Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Masakh Hota Bharti Chehra!

Masakh Hota Bharti Chehra!

پاکستان نے اپنے وزیر اعظم کی قیادت میں سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ کرتارپور کوریڈور کا افتتاح کر دیا۔ جناب عمران خان نے بڑی جرأت و استقامت سے 9 نومبر 2019ء کو اس راہداری کا افتتاح کر کے بین الاقوامی شاباش پائی ہے، سکھ کمیونٹی کے دل بھی جیتے ہیں اور اقلیتوں کا احترام کیے جانے کے حوالے سے پاکستان کا ایک روادار چہرہ بھی دُنیا کو دکھایا ہے۔ یہ منزل آسان قطعی نہیں تھی۔ بہت سی رکاوٹیں اس راہ میں حائل تھیں۔ خانصاحب نے مگر سب مخالفتوں کے باوصف اور سرکش لہروں کی ایال تھامے اس راہ کو نہ چھوڑا۔ بعض اطراف سے اُن کی سخت مخالفت کی گئی اور اُن پر بے بنیاد تہمتیں بھی عائد کی گئیں۔

مثال کے طور پر آجکل احتجاج پر نکلے حضرت مولانا فضل الرحمن نے 9 نومبر کو اسلام آباد میں اپنے دھرنے میں کھڑے ہو کر اُن کے اس افتتاحی اقدام کا نہ مناسب اور دل آزار الفاظ میں ذکر فرمایا تھا۔ وزیر اعظم مگر ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ برداشت کر گئے اور شکائت میں دل دکھانے والوں کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی ادا نہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن کے الفاظ مگر ہوا میں تحلیل ہو کر نہیں رہ گئے۔ وہ بازگشت بن کر ہمیں باور کرا رہے ہیں کہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے انسان کہاں تک جا سکتا ہے!!

افسوس تو ہمیں بھارت پر ہے (اور ہمیشہ رہے گا) کہ اُس نے عین اُن لمحات میں جب پاکستان دل بڑا کر کے بھارتی اور دُنیا بھر کی سکھ کمیونٹی کے لیے کرتارپور راہداری کے دروازے کھول رہا تھا، بھارت نے اپنی مسلم اقلیت کے دل توڑ دیے۔ اُسی روز دانستہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے مشہور اور دیرینہ مقدمے کا فیصلہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف سنا کر بھارت کے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کے دل توڑ ڈالے۔ اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ بھارتی عدالتیں کھلم کھلا انڈین اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچ رہی ہیں۔

یہ فیصلہ سنا کر بھارت نے دراصل یہ کوشش کی تھی کہ پاکستان کرتارپور کوریڈور کا افتتاح کر کے جو عالمی شہرت اور شاباش حاصل کر رہا ہے، بھارت میں اِسے پیچھے پھینک دیا جائے۔ تعصب اور عناد کی اس سے بڑھ کر شائد ہی کوئی اور تازہ مثال پیش کی جا سکتی ہو۔ بھارتی ریاست "اُترپردیش" میں واقع صدیوں قدیم بابری مسجد کو پہلے، 27 برس قبل، متعصب اور بنیاد پرست ہندوؤں کی تنظیموں (از قسم آر ایس ایس، بی جے پی، وی ایچ پی، بجرنگ دَل) نے شہید کیا تھا اور اب بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے اِسی مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کی اجازت دی ہے۔ ساری با ضمیر دُنیا کے سر اس فیصلے سے جھک گئے ہیں، مگر بھارت اور بھارتی ذمے دار اداروں کو شرم قطعی نہیں آئی۔ واقعہ یہ ہے کہ اخلاقی اعتبار سے بھارت کا دامن خالی ہو گیا ہے۔

کیا یہ ظلم اس لیے ہُوا ہے کہ اُتر پردیش ریاست کا وزیر اعلی، ادیتیہ ناتھ، ایک متعصب، اسلام دشمن اور بنیاد پرست ہندو سیاستدان ہے؟ یا یہ ظلم اس لیے بھی ہُوا ہے کہ بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی، اپنے ہندو ووٹروں سے کیے گئے تمام وعدوں کی تکمیل چاہتا تھا؟ کیا ویدوں پر وشواس رکھنے والے بھارتی سیاست کار اسقدر استحصالی اور ستم پسند بھی ہو سکتے ہیں؟ ایسا تو شائد کسی نے کم کم سوچا ہو گا۔

مودی "جی" نے 2014ء میں اپنے مسلم دشمن اور تعصب پسند ہندو ووٹروں سے دو بڑے وعدے کیے تھے :(۱) اگر مجھے اکثریتی ووٹ دے کر کامیاب کرو گے تو ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بناؤں گا (۲) کشمیر (مقبوضہ) کے لیے بھارتی آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت بھی ختم کر ڈالوں گا، تاکہ بھارت کے تمام ہندو بغیر کسی رکاوٹ کے کشمیر میں جا بسیں اور مسلمانوں کی اکثریت کا خاتمہ کر ڈالیں۔ صرف نصف عشرے کے عرصے میں نریندر مودی نے بھارتی ہندو ووٹروں سے کیے گئے دونوں وعدے پورے کر دیے ہیں۔ بھارتی آئین میں مندرج آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پچھلے 100دنوں سے بھی زیادہ عرصے سے ظلم اور زیادتی کا ایک نیا بازار گرم ہے لیکن دُنیا گونگی اور بہری ہو چکی ہے۔ کیا محض اس لیے کہ خطہ کشمیر کے کوہ و دمن اسلام کے نام لیواؤں کی اذانوں سے گونجتے ہیں؟ کیا صرف اس لیے دُنیا کشمیریوں کے اشک دیکھنے اور اُن کی سسکیاں سننے سے انکاری ہے؟

جنھیں مگر اصل بھارتی ہندوحکمران طبقے کی ذہنیت سے آگاہی اور شعور حاصل تھا، اُن کے لیے بابری مسجد کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہر گز حیرت انگیز اور غیر متوقع نہیں ہے۔ اے جی نورانی صاحب بھی اُن مُٹھی بھر افراد میں شمار کیے جاتے ہیں جنھیں بنیاد پرست بھارتی ہندوؤں کے قلب میں موجیں مارتی مسلم دشمنی سے خوب خوب آگاہی حاصل ہے۔

یہ فیصلہ بابری مسجد اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہی آئے گا۔ انھوں نے لکھا تھا : "سچے، کھرے اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر فیصلہ ہو گا تو بابری مسجد ہی جیتے گی لیکن میرا وجدان اور تجربہ کہتا ہے کہ طاقتور اور بنیاد پرست ہندوؤں کی خواہش ہی آخر فتحیاب ہو گی۔ " اور 9 نومبر کے فیصلے نے اے جی نورانی کی پیشگوئی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ اس معرکہ خیز کتاب کے بعد اے جی نورانی صاحب نے اِسی سلسلے کی دوسری کتاب لکھی۔ اس کا عنوان تھا:Destruction Of Babri Masjid: A National Dishonour اس تصنیف میں بھی کہہ دیا گیا تھا کہ مقتدر بھارتی ہندو طاقتیں بابری مسجد پر اپنا فیصلہ لیں گی۔ اب منظر واضح ہو چکا ہے۔ کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔

مسجد کے ساتھ کسی بھی مسلمان کی جو گہری وابستگی اور دلبستگی ہو سکتی ہے، وہ کسی بھی شبہے اور شک سے بالا ہے۔ کمزور ایمان والے مسلمانوں نے بھی مسجد کی حرمت اور عظمت پر اپنے سر کٹوائے ہیں۔ تشکیلِ پاکستان سے قبل لاہور کی مسجد شہید گنج کا واقعہ پڑھئے تو سارا منظر کھل جاتا ہے کہ اس مسجد کے لیے حکیم الامت علامہ اقبال ؒ بھی تڑپے تھے اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ بھی۔ اور اب بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے کر بھارتی سپریم کورٹ نے بھارت ہی کے نہیں، ساری دُنیا کے مسلمانوں کے دلوں پر گہرا گھاؤ لگایا ہے۔ یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوگا۔ اس فیصلے نے بھارت کا چہرہ سیاہ کر ڈالا ہے۔

بھارتی مقتدر ہندو مگر اِسی پر ہی رُک نہیں رہے۔ وہ بھارتی مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے مزید آگے بڑھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 15 نومبر2019ء کو انھوں نے بنارس کی ہندو یونیورسٹی میں تعینات ہونے والے مشہور مسلمان دانشور، پروفیسر فیروز خان، کو نکالنے کا مطالبہ کر دیا ہے، یہ کہہ کر کہ کسی صورت میں اس مسلمان کو یہاں نہیں رہنے دیں گے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی عشروں سے آویزاں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کو گرانے اور ہٹانے کے لیے کشت وخون پر آمادہ ہندوؤں کی تنظیم کا حملہ ابھی پرانا نہیں ہُوا ہے۔ اور اب بی جے پی کا یہ تازہ مطالبہ کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں "اسلامی دہشتگردی" کا مضمون شاملِ نصاب کیا جائے۔ چہرہ مسخ ہونا اور کسے کہتے ہیں؟۔