خیال یہ تھا کہ شیخ حسینہ واجدخاموش رہیں گی اور وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نئے وضع کردہ امتیازی قوانین (NPR۔ NRC۔ CAA)کے خلاف لب کشائی نہیں کریں گی۔ یہ قوانین مگر اتنے مسلم کش ہیں کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم بھی بالآخر بول پڑی ہیں۔
مذکورہ قوانین میں بھارتی دَلتوں اور مسیحیوں کے ساتھ مسلمانوں کو بالخصوص ہدف بنایا گیا ہے۔ بھارت بھر میں ان کے خلاف مسلمان ہی احتجاجی مظاہرے نہیں کررہے، غیر مسلم حکومت کے خلاف پرچم اُٹھائے نظر آ رہے ہیں۔ بظاہر تو مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُن تمام مسلمانوں کو بھارتی شہریت نہیں دی جائے گی جو پچھلے کچھ برسوں سے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے نکل کر بھارت آ بسے ہیں لیکن مودی حکومت بباطن اس کے برعکس نیت رکھتی ہے۔ اس نیت کو بھانپ لیا گیا ہے؛ چنانچہ کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد اب بنگلہ دیشی وزیر اعظم محترمہ حسینہ واجد (جوہمیشہ نریندر مودی کو اپنا اور بنگلہ دیش کا "محسن" قرار دیتی ہیں )بھی ان کے خلاف بول اُٹھی ہیں۔
انھوں نے "گلف نیوز" کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے :" ہم نے بھارت کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی ہے۔ بھارت سرکار نے مگر یہ امتیازی قوانین بنا کر ایک غیر ضروری اقدام کیا ہے۔ ایک نامناسب اقدام۔ مَیں جب اکتوبر2019 میں بھارت کے سرکاری دَورے پر گئی تھی تو مجھے مودی جی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان قوانین سے بنگلہ دیش متاثر نہیں ہوگا مگر اب صورتحال مختلف ہے۔"حسینہ واجد نے محتاط لہجے میں اور شائستگی سے نئے بھارتی امتیازی قوانین پر تنقید کی ہے مگر بھارت کو یہ تنقید بھی پسند نہیں آئی ہے۔
نریندر مودی نے مذہب کی اساس پر یہ جو امتیازی قوانین وضع کیے ہیں، ان سے بھارتی سیکولرازم کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔ شائد یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان قوانین نے بھارتی سیکولر چہرہ مسخ کردیا ہے۔ بھارتی تعلیمی اداروں میں بھی طلبا نے ان قوانین کے خلاف بغاوت اور نامنظوری کے جھنڈے اُٹھا رکھے ہیں۔ خصوصاً دہلی کی "جے این یو" اور "جامعہ ملیہ" اس بغاوت کا گڑھ سمجھی جا رہی ہیں۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ان احتجاج کناں طلباو طالبات پر ہرقسم کا تشدد کرکے دیکھ لیا ہے لیکن اسٹوڈنٹس نے پسپا ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ عزم دیکھ کر کئی بھارتی ریاستوں نے اپنی صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت کے ساتھ مودی کے ان انسانیت دشمن قوانین کے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں۔
بھارتی ریاست کیرالہ، جو بھارت کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ صوبہ کہلاتا ہے، نے اس سلسلے میں پہل کی۔ کیرالہ اسمبلی نے( NPR۔ NRC۔ CAA) کے خلاف قرار داد منظور کرکے مودی کو چیلنج کیا ہے۔ مغربی بنگال کی مشہور وزیر اعلیٰ، ممتا بینرجی، ان قوانین کے خلاف کئی احتجاجی جلوسوں کی قیادت کر چکی ہیں۔ انھوں نے اسمبلی میں ان کے خلاف قرار داد بھی منظور کر لی ہے۔ بھارتی(مشرقی) پنجاب کی اسمبلی بھی ان قوانین کو مسترد کرتے ہُوئے ریزولیوشن پاس کر چکی ہے۔ مشرقی پنجاب قرار داد منظور کرتے ہُوئے ان قوانین کو "انسانیت دشمن، بنیادی حقوق پر ڈاکہ، بھارت دشمن اور گاندھی و نہرو کے آدرشوں " کے خلاف اعلان کر چکاہے۔
قرار داد منظور کرتے ہُوئے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، کیپٹن امریندر سنگھ، نے یادگار الفاظ یوں کہے :"مودی جی اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے ملک کا سیکولر چہرہ غائب کر دینا چاہتے ہیں۔ بھارت کا تاریخی بھائی چارہ بوجوہ ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔" مشرقی پنجاب اور کیرالہ کے وزرائے اعلیٰ ان قوانین کے خلاف بھارتی عدالتِ عظمیٰ میں کیس بھی دائر کر چکے ہیں۔
پانچ دیگر بھارتی ریاستیں بھی ان قوانین کے خلاف قراردادیں منظور کرنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔ ممتاز بھارتی قانون دان، پرشنت بھوشن، نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ایک غیر معمولی بات کہی ہے : "یہ قوانین ختم نہ کیے گئے اور ان کے خلاف متحدہ آواز بلند نہ کی گئی تو بھارتی سیکولرازم کا تشخص تو تباہ ہوگا ہی، ہندوستان کی بنیادیں بھی مسمار ہو جائیں گی۔" اس ماحول میں اداکارہ، دپیکا پیڈوکون، انڈین یونیورسٹی ( جے این یو) میں خود جا کر امتیازی قوانین کے خلاف احتجاجی طلبا و طالبات سے یکجہتی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں تو مذکورہ قوانین کے خلاف نفرت اور ناپسندیدگی کی پھیلتی لہر کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔ ویسے "جے این یو" کے احتجاجی طلبا و طالبات سے مودی حکومت اور بی جے پی قیادت سخت نالاں ہے۔
جے این یو کے ایک مشہور مسلمان طالبعلم رہنما (شرجیل امام) کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی قائم کیا گیا ہے۔ جے این یو کے چانسلر وی کے سرسوت ( جو مقتدر بی جے پی کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں ) نے کہا ہے :"جے این یو کے یہ احتجاجی طلبا حکومتی فنڈز پر کیمپس میں عیاشیاں کرتے ہیں لیکن حکومت کے خلاف متھا لگائے ہُوئے ہیں۔ جی چاہتا ہے راتوں رات سب کو جامعہ سے نکال باہر کروں۔" ایسا کرنا مگر اُن کے لیے ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ روز انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں پانچ چھ مہینوں سے انٹر نیٹ بند کرنے کے ایک سوال پر کہا: " کیا ضرورت ہے کشمیر میں ا نٹرنیٹ سروس بحال کرنے کی؟ وہاں کے لوگ انٹرنیٹ پر گندی فلمیں دیکھنے کے علاوہ اور کرتے ہی کیا ہیں؟ "۔ شائد اِسے ہی دریدہ دہنی کہتے ہیں۔
مودی سرکارمیں ایسی دریدہ دہنی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ خاص طور پر بھارتی اور مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں کے خلاف۔ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف (اور سابق انڈین آرمی چیف) جنرل بپن راوت نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف تعصب کی انتہا کر ڈالی ہے۔ بپن راوت نے نئی دہلی میں ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا ہے :" کشمیر میں دس، بارہ سال کے لڑکوں اور لڑکیوں میں بھی انتہا پسندی (ریڈیکلائزیشن) کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ یہ بھارتی سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ ان کشمیری بچوں کو رفتہ رفتہ اُن کے خاندانوں سے جدا کر کے انھیں خصوصی کیمپوں میں رکھا جائے۔
ایسے مخصوص کیمپ تو پہلے ہی بھارت کے مختلف علاقوں میں موجود بھی ہیں اور اپنے کام بھی کررہے ہیں۔" اس بیان سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت بھی مقبوضہ کشمیر کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے اور کشمیر بارے اُن کے آیندہ عزائم کیا ہیں۔ بھارتی اخبار "دی ہندو" نے فوراً اس کا نوٹس لیتے ہُوئے بھارتی جرنیل کی گوشمالی کرتے ہُوئے اپنے ادارئیے میں یوں لکھا: " جنرل بپن راوت کو سیاست کا شوق چرا رہا ہے۔ باز آجائیں۔ انھوں نے کشمیری بچوں کو والدین سے جدا کرکے کیمپوں میں رکھنے کی بات کس بنیاد پر اور کیوں کی ہے؟ جنرل بپن راوت یہ بھی بتائیں کہ ملک میں پہلے سے کام کرنے والے کیمپ کہاں کہاں ہیں اور وہاں رکھے گئے بچوں کو کہاں سے لا کررکھا گیا ہے اور کس قانون کے تحت؟ "۔ ان سوالات پر بھارتی جنرل کو پسّو پڑ گئے ہیں!!