بروز ہفتہ بتاریخ 3اکتوبر2020ء وطنِ عزیز کی سیاست میں دو بڑے واقعات نے جنم لیا (1) لاہور میں مسلم لیگ نون نے اپنے صدر، میاں شہباز شریف، کی قید کے خلاف اور رہائی کے لیے ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا (2) مولانا فضل الرحمن کو پی ڈی ایم (پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ) کا متفقہ صدر منتخب کر لیا گیا۔
دونوں واقعات اپنی اپنی جگہ پر ہماری جاری اور تازہ سیاست میں خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ خاص کر یہ کہ "پی ڈی ایم" میں شامل لبرل، سیکولراور قوم پرست جماعتوں نے بھی سخت مذہبی بیک گراؤنڈ رکھنے والے ایک شخص کو اپنا صدر مان لیا ہے۔
اپوزیشن کی درجن بھر جماعتوں کے حکومت مخالف اتحاد "پی ڈی ایم" کی سربراہی کا تاج حضرت مولانا فضل الرحمن کے سر پر رکھنا کوئی معمولی سیاسی واقعہ نہیں ہے۔ مولانا صاحب گذشتہ کئی برسوں سے جناب عمران خان کی شخصیت اور سیاست کے بارے میں اپنے جن خیالات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اب مولانا صاحب"پی ڈی ایم" کے صدر چُن لیے گئے ہیں تو ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُن کی قیادت میں حکومت، وزیر اعظم اور حکمران جماعت کے خلاف کس نوعیت کا یُدھ پڑ سکتا ہے۔
ابھی گذشتہ ایک ہفتے کے دوران مولانا صاحب کی طرف سے حکومت اور حکومت کے اصل اتحادیوں کے بارے میں جو لہجہ اختیار کیا گیا ہے، اس سے بھی کچھ کچھ اندازہ لگایا جا سکتا کہ رواں مہینے کے دوران "پی ڈی ایم" کی چھتری تلے اور مولانا فضل الرحمن کی صدارت و قیادت میں پاکستان کے تین مختلف بڑے شہروں میں حکومت کے خلاف جو جلسے ہونے جا رہے ہیں، اُن کے اسلوبِ بیان کی شدت و حدت کیا اور کیسی ہوگی؟ اگرچہ جواباً وزیر اعظم صاحب نے بھی مبینہ طور پر اپوزیشن کے اتحاد کو وارننگ دی ہے کہ کسی نے بھی خلافِ قانون قدم اُٹھایا تو مَیں سب کو اندرکر دُوں گا۔ گویا معاملات سلجھنے سلجھانے کے بجائے، فریقین نے اپنی اپنی آستینیں چڑھا لی ہیں۔
قبلہ مولانا فضل الرحمن کے برادرِ خورد، مولانا عطاء الرحمن، اور اُن کے ایک نائب، مولانا عبدالغفور حیدری، اپنے قائد کے نقوشِ قدم پر چلتے ہُوئے رواں ہفتے کے دوران جو "خطرناک" بیان دے چکے ہیں، اُن کی تلخی اور کرواہٹ ہنوز فضا میں موجود ہے۔ ایسے میں ہم قیافہ لگا سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی زیر قیادت "پی ڈی ایم" حکومت کے خلاف کیا شکل اختیار کر سکتی ہے۔
اگر حکومت، حکمرانوں اور اُن کے حلیفوں کو اگلے ڈھائی، پونے تین سال بھی حکومت کے لطف اُٹھانے ہیں تو انھیں مولانا صاحب کی ٹف شخصیت کا مقابلہ بھی حوصلے اور ہمت سے کرنا پڑے گا۔ لاریب حکومت، ملک اور عوام کے لیے مزید مشکل ایام کا طلوع ہونے والا ہے۔ اس کا مگر یہ مطلب نہیں ہے کہ "پی ڈی ایم" کے نئے منتخب صدر، مولانا صاحب، خود آزمائشوں اور امتحانات سے بچے رہیں گے۔ اُن کی اپنی اور اُن کی قیادت و صدارت کی پہلی آزمائش تو11اکتوبر2020ء کو ہونے والی ہے جب کوئٹہ میں "پی ڈی ایم" کا پہلا جلسہ ہوگا۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر اہم شہر مولانا فضل الرحمن صاحب اور اُن کی اپنی جماعت ( جے یو آئی ایف) کے لیے اجنبی اور غیر مانوس نہیں ہیں۔
یہاں جے یو آئی (ایف) کے اپنے مضبوط حلقے موجود ہیں۔ یہیں کے ایک معروف عالمِ دین اور ایک بڑے دینی مدرسے کے مہتمم اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ بنے تھے۔ اور کوئی نہ بھی آئے، فقط اسی مدرسے کے مذکورہ مہتمم صاحب ہی اپنے اساتذہ، دوستوں اور طلبا کے ساتھ آجائیں تو جلسے میں تل دھرنے کو جگہ نہیں رہے گی۔ بلوچستان میں حضرت مولانا کے جماعتی اور سینئر ساتھی کئی بار سابقہ حکومتوں میں شریک رہ چکے ہیں۔ اُن کی جڑیں خاصی گہری بھی ہیں اور اُن کے رسوخ سے انکار بھی ممکن نہیں ہے؛ چنانچہ "پی ڈی ایم" کے خیر خواہوں کو یقین ہے کہ گیارہ اکتوبر کو کوئٹہ کے جلسے میں مولانا صاحب سرخرو ہوں گے۔
اپنی صحافتی زندگی کے دوران مجھے مولانا صاحب کی مجالس میں لاتعداد بار بیٹھنے، اُن کے انٹرویوز کرنے اور اُن کے جمعہ کے خطبات سننے کے کئی مواقع میسر آئے ہیں۔ وہ نرے مُلّا نہیں ہیں۔ تربیت یافتہ باقاعدہ عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ آپ سیاست و اقتدار کے سرد و گرم چشیدہ بھی ہیں۔ ایسے نامور والد گرامی کے فرزند ہیں جو بیک وقت بڑے عالمِ دین بھی تھے، بڑے سیاستدان بھی اور سابق وزیر اعلیٰ بھی۔ یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے والد صاحب، مولانا مفتی محمود صاحب مرحوم و مغفور، اپنے دَور کے سب سے بڑے سیاسی و حکومت مخالف اتحاد ( پی این اے) کی سربراہی کرتے ہُوئے وقت کے حکمران کو شکست دے چکے ہیں۔
یوں مولانا صاحب کی سیاست اور سیاست کاری کے بارے میں، بقول مولانا الطاف حسین حالی، کہا جا سکتا ہے کہ بطخ کے جائے کو تیرنا کون سکھائے؟ وہ تو تیرنے کی تربیت گھر سے لے کر نکلتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کئی بار رکن اسمبلی رہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ نبھایا۔ کشمیر کمیٹی کے کئی بار چیئرمین رہے۔ متحدہ مجلسِ عمل کو اقتدار سے متعارف کروایا۔ گویا وہ اقتدار، ایوانِ اقتدار اور حکومت و سیاست کے داؤ پیچ سے خوب آشنا ہیں۔
ایسا شخص جب "پی ڈی ایم " کا صدر بن کر حکومت کے خلاف باقاعدہ میدانِ عمل میں اُترے گا تو اُس کے مقابل کھڑے ہونے والوں کو شائد اپنی صفیں نئے اسلوب و حکمت کے ساتھ ترتیب دینی پڑیں۔ مولانا صاحب کے سامنے بھی آزمائشیں قطار در قطار کھڑی اُن کے اعصاب کا امتحان لینے کھڑی ہیں۔"پی ڈی ایم" میں شامل گیارہ مختلف مزاج کی حامل جماعتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا سہل نہیں ہے۔ قدم قدم پر اُن کی قیادت کی آزمائش ہونے والی ہے۔ وقت کا مسلسل گردش کرتا ہُوا پہیہ آج مولانا فضل الرحمن کو اُس مقام پر لے آیا ہے جہاں 43برس قبل اُن کے محترم و مکرم والد صاحب کھڑے تھے۔
وطنِ عزیز کی جو حالت ہے، اس کے پیشِ نظر کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ "پی ڈی ایم" کی صورت میں ملک ایک نئے انتشار کا شکار بن جائے۔ ہم سب کے لیے ملک کی سلامتی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ سوال مگر یہ ہے کہ یہ جو دو، سوا دو سال گزرے ہیں، ان سے ملک کے اکثریتی غریب اور متوسط طبقے کو کیا ملا ہے؟ حکمرانوں کی طرف سے کیے گئے وعدوں میں سے کتنے وعدے وفا ہُوئے ہیں؟ غربت، بے روزگاری اور ذلّت کی شرح میں کمی ہُوئی ہے یا اضافہ؟ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ ایام کے دوران جو ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے، غریب مریض دوائی خریدنے کے بجائے اب موت کو گلے لگانا پسند کریں گے۔
جان بچانے والی ادویات میں چار چار، پانچ پانچ سو گنا اضافہ کر دیا گیا لیکن حکمرانوں نے غریب عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے دوا ساز سرمایہ داروں اور مہنگی ادویات کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہونے کو ترجیح دی ہے۔ ایسے میں نون لیگ نے ہفتیکو لاہور میں اپنے لیڈر، شہباز شریف، کی جیل بندی کے خلاف احتجاج کیا ہے تو عوام اُمنڈ کر آئے۔ اس تازہ جلسے میں مقررین نے جو لہجہ اختیار کیا ہے، اُس کے بین السطور کو سُننے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر روز غربت اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ کرنے والوں نے غریب کی کرلاتی آواز پر کان نہ دھرا تو "پی ڈی ایم" کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ یاد رکھ لیا جائے!!