"آئیے بھئی، نماز کے واسطے!"ظہر کا وقت ہے اوردفتر کی راہداری میں ایک آواز گونج رہی ہے۔ ابھی ابھی آفس لائبریری میں کسی نے اذان دی ہے۔ پھر ایک دراز قامت شخص، پاؤں میں ہوائی چپل پہنے، کوریڈور میں چلتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایک ایک کمرے میں جھانکتا جاتا ہے اور ذرا بلندآواز سے کہتا سنائی دیتا ہے:" آئیے بھئی، نماز کے واسطے۔" ہم سب اپنے اپنے کمروں سے اُٹھتے ہیں۔
دفتر کے اندر ہی دو سادہ سے واش رومز ہیں اور ساتھ ہی وضو کرنے کے لیے علیحدہ سے 3 ٹونٹیاں نصب ہیں۔ ہم وہیں وضو کرتے ہیں۔ پھر دفتر کی لائبریری میں دو صفیں بچھا دی جاتی ہیں اور حاجی صاحب امامت کرواتے ہیں۔ جماعت کروانے حاجی صاحب، ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی صاحب ہیں جو دفتر کے اکاؤنٹنٹ بھی ہیں۔
"آئیے بھئی، نماز کے واسطے۔" یہ آواز ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کی ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ آواز اب بھی میرے کانوں میں بازگشت بن کر گونج رہی ہے اور آنکھوں کے سامنے اُن کی شخصیت پوری طرح استوار ہے۔
نہیں معلوم کیسے اُردو ڈائجسٹ سے وابستگی عمل میں آئی تھی لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب نے میرا انٹرویو کیا تو پہلا سوال یہ تھا: مولانا مودودیؒ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ اُن کی کوئی کتاب پڑھی ہے؟ دوسرا سوال تھا: کبھی ریڈرز ڈائجسٹ، اکانومسٹ اور ٹائم میگزین بھی نظروں سے گزرا ہے؟ پھر اُنہوں نے مجھے "نیوز ویک" کے تازہ شمارے کا ایک پیراگراف ترجمہ کرنے کو دیا۔ چند منٹ میں ترجمہ اُن کی خدمت میں پیش کیا۔ بڑے انہماک سے ملاحظہ کیا، مسکرائے اور فرمایا:" برخوردار، خوب ہے۔" پھر اُنہوں نے گھنٹی دی۔ سرفراز نامی ملازم آیا تو دو کپ چائے منگوائی۔ ایک کپ میرے سامنے رکھا اور چند منٹ بعد مجھے ایک چھوٹے سے کمرے تک پہنچا دیا جہاں دو کرسیاں بچھی تھیں۔
یوں جناب الطاف حسن قریشی مدیر مسؤل اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب مدیر منتظم کی زیر نگرانی" اُردو ڈائجسٹ" سے ہماری محبت اور وابستگی کا باقاعدہ آغاز ہُوا۔ ڈاکٹر صاحب نے اولین ملاقات میں جس لہجے اور اسلوب میں مجھ سے مرشد سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں استفسار کیا تھا۔ اِسی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ادارہ اور اس کے مدیران کی سوچ اور پالیسی کیا ہے؟ لاریب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی نے سید مودودی ؒ کی شخصیت اور اُن کے افکار کو ٹوٹ کر چاہا۔ اُ
ردو ڈائجسٹ کے دفتر میں ایک رجسٹر رکھا ہوتا تھا۔ اس میں ہر ماہ شائع ہونے والے مضامین کا باقاعدہ اندراج کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی شخص یہ ضخیم رجسٹر ملاحظہ کرے تو وہ پائے گا کہ اُردو ڈائجسٹ میں کتنی بار مولانا مودودیؒ پر مختلف جہتوں سے مضامین شائع ہُوئے ہیں۔ اُردو ڈائجسٹ کو اگر متحدہ پاکستان کے سب سے بڑے اور معتبر ترین ڈائجسٹ بننے کا اعزاز ملا تو یہ اس میں جہاں الطاف حسن قریشی صاحب کی قلمی مہمات کو بنیادی کردار حاصل ہے، وہیں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کی انتظامی صلاحیتوں اور ادارے کے لیے سخت محنت نے اساسی کردار ادا کیا۔
کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ادارے کو ڈسپلن اور کمٹمنٹ کی نعمتوں سے سرفراز کیا اور اس میں کماحقہ کامیاب بھی ہُوئے۔ ایک دَور ایسا بھی آیا تھا جب اُردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے تاریخ ساز اور معرکہ آرا انٹرویوز اور الطاف حسن قریشی کے مفصل تجزیے ہماری روزنامہ صحافت پر بھی اثر انداز ہوتے۔ کئی حکمرانوں سے الطاف حسن قریشی کا تاریخی تصادم ہُوا اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی و الطاف حسن قریشی کو جیلوں کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ اگر ہم الطاف حسن قریشی کے دو درجن انٹرویوز کا مجموعہ " ملاقاتیں کیا کیا" ملاحظہ کریں تو ان تصادموں کا احوالِ واقعی سامنے آتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جب بھی اُردو ڈائجسٹ پر حکومتی نزلہ گرا، ڈاکٹر صاحب نے اسے سنبھالا دیے رکھا اور ادارے کو ڈوبنے سے بچایا۔ یہی اُن کی سب سے بڑی انتظامی صلاحیت تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ذوق و شوق سے، چُن چُن کر، کئی قابلِ احترام اہلِ قلم ایک کہکشاں کی صورت اکٹھے کر رکھے تھے، ان نامور ادیبوں کے توسط سے قارئینِ کو بہترین تحریریں بھی پڑھنے کو مل سکیں۔ مثال کے طور پر اخلاق احمد دہلوی، رحمن مذنب، یزدانی جالندھری، ڈاکٹر اقتدا حسن، مقبول جہانگیر، آباد شاہ پوری، ستار طاہر وغیرہ۔ الحمد للہ، مجھے بھی ان عظیم شخصیات کے پاس بیٹھنے کے متعدد مواقعے ملے۔
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی محنتوں کا ایک اعجاز یہ بھی تھا کہ اُنہوں نے ماہنامہ "اردو ڈائجسٹ" کے بطن سے ہفت روزہ "زندگی" اور پھر روزنامہ "جسارت" بھی برآمد کیا۔ ہفت روزہ "زندگی" نے ہماری سیاسی و صحافتی زندگی پر انمٹ نقوش مرتب کیے۔ اگرچہ "جسارت" کے بھاری اخراجات کے پیشِ نظر یہ بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا گیا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس کی اساس رکھ کر ایک تاریخی کارنامہ تو بہرحال انجام دیا۔ اسلام، پاکستان، بانیانِ پاکستان اور اُردو زبان سے ڈاکٹر صاحب کی محبت و احترام درجہ کمال کو پہنچا تھا۔
ہم تنخواہ لینے حاجی صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے تو ڈاکٹر صاحب اصرار کرتے کہ ہم سب تنخواہ وصولی کے رجسٹر پر اردو میں دستخط کریں۔ یہ عادت اس قدر پختہ ہو گئی تھی کہ بعدازاں مجھے انگریزی میں سائن کرتے وقت جھجک بھی ہوتی اور دقت بھی۔ کبھی کسی قاری کی جانب سے خط آتا کہ اس بار اُردو ڈائجسٹ میں پروف کی فلاں فلاں غلطیاں رہ گئی ہیں تو خط ہمیں دکھاتے اور ناراضی کا اظہار کرتے۔ کہتے: "پروف کی غلطیاں پرچے کو بے وقار کر دیتی ہیں۔ بھئی، احتیاط کیا کریں۔" پھر سخت لہجے میں فرماتے:"کبھی ریڈرز ڈائجسٹ میں بھی پروف کی غلطیاں دیکھی ہیں؟ "۔ ریڈرز ڈائجسٹ ساری عمر اُن کا آئیڈیل رہا۔
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب 92 سال کی عمر میں اپنے خالق و مالک کے پاس پہنچ گئے۔ بوقتِ مراجعت اُن کی روح خوش بھی ہو گی اور مطمئن بھی کہ مقدور بھر دینِ اسلام، وطنِ عزیز اور مخلوقِ خدا کی خدمت میں زندگی بتا دی۔ اُن کی تعمیری شخصیت کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے عظیم بھائی اور قریبی دوستوں کی اعانت سے "ادارہ امورِ پاکستان" (PINA) ایسے تھنک ٹینک کی بنیاد بھی رکھی اور 17 سال پہلے "کاروانِ علم فاؤنڈیشن" نامی این جی او بھی بنائی۔"کاروانِ علم فاؤنڈیشن" کے تحت اب تک اگر ہزاروں نہیں تو کم از کم سیکڑوں نادار لیکن مستحق اور لائق طلبا و طالبات میڈیکل، انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ قوم و ملک کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانوں کی بھی احسن انداز میں کفالت کر رہے ہیں۔ قوم کے بچوں کی یہ بے لوث خدمت یقناً ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کی مغفرت کا باعث بنے گی۔ انشاء اللہ۔