بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ ہمارے دل و دماغ سے کبھی محو نہیں ہُوئے ہیں۔ ہم پر اُن کے اتنے احسانات ہیں کہ چاہیں بھی تو اُن کی عظیم المرتبت شخصیت کو فراموش نہیں کر سکتے۔
سچ تو یہ ہے کہ چھ، ساڑھے چھ عشرے قبل بے بدل شاعر، فیاض ہاشمی، کا قائد اعظم کی عقیدت وتحسین میں لکھا گیا نغمہ کسی نہ کسی صورت میں ہمہ وقت ہمارے دلوں اور دماغوں میں گونجتا اور تڑپتا رہتا ہے :"یوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہُوئی حیران/اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان۔"پچھلے چند ایام کے دوران، جب سے بھارت اور نریندر مودی نے نئے شہریتی ترمیمی قانون (CAA)کے تحت بھارتی مسلمانوں پر نیا ظلم ڈھایاہے، قائد اعظم کا اسمِ گرامی اور احسانات نئی شان سے گونجنے لگے ہیں۔ اور یہ بازگشت بھارت کے ہر کوچہ و بازار میں بھی اس نعرے کے ساتھ سنائی دے رہی ہے کہ نظریہ پاکستان سو فیصد درست ہے اور پاکستان کی صورت گری کرکے قائد اعظم محمد علی جناح نے واقعی معنوں میں ایک بے مثال کارنامہ انجام دیا۔
یوں برِ صغیر کے کچھ مسلمان تو آزاد پاکستان میں محفوظ ہو گئے، وگرنہ بنیا ساری مسلمان قوم پر عرصہ حیات تنگ کر دیتا۔ اب تو بھارتی سیاستدان بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ نرنیدر مودی کے اقدامات نے قائد اعظم کے موقف کو سچ ثابت کر دیا ہے۔
پاکستان کے ممتاز دانشور، کئی وقیع کتابوں کے منفرد مصنف اور ایک امتیازی شان کے حامل محقق، میاں محمد افضل صاحب، نے قائد اعظم کے احسانات اور جدوجہد کو ایک نویکلے انداز میں یاد کیا ہے۔ ٹھیک دو ماہ قبل انھوں نے مجھے اپنی یہ کتاب بھجوائی تھی۔ دو ضخیم جِلدوں پر مشتمل اس گہر بار کتاب کا عنوان ہے :"میرِ کارواں۔" اور ذیلی عنوان ہے : " اپنی قوم سے بڑے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کی داستانِ حیات، جو 14اگست 1947 کو دُنیا کے نقشے پر اُبھرنے والی قوم کی ولولہ انگیز سرگزشت بھی ہے۔"
کتاب بھی ایک عظیم ولولے اور سچے جذبے سے لکھی گئی ہے۔ مَیں سمجھتا ہُوں کہ قائد اعظم کے اس یومِ ولادت کے موقع پر یہ تصنیف پاکستانی قوم کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ میری ذاتی لائبریری میں بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم کی حیات اور کارناموں پر لکھی گئی انگریزی اور اُردو کی تین کتابیں اپنی اپنی بہار دکھا رہی ہیں لیکن "میرِ کارواں " ان سب پر فوقیت رکھتی ہے۔ عظیم قائد کی زندگی کا غالباً کوئی ایسا گوشہ باقی نہیں بچا ہے جس کے بارے میں مصنف نے قلم نہ اُٹھایا ہو۔"میرِ کارواں " کا مطالعہ مگر آسان نہیں ہے۔ بڑی تقطیع پر شایع اس کی پہلی جِلد 810صفحات اور دوسری جِلد1667صفحات پر مشتمل ہے۔
کتاب کی وسعت اور عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا اشاریہ 93صفحات پر پھیلا ہُوا ہے اور کتابیات کی فہرست 9صفحات کو محیط ہے۔ اور یوں مصنف نے قارئین اور محققین کے لیے، ایک لحاظ سے، بہت سی آسانیاں بھی پیدا کر دی ہیں کہ قائد اعظم، غیر منقسم ہندوستان کے سیاستدانوں، علمائے کرام، شہروں اور مشہور واقعات کو فوری تلاش کرنا اور اُن کا حوالہ ڈھونڈنا چنداں مشکل نہیں رہا۔"میرِ کارواں " کی دونوں جِلدیں 82ابواب میں تقسیم کی گئی ہیں۔ کئی ابواب تو اتنی تفصیل، جزئیات اور بارک بینی کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں کہ اپنی جگہ پر یہ خود ایک ایک علیحدہ کتاب بن سکتے ہیں۔
پچھلے دو ماہ کے دوران "میرِ کارواں " مسلسل میرے زیرِ مطالعہ رہی ہے۔ راقم نے اِسے نہایت سرشاری کے عالم میں پڑھا ہے۔ قابلِ احترام مصنف، میاں محمد افضل، نے قائد اعظم سے منسوب ہر واقعہ کو لکھتے ہُوئے نہایت احتیاط اور صحت کے ساتھ مستند حوالہ دیا ہے۔ شائد یہ اِسی غیر معمولی احتیاط کا نتیجہ تھا کہ "میرِ کارواں " کی تکمیل میں سات سال کا طویل عرصہ لگ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مجھے یہ کتاب عنائت کی گئی، اُن دنوں سکھوں کے لیے کرتارپور کوریڈور (نارووال) کھولے جانے کا بڑا غلغلہ تھا۔
"میرِ کارواں " ملتے ہی راقم نے سب سے پہلے یہ دیکھا کہ آیا اس میں قائد اعظم سے متحدہ ہندوستان کے سکھوں سے تعلقات، کسی بات چیت، اور 1947ء سے قبل سکھ قیادت کی قائد اعظم سے ملاقاتوں کا کوئی احوال درج کیا گیا ہے یا نہیں؟ اور یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہُوئی کہ مصنف نے "میرِ کارواں " کی جِلد دوم میں صفحہ 869پر اس موضوع پر منفرد باب باندھا ہے اور اِسے " قائد کا ایک اور پنجاب مشن:سکھ لیڈروں کو حقائق سمجھانے کی کوشش" کا عنوان دیا ہے۔ جو لوگ بھی آج کرتار پور کوریڈور کے پیش منظر میں عالمی سکھ کمیونٹی اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی تفہیم چاہتے ہیں، اُن کے لیے لازم ہے کہ "میرکارواں " کا یہ باب اپنی اولین فرصت میں مطالعہ کریں۔ افسوس کی بات ہے کہ سکھوں نے قائد اعظم کی مخلصانہ باتوں کو ماننے سے انکار کر دیا اور آج تک پچھتا رہے ہیں۔
راقم نے لندن میں "ہیمپ اسٹیڈ" کے پوش اور مہنگے علاقے میں وہ خاص جگہ بھی دیکھ رکھی ہے جہاں قائد اعظم نے ہندوستان کی سیاست سے دلبرداشتہ ہو کر جلاوطنی (1931تا 1934) اختیار کر لی تھی اور ایک محل نما (آٹھ ایکڑ پر محیط) مکان بھی خرید لیا تھا۔ اس عالیشان گھر کے نزدیک ہی قائد نے اپنی اکلوتی صاحبزادی (دینا) کو اقامتی اسکول میں داخل کروادیا تھا۔ یہ سوال ذہن میں اُٹھتا رہا ہے کہ قائد نے کن حالات میں اور کن وجوہ کی بنا پر سخت مایوسی اور افسردگی کے عالم میں یہ جلاوطنی اختیار کی تھی؟
اور پھر کن کن شخصیات کے اصرار اور کن واقعات کے ظہور پذیر ہونے پر آپ واپس ہندوستان تشریف لائے اور اسلامیانِ ہند کی ڈوبتی کشتی کو بچا لیا؟ اس سوال کا اطمینان بخش اور تفصیلی جواب "میر کارواں " میں (صفحہ317پر باب میں ) ملتاہے۔ خصوصی بات یہ بھی بتائی ہے کہ قائد کی واپسی میں عظیم روحانی اشارے بھی شامل تھے۔ کتاب میں مندرج ان روحانی اشاروں کی تفصیل پڑھ کرروح سرشار ہو جاتی ہے۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم مزید عظیم محسوس ہوتے ہیں۔
اکیلے قائد اعظم نے تنِ تنہا انگریز سامراج اور ہندو ؤں کی شکل میں جس کھلے اور خفی دشمنوں سے جنگ کرکے پاکستان حاصل کیا، اس منفرد اور مشکل جنگ کا احوال پڑھ کر اظہارِ تشکر کے طور پر آنکھیں اشکوں سے بھر جاتی ہیں۔"جناح اور گاندھی" کا موازنہ بھی خوب کیا گیا ہے اور مولانا ابو الکلام آزاد سمیت متحدہ ہندوستان کے اُن تمام مسلمان علما کا بھی مستند حوالوں کے ساتھ ذکر کرتے ہُوئے کئی چہرے بے نقاب کر دیے گئے ہیں جنھوں نے قائد اعظم اور پاکستان کی تو سخت مخالفت کی تھی لیکن کانگریس اور نہرو و گاندھی کا ساتھ دیا تھا (صفحہ 768)قائد ہی مگر اللہ کے فضل سے سب کے مقابل سرخرو ہُوئے۔
ہر صفحے پر مصنف نے قائد کے بلند کردار اور اپنی منزل (پاکستان) سے کمٹمنٹ کی روح پرور کہانیاں سنائی ہیں جنھیں پڑھ کر دل میں یہ احساس گہرا ہوتا ہے کہ پاکستان حاصل کرنا کسقدر دشوار تھا۔ اور(صفحہ 1255پر) یہ المناک کہانی بھی لکھی ہے کہ جونا گڑھ، حیدر آباد اور کشمیر کیوں پاکستان میں شامل نہ ہو سکے۔"میر کارواں " کے مصنف نے حقائق لکھنے کے ساتھ قائد اعظم پر کیچڑ اچھالنے والوں کا اسناد کے ساتھ استرداد بھی کیا ہے۔ قائد اعظم کی زندگی میں مذہب اور عقیدہ کتنا اہم تھا، یہ باب (صفحہ 1526) تو نہایت ایمان افروز بھی ہے۔ ایک عظیم انسان پر لکھی گئی ایک عظیم کتاب کا تعارف ایک کالم میں ممکن نہیں ہے۔ اسے شایع کرنے کا اعزاز لاہور کے "الفیصل" پبلشر کو حاصل ہُوا ہے۔