Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Modi Ke Khilaf Bangladeshi Awam Ki Fatah

Modi Ke Khilaf Bangladeshi Awam Ki Fatah

بنگلہ دیش کی مقتدر پارٹی، عوامی لیگ، اور وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، نے پچھلے سال ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ 2020ء کو "مجیب بورشو" یا " مجیب سال"کے طور پر منایا جائے گا۔ ہم پاکستانیوں کو بوجوہ شیخ مجیب الرحمن کو "بانگا بندھو" یا " بانی بنگلہ دیش " کہتے ہُوئے شائد اچھا تو نہیں لگتا لیکن اب یہ زمینی حقیقت ہے کہ شیخ مجیب الرحمن ہی سرکاری طور پر "بابائے بنگلہ دیش" پر یاد کیے اور تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ماننے یا تسلیم نہ کرنے سے کیا ہوتاہے؟ بنگلہ دیش کی 20کروڑ سے زائد آبادی شیخ مجیب مرحوم ہی کو "فادر آف دی نیشن" کہتی اور اُن کا احترام و اکرام کرتی ہے۔ پاکستان بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کرتا ہے۔

اس کے ساتھ ہمارے سرکاری اور سفارتی تعلقات ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم، محترمہ شیخ حسینہ واجد، کی نگرانی اور سربراہی میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ 17مارچ 2020ء سے 26مارچ 2021ء تک بنگلہ دیش بھر میں پوری شان و شوکت سے Mujeeb Year منایا جائے گا۔ تقریبات، جن میں کئی عالمی شخصیات بھی مدعو کی جارہی ہیں، کے انعقاد کے لیے کئی کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کو ان تقریبات میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت میں دعوت دی گئی کہ مودی جی، حسینہ واجد کے باعتماد دوستوں اور "محسنوں " میں شمار کیے جاتے ہیں۔

اسے مگر مودی جی کی بدقسمتی کہئے کہ لاکھوں بنگلہ دیشیوں نے بیک زبان اور یکمشت ہو کر ڈھاکا اور دیگر بنگلہ دیشی شہروں میں بھارتی وزیر اعظم کے خلاف زبردست مظاہرے کیے ہیں کہ مودی جی کے بنگلہ دیش آتے آتے قدم رک گئے ہیں۔ نریندر مودی نے17مارچ 2020ء کو ڈھاکا پہنچ کر شہر کے سب سے بڑے میدان میں ایک تقریب سے خطاب کرنا تھا اور پانی کے دو اہم معاہدوں پر دستخط بھی کرنا تھے لیکن اب یہ سب کچھ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ بنگلہ دیش سرکار کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مودی جی کو دیا گیا یہ دعوت نامہ "کورونا وائرس" کی مہلک وبا کے پیشِ نظر ملتوی کیا گیا ہے۔

حقیقت مگر اس کے برعکس ہے۔ اس التوا کے عقب میں دراصل وہ خطرناک وائرس کارفرما ہے جو بھارتی وزیر اعظم نے بھارتی مسلمانوں کے خلاف پھیلا رکھا ہے۔ یہ نفرت اور مسلم دشمنی کا وائرس ہے۔ عناد بھرے اس مخصوص وائرس نے دہلی میں آگ اورخون کا ایسا طوفان برپا کیا ہے جس نے بھارتی دارالحکومت میں درجنوں بیگناہ مسلمانوں کی جانیں ہڑپ کر لی ہیں۔ مسلمانوں کی کئی لاشیں اب بھی دہلی کے گندے نالوں سے نکالی جارہی ہیں۔ اِسی ظلم و جَور کے خلاف بنگلہ دیشی مسلمان غصے اور احتجاج میں بپھرے ہُوئے ہیں۔

احتجاج کرتے ہُوئے مشتعل بنگلہ دیشیوں نے حسینہ واجد کی حکومت سے پُر زور مطالبہ کیا کہ بھارتی مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے اور بھارت بھر میں پھیلے کروڑوں مسلمانوں کے شہری حقوق سے کھلواڑ کرنے والے مودی کو بنگلہ دیش آنے کا دعوت نامہ منسوخ کیا جائے۔ حسینہ صاحبہ کی حکومت مگر بضد تھی کہ حالات جو بھی ہو جائیں، مودی جی ہر صورت میں 17مارچ کو "بانگا بندھو" کی 100ویں سالگرہ کی تقریب میں شریک ہوں گے اور قوم سے خطاب بھی کریں گے۔ ب

بھارتی مسلمانوں سے یکجہتی کی خاطر بنگلہ دیشی مسلمان بھی ڈٹ گئے۔ بنگلادیش کی42مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے وابستگان لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے کرتے ہُوئے باہر نکلے اور کہا کہ ان حالات میں جب کہ معصوم بھارتی مسلمانوں کا خون مودی اور اُن کی پارٹی کی ہتھیلیوں پر جما ہے، نریندر مودی نے ڈھاکا میں قدم رکھا تو ڈھاکا ایئر پورٹ پر قبضہ کر لیں گے۔ کوئی تقریب ہونے دیں گے نہ اُن کا خطاب۔ حسینہ واجد اگرچہ خاصی مضبوط حکمران ہیں۔ ضدی بھی ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے لاکھوں ووٹ لے کر تیسری بار وزیر اعظم بنی ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کے خلاف تازہ عوامی احتجاج کے سامنے مگر انھوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اب مودی جی 17مارچ کو شیخ مجیب کی 100ویں سالگرہ کی تقریب میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ یہ دراصل بنگلہ دیش عوام کی فتح ہے۔

شیخ مجیب الرحمن کی 100ویں سالگرہ وسیع پیمانے پر اور بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہُوئے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، کی بھرپور کوشش ہے کہ اس بہانے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کی جائے۔ اُن کی راہ میں مگر بہت سی دیگر بنگلہ دیشی مذہبی اور سیاسی جماعتیں مزاحم ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) ان میں نمایاں ترین مقام رکھتی ہے۔

بنگلہ دیش کی "جماعتِ اسلامی" کی راہیں روکنے کے بعد حسینہ واجد صاحبہ کی یہ بھی کوشش ہے کہ "بی این پی" کا بھی کامل خاتمہ کر دیا جائے۔ وہ اس پارٹی کی سربراہ، خالدہ ضیاء، کو بدعنوانیوں کے کئی مقدمات میں بُری طرح پھنسا چکی ہیں۔ خالدہ کو چند مقدمات میں عدالتیں سزائیں بھی سنا چکی ہیں۔ بنگلہ دیش کے قومی انتخابات میں حسینہ واجد نے اپنی اس واحد بڑی سیاسی حریف پارٹی کو بُری طرح شکست بھی دی۔ آج بنگلہ دیش پارلیمنٹ پر شیخ حسینہ واجد کا اکثریتی غلبہ ہے۔ انھیں سیاسی میدان میں پوری طاقت سے چیلنج کرنے والوں کی تعداد کم کم ہے لیکن سیاسی کم مائیگی اور کمزوری کے باوجود"بی این پی"کی بچی کھچی قیادت نئے انداز میں حکمران جماعت کے خلاف مزاحمت کرنے پر آمادہ ہے۔

وہ شیخ مجیب الرحمن کی 100ویں سالگرہ کی تقریبات کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوششیں بھی کررہی ہے۔ مثال کے طور پر : بی این پی کے سیکریٹری جنرل، مرزا فخر الاسلام عالمگیر، نے مجیب الرحمن کی شخصیت اور" عظمت "اجاگر کرنے کی ان مہنگی تقریبات کے مواقع پر کھل کر کہا ہے :" کوئی ایک جماعت یا گروہ یا شخصیت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اُس نے اکیلے ہی بنگلہ دیش آزاد کرایا تھا۔ ہم سب نے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے اجتماعی جدوجہد کی اور جنگ لڑی ہے۔ رواں برس کو "مجیب بو رشو" (مجیب کا سال)قرار دینا عجب مذاق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالدہ ضیاء نے بنگلہ دیش کی آزادی، ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے اور آمریت کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد کی ہے۔ انھیں بنگلہ دیش کی آزادی کے موقع پر جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ اور یہ محترمہ حسینہ واجد اُس وقت کہاں تھیں، ہم سب جانتے ہیں۔" وزیر اعظم حسینہ واجد اس پر طیش میں ہیں، اس لیے انھوں نے زیر علاج قیدی خالدہ ضیا پر مزید سختیاں شروع کر دی ہیں۔

مودی نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے بھارتی مسلمانوں کے خلاف جس نفرت کو ہوا دی ہے، اب خود بھی نفرت ہی سمیٹ رہے ہیں۔ بھارتی ریاست، منی پور، کی آٹھ سالہ بہادر بچی ( لیسی پریا ) نے مودی کی انسان دشمنی کی بنیاد پر اُن کا دیا گیا ایوارڈ ٹھکرا دیا ہے۔ اس سے زیادہ مودی کی توہین اور کیا ہوگی؟ بنگلہ دیش سے متصل بھارتی ریاستوں ( آسام، میزورام، تری پورہ ) میں لاکھوں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر بھارت نے جو ظلم شروع کررکھا ہے، بنگلہ دیش میں اِس کے خلاف بھی سخت طیش پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر: بنگلہ دیش پارلیمنٹ کی اسپیکر ( شیریں شرمین چوہدری) کو 18 بنگلہ دیشی ارکانِ اسمبلی کے ساتھ بھارتی لوک سبھا کے اسپیکر، اوم برلا، نے دَورے کی دعوت دے رکھی تھی لیکن مودی کی تازہ مسلمان دشمنی کے پیشِ نظر شیریں شرمین نے اس دَورے کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مودی جی نے، مسلمان دشمنی کے کارن، بنگلہ دیش کی شکل میں اپنے ایک" معتمد" دوست ملک کو بھی کھو دیا ہے۔