دُنیا بھر کے طبّی ماہرین کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ چین میں اچانک پھوٹ پڑنے والی اس ہلاکت خیز وبا کا فوری علاج کیا ہے؟ اس وبا کو "نوول کورونا وائرس" کا نام دیا جا رہا ہے۔ چینی علاقے "ووہان" کے مرکز سے ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑنے والی اس وبا کی ہلاکت خیزیاں جاری ہیں۔ یہ مہلک وائرس اب تک 750 کے قریب انسانوں کی زندگیاں نگل چکا ہے۔ جو متاثر ہو چکے ہیں، اُن کی تعداد 34 ہزار سے متجاوز بتائی جاتی ہے۔ نزلہ، زکام اور بخار کی شکل میں حملہ آور ہونے والے اس وائرس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ یہ چمگادڑ اور سانپوں کے ذریعے انسانوں کو لاحق ہُوا ہے کہ چینی یہ دونوں جانور شوق سے کھاتے ہیں۔ اور کوئی یہ کہتا ہے کہ مچھلیوں اور مرغیوں کی مارکیٹ سے اس وائرس نے جنم لیا۔ یہ ہوائی بھی اُڑائی گئی ہے کہ امریکا نے دَم بہ دَم طاقتور ہوتی چینی معیشت پر گہری ضرب لگانے کے لیے یہ وائرس تخلیق کر کے چین میں چھوڑا ہے۔ یہ ہوائی اُڑانے میں روسی میڈیا پیش پیش ہے۔ خدا ہی جانے اس میں کہاں تک اور کتنی صداقت ہے۔
اقتصادی غلبے کے لیے ویسے امریکا بہادر ہر کام کر گزرنے کی اپنی ایک تاریخ تو بہر حال رکھتا ہے۔ امریکا میں ریڈ انڈینز کی نسلی صفائی سے لے کر مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے امریکی سامراج ظلم و استحصال کی لاتعداد داستانیں رقم کر چکا ہے۔ مبینہ طور پر رُوسی میڈیا کی طرف سے چھوڑے گئے اس فیلر پر یقین نہ بھی کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں سے دُنیا کو ڈرانے اور خوف میں مبتلا کرنے کے لیے امریکی میڈیا نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ اسے "آگہی" کا نام تو دیا گیا ہے لیکن اس "آگہی" کے باطن میں چھپی شرارت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ چین نے سفارتی سطح پر امریکا سے اس شرارت بارے شکوہ بھی کیا ہے۔ یہ شکوہ اتنا بے بنیاد اور بے جا بھی نہیں ہے۔
عالمی سطح پر نوول کورونا وائرس نے خطرے اور خوف کی جو گھنٹیاں بجائی ہیں، اس سے چینی معیشت بُری طرح متاثر ہُوئی ہے۔ چین میں غیر ملکیوں کی سرمایہ کاری کا گراف نیچے گرا ہے۔ باقی باتیں تو رکھیے ایک طرف، ترکی میڈیا نے خبر دی ہے کہ کورونا وائرس سے پھیلے خوف کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار اور صنعت کار چونکہ چین جانے سے گریز کر رہے ہیں، اس لیے ترکی کو ریڈی میڈ کپڑوں کی سلائی کے جو آرڈرز ملے ہیں، ان کی مالیت 2 ارب ڈالر ہے۔ کورونا وائرس نے پاکستان میں بھی خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ یہ غیر فطری بھی نہیں ہے۔ خان صاحب کے حکومتی مشیر برائے صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا، عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں۔
پاکستان میں چین سے 41 پروازیں ہفتہ وار آیا کرتی تھیں۔ ان کے مسافروں کی اسکیننگ اور اسکرنینگ کے انتظامات و انصرامات کی سعی بھی بروئے کار ہے۔ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں چینی انجینئرز کام کر رہے ہیں۔ اُن کی طرف بھی حکومت متوجہ ہے۔ خصوصاً چین میں زیر تعلیم وہ سیکڑوں پاکستانی طلبا و طالبات جو پاکستان آ رہے ہیں یا آنا چاہتے ہیں، قابلِ توجہ ہیں۔ چین ایسا ترقی یافتہ ملک بھی کورونا وائرس کے سامنے بظاہر بے بس نظر آ رہا ہے، اس لیے پاکستان ایسے ملک کو تو اور بھی الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں اور پھیلے خوف کے اس پیش منظر میں بھارتی وزیر خارجہ، جے شنکر، نے بین السطور پاکستان کو پیشکش کی ہے کہ بھارت کے وہ جہاز جو چین میں پھنسے بھارتی شہریوں اور اسٹوڈنٹس کو واپس لا رہے ہیں، ان میں پاکستان طلبا کو بھی ریسکیو کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے پہلے کہ پاکستان کی طرف سے سرکاری سطح پر کوئی جواب دیا جاتا، چین میں پھنسے پاکستانی طلبا نے پہل کرتے ہُوئے بھارت سے کہا ہے کہ اپنی ہمدردی رکھیں اپنے پاس، ہمیں آپکے ریسکیوکی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی بھارت نے سرکاری سطح پر پاکستان کے خلاف جو بے جا مہمات جاری کر رکھی ہیں، ان کے منفی اثرات ہمارے نوجوان طالبعلموں تک بھی جا پہنچے ہیں۔ ہمارے ان طلبا کی طرف سے بھارت کو جواب درحقیقت بھارتی تشدد پسندوں کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔ ہمیں اپنے ان طلبا پر فخر کرنا چاہیے۔
کورونا وائرس کے بارے میں آگہی، احتیاطی تدابیر اور معلومات تو حکومت کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بروئے کار وہ مقامی اور عالمی این جی اوز جو صحت کے میدان میں کام کر رہی ہیں، خاموش ہیں۔ ایسے میں پی آر سی ایس ( پاکستان ہلالِ احمر) کا دَم غنیمت ہے۔ کہنے کو تو پاکستان ہلالِ احمر بھی ایک این جی او ہی ہے لیکن اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس کا چیئرمین حکومتِ پاکستان اور صدرِ مملکت نامزد کرتے ہیں۔ اس کا نیٹ ورک پورے پاکستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلا ہُوا ہے۔ جب بھی پاکستان میں زلزلے اور سیلاب آئے، پی آر سی ایس کے وابستگان فوری طور پر متاثرین تک پہنچے۔ اس نے ڈنگی کے بچاؤ میں بھی شاندار کردار ادا کیا ہے۔ بلڈ ڈونیشنز کے حصول میں تو اسے تخصص حاصل ہے۔ یہ شائد پاکستان کا واحد ادارہ ہے جو خون کے عطیات کو عالمی معیارات کے مطابق محفوظ رکھنے میں بڑا اعتبار رکھتا ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے، ہلالِ احمر پاکستان کا نیٹ ورک گلگت بلتستان میں بھی کام کر رہا ہے۔ اور گلگت کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔ مقامی آبادی کا چین میں اکثر آنا جا رہتا ہے۔ یہاں کے کئی لوگوں نے تو چینی مسلمان خواتین سے شادیاں بھی کر رکھی ہیں۔ گلگت سے متصل چینی سرحد ( درہ خنجراب) سے تجارت بھی جاری رہتی ہے۔
مہلک کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے پیشِ نظر اس علاقے پر خصوصی توجہ دینے کی از بس ضرورت ہے۔ پی آر سی ایس کے کارکنان اور وابستگان اس خدمت میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی مرکزی اور گلگت کی مقامی حکومت کو اس معاملے میں ادارہ مذکور کی اعانت کرنا ہو گی۔ وہ خاص میڈیکل کٹیں جو کورونا وائرس کی تشخیص میں بروئے کار آتی ہیں، ہلالِ احمر پاکستان کے مقامی کارکنوں کو فراہم کی جائیں تو یہ اقدام خاصا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ شنید ہے اس میڈیکل کٹ کی قیمت دو ہزار ڈالر (تقریباتین لاکھ روپے) ہے۔
ایک کٹ سے 50 مریضوں کی تشخیص ہو سکتی ہے۔ جاپان نے بھی کچھ کٹیں پاکستان کو عطیہ کی ہیں۔ اگر ممکن ہو تو ان میں سے کچھ کٹیں گلگت کے متعلقہ سرحدی علاقوں میں پاکستان ہلالِ احمر کے کارکنوں میں تقسیم کر کے کورونا وائرس کے ممکنہ مریضوں کو مزید آگے پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے ہنگامی سطح پر ٹریننگ کی بھی ضرورت ہے۔ گلگت میں بوجوہ تعلیم کم ہونے کے کارن کورونا وائرس سے آگہی بھی کم کم ہے۔ اس آگہی مہم کو تیز تر کرنے کے لیے ادارہ مذکور کی خدمات حاصل کی جانی چاہئیں۔ پی ٹی آئی کے مشہور سیاستدان اور پاکستان کے نامور آرٹسٹ جناب ابرارالحق آجکل پی آر سی ایس کے چیئرمین ہیں۔ انھیں وزیر اعظم جناب عمران خان کا اعتماد اور قرب بھی حاصل ہے۔ وہ اپنی شخصیت اور شہرت کو بروئے کار لا کر نوول کورونا وائرس کے تدارک اور اسے مزید پھیلنے سے روکنے میں نتیجہ خیز کردار ادا کر سکتے ہیں۔