کتابیں شایع کرنے کا لاحاصل عشق بھی پال رکھا ہے۔ گوئندی صاحب جانتے ہیں یہاں کوئی انقلاب آسکتا ہے نہ کسی انقلابی کی دال گل سکتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ انقلاب کے خواب دیکھتے اور انقلابیوں سے محبتیں کرتے رہے ہیں۔

ترکی کے کامیاب انقلابی مصطفی کمال پاشا کے عشق کی زنجیر سے بندھے فرخ سہیل گوئندی نے مسلسل ناکام انقلابوں مگر کامیاب محبتوں کی سرزمین، لبنان، کی ایک محترم خاتون سے بیاہ کیا۔ جس ملک نے Broken Wings ایسا شاہکار ناول لکھنے والے خلیل جبران کو جنم دیا ہو، اُس سرزمین کی ایک لڑکی سے نکاح کرنا کسقدر رومان انگیز ہوگا، یہ کوئی گوئندی سے پوچھے۔

کوئی 200صفحات پر مشتمل "لوگ دَر لوگ" کے زیر عنوان فرخ سہیل گوئندی نے ایک کتاب لکھی ہے۔ خالصتاً اپنی پُر جنوں اور پُر شوق سیاسی، ادبی اور سیاحتی زندگی کی یادوں اور یادداشتوں پر مشتمل۔ یادیں کیا ہیں، یوں سمجھیے کہ بھڑکتا ہُوا کوئی شعلہ ہے جس نے کتاب کا رُوپ دھار لیا ہے۔ متنوع یادوں کا ایک دھارا ہے جس کے لاتعداد رنگوں میں بھیگ کر قاری کبھی خوش، کبھی اداس، کبھی مایوس اور کبھی پھر سے اُمید کی شمع لیے ابھرتا ڈوبتا رہتا ہے۔

لیکن ایسے فراخ دل اور خوش ذوق ذہن کے ساتھ سب کہانیاں بیان کی گئی ہیں کہ پژمردگی کو غالب نہیں آنے دیاگیا۔ گوئندی صاحب نے کئی اچھی کتابیں لکھی ہیں لیکن "لوگ دَر لوگ" اس لیے زیادہ دلچسپ اور معنی آفریں ہے کہ اس میں اُن کے ذاتی تجربات کا ٹھاٹھیں مارتا تنوع شامل ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ایک پولیٹیکل ایکٹوسٹ کی کتھا ہے جس نے سچائی کی تلاش میں "کئی کانوں " کے اندر گھس کر ہیرے تلاش کیے اور پھر انھیں یکجا کر دیا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ چند ماہ میں "لوگ دَر لوگ" کا دوسرا ایڈیشن بھی سامنے آگیا ہے۔ جادو گر اشفاق احمد نے کہیں لکھا ہے کہ "جس طرح گونگا کڑاہی گوشت کا مزہ بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے …" کچھ اِسی طرح راقم بھی بسیار کوشش کے باوصف اِس چھوٹی سی کتاب کا مزہ بیان نہیں کر پارہا۔

مجھے اسلام آباد پریس کلب میں فرخ سہیل گوئندی کی اُس تقریر نے گویا مسمرائز سا کردیا تھا، جب بہت سے دانشوروں کی موجودگی میں وہ ہمارے قابلِ فخر اور قلندر صفت شاعر، حبیب جالب، کی زندگی اور کلام پر گفتگو کررہے تھے۔ گوئندی کا دعویٰ ہے کہ اُنہی کی طرف سے ایک خبر سنانے پرحبیب جالب نے لاہور کے ایک ہوٹل میں ترنت وہ تاریخی نظم کہی تھی جس کے بول ہیں : "نہ جا امریکا نال کڑے۔"اس نظم کی بازگشت سے بے نظیر بھٹو بھی دہل گئی تھیں۔ مصنف کے سیکولر اور لبرل دوست بھی قلندر ہی تھے۔ پاکستان کے ایک وزیر اعظم، ملک معراج خالد، ان میں سے ایک تھے۔ ملک معراج خالد نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنی چند ایکڑ زمین بیچی۔

اس کے تین حصے کیے۔ ایک حصہ گاؤں کی مسجد کے لیے وقف کر دیا۔ دوسرا حصہ مقامی گردوارہ بے بے نانکی کو دیا اور تیسرے حصے پر اپنے گاؤں (ڈیرہ چاہل) کے لوگوں کے لیے کمیونٹی سینٹر بنا دیا۔ اب ایسے لوگوں کو ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر۔ حنیف رامے کے بارے میں لکھا: " حنیف رامے میری سیاسی جدوجہد میں میرے دوست بنے۔

اُس وقت وہ سابق وزیر اعلیٰ اور سابق گورنر رہ چکے تھے۔ ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ انھوں نے بحیثیتِ وزیر اعلیٰ پنجاب صحافیوں کو گھروں کا مالک بنا دیا، پنجاب میں ہزاروں لوگوں کو گھر بنانے کے لیے زمینیں الاٹ کیں، کچی آبادیوں کے مالکانہ حقوق دیے لیکن اپنا مکان نہ بنا سکے۔" اب جب کہ ہمارے سابق وزرائے اعلیٰ و صدور ووزرائے اعظم اپنی مبینہ کرپشنوں کے کارن "نیب" اور عدالتوں میں لاتعداد مقدمات سے گزررہے ہیں تو ہمیں حنیف رامے بارے یہ "بے مکانی" کی کہانی ناقابلِ یقین لگتی ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسے دیانتدار حکمران ہو گزرے ہیں۔ اِس دَور کو گزرے ابھی زیادہ دن بھی نہیں ہُوئے۔

"لوگ دَر لوگ"32 دلچسپ مضامین اور دلکشا شخصی خاکوں پر مشتمل ہے۔ بے نظیر بھٹو، مشاہد حسین، شمعون پیریز، شیخ محمد رشید، راؤ رشید، منو بھائی، پروفیسر وارث میر اور ڈاکٹر انور سجاد کے علاوہ بھارت اور بھارتی شخصیات پر بھی ذاتی مشاہدات و ملاقاتوں پر محیط آرٹیکلز ہیں۔ مثلاً:حاجی مستان مرزا( ممبئی کا انڈر ورلڈ بادشاہ جس نے بھٹو کی پھانسی پر فلم بنانے کا منصوبہ بنایا تھا)، ناول نگار خوشونت سنگھ اور اُن کے والد (سوبھا سنگھ)، صحافی کلدیپ نائراور اندر کمار گجرال (سابق بھارتی وزیر اعظم)۔ اپنی جہاں گردی کے زمانے میں گوئندی صاحب ان سب شخصیات سے بھارت جا کر ملے۔ ڈرامہ نگار مدیحہ گوہر اور معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر سے وابستہ یادوں اور باتوں کو خوب پیرائے میں بیان کیا ہے۔

مصنف نے عاصمہ جہانگیر کو "ایک بہادرعورت" لکھا ہے۔ بلا شبہ وہ بہادر خاتون تھیں جنھوں نے ہر قسم کی آمرانہ اور جابرانہ ذہنیت رکھنے والوں کو للکارا۔ اس بہادر عورت کی کمی آجکل بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس کتاب میں بھی دو شاندار مضامین ترکی کی "نازاں سانچی" اور ایک "عثمانی شہزادی" سے ملاقات شامل ہیں۔ راؤ رشید (سابق آئی جی پنجاب) نے اپنی زرعی زمین بیچی اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والا پراویڈنٹ فنڈ جمع کرنے کے بعد لاہور میں دس مرلے کا مکان خریدا۔ جب پراپرٹی ڈیلر نے کاغذات مکمل کرلیے تو کہنے لگا: پہلی مرتبہ ایسا سینئر ترین پولیس افسر دیکھا ہے جو زندگی کے آخری برسوں میں اپنا مکان خریدنے کے قابل ہُوا ہے۔

ہمارے ہاں تو ڈی ایس پی سطح کے پولیس عہدیدار آتے ہیں جو ملازمت کے دوران ہی پانچ پانچ مکانوں اور بے حساب پراپرٹی کے مالک ہیں۔ جناب عمران خان کے اولین سیاسی دوستوں میں شامل ممتاز قانون دان جناب محمود مرزا پر بھی خوب باب باندھا گیا ہے۔ مصنف نے پیپلز پارٹی کے اُس جاگیردار کا نام لکھنے سے گریز کیا ہے جس نے اُن کا "کام تمام" کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔