صبح ہی صبح بلند آواز سے کلمہ شریف کا وِرد کرتا ہُوا جنازہ گلی میں سے گزرا تو مَیں بھاگ کر ٹیرس پر آگیا۔ نیچے جھانک کر دیکھا تو چند لوگ رخصت ہونے والے اپنے عزیز کی میت اُٹھائے آہستہ آہستہ جناز گاہ کی طرف جا رہے تھے۔ فضا میں کافور کی نمناک مہک پھیل گئی تھی۔ نمازِ فجر کے وقت ہماری مسجد سے اعلان ہُوا تھا کہ فلاں شخص اللہ کو پیارا ہو گیا ہے۔ یہ جنازہ اُنہی مرحوم کا تھا۔
جنازہ جہاں بھی دیکھوں تو میری کوشش ہوتی ہے اس میں ضرور شرکت کروں، اس سوچ اور نیت کے ساتھ کہ شائد کوئی اللہ کا بندہ ہمارے جنازے میں بھی شرکت کرے گا تو اُس کی دعاؤں کے طفیل شائد ہماری بھی مغفرت ہو جائے۔ گلی میں سے گزرتا جنازہ دیکھا تو دل میں ایک ہوک سی اُٹھی۔ دل نے بڑا چاہا کہ بھاگ کر جاؤں اور رحلت کرنے والے کو کندھا دُوں مگر حکومتی احکامات اور کورونا وائرس کی دہشت نے میرے قدم روک لیے۔
خیال آیا کہ اگر قیامت کے اِن ایام میں ہمیں بھی بلاوا آ جائے تو کیا ایسے ہی خیالات ہمارے احباب اور میل ملاقات رکھنے والوں کے نہیں ہوں گے؟ آزمائش کی عجب گھڑیاں ہیں۔ زندگی کے آخری ’پروٹوکول، میں عزیز از جاں دوست احباب کی الوداعی دعائیں بھی نہ مل سکیں تو اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے!یہ خیال ہی افسردہ کر دیتا ہے۔
اس عالمِ افسردگی میں اخبار آیا تو صفحہ اوّل پر شایع ایک نمایاں خبر دیکھ کر دل مزید غم کی گہرائیوں میں ڈُوب گیا۔ ہمارے عزیز دوست اور وطنِ عزیز کے نامور اخبار نویس جناب احفاظ الرحمن اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ وہ گذشتہ کچھ عرصہ سے خاصے علیل تھے۔ سرطان کے عارضے نے جان کو پکڑ لیا تھا۔ بہادری اور صبر سے مقابلہ کیا لیکن بالآخر مرض نے زندگی کو پچھاڑ ڈالا۔ اُن کی موت نے دل کو جکڑ رکھا ہے۔ احفاظ صاحب مرحوم کمٹڈ اور نظرئیے کے حامل اخبار نویس تھے۔
ساری زندگی قلم و قرطاس کی دُنیا کی نذر کیے رکھی۔ حلال کمایا اور حلال ہی کی تبلیغ کی۔ آمر حکمرانوں اور استحصالی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ قید و بند کی صعوبتیں بھی مسکراتے ہُوئے برداشت کیں لیکن کبھی کمزوری دکھائی نہ استحصالی قوتوں کے سامنے سرنڈر کیا۔ کتابیں لکھیں اور اعلیٰ درجے کی شاعری سے قارئین کا شعور بلند کرنے کی اپنی سی کوششیں کرتے رہے۔ کرنٹ افیئرز پر اُن کی لکھی نظمیں ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ صحافیانہ سیاست کے حوالے سے منعقدہ کئی اجلاسوں میں کئی بار اُن سے ملاقاتیں رہیں۔ ہر ملاقات دلکش اور دلکشا تھی۔ ان کی یاد اور بازگشت اب بھی ذہن کے ایوانوں میں گونج رہی ہے۔
کئی برس "ایکسپریس" کے میگزین ایڈیٹر رہے۔ اپنی ممکنہ اور مقدور بھر کاوشوں سے میگزین کو منفرد اسلوب میں بناتے اور سنوارتے رہے۔ اُن کی مساعی جمیلہ سے "ایکسپریس" کا میگزین ملک کا ممتاز ترین جریدہ بن گیا تھا۔ ہم عصر چاہنے والے اور حریف، دونوں ہی اُن کی میگزین مہارتوں کی داد دیتے۔ اُن کی صحافت، تصنیفات، شاعری، اُن کی نظریاتی زندگی ہی کا عکس ہیں۔ ایسے میگزین ایڈیٹرز اب شائد چند ایک ہی رہ گئے ہیں۔ اللہ کریم اُن کی مغفرت فرمائے۔
احفاظ الرحمن کی رخصتی کی خبر ایسے ایام میں دل کو ملول کر گئی ہے جب پاکستان کے ایک اور ممتاز اخبار نویس اور کالم نگار کے انتقال نے پہلے ہی دل میں ہلچل مچا رکھی تھی۔ سینئرصحافی دوست جناب سعید اظہر بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ اُن کی رحلت و رخصتی سے دل کی بستی ویران سی ہے۔ لاہور سے شایع ہونے والے کئی اخبارات و جرائد سے وابستہ رہے۔ مسلسل جدوجہد میں مصروف۔ جب بھی دیکھا، بغل میں کتابیں، رسالے اور اخبارات ہی دبائے دیکھے۔ لبوں پر سنجیدہ مسکراہٹ طاری رہتی۔ اچھے اور خوشحال دنوں کے خواب دیکھتے زندگی گزار دی۔ گلہ اور شکوہ کبھی نہ کیا۔ اُن کی زبان میں ہلکی سی لکنت تو تھی لیکن قلم میں نہیں۔
ملاقات ہوتی تو فرماتے : اینیاں کتاباں کِنج خرید لیندے او تسیں؟ مجھے نہیں معلوم زیڈ اے بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے اُن کی محبت کا آغاز کب اور کیسے ہُوا لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ جان، جانِ آفریں کو سپرد کرتے تک وہ ان دونوں قومی شخصیات، جنھیں بیدردی سے قتل کر دیا گیا، کی محبت و اُلفت سے دستکش نہیں ہُوئے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اس محبت کی قدر افزائی میں کمی نہیں کی۔ اُن کا شکریہ ہم پر واجب ہے۔"پیمرا" کے چیئرمین جناب سلیم بیگ سے فون پر ملاقات ہُوئی تو وہ بڑے اچھے الفاظ میں مرحوم سعید اظہر کو یاد کرتے رہے۔
مرحوم کی بیماری کے ایام میں بھی سلیم بیگ صاحب نے محبت سے اُن کی اسپتال میں متعدد بار خبر گیری کی۔ یہ دیکھ کر دل ہنوذ افسردہ ہے کہ سعید اظہر ایسے سینئر، درویش صفت اور دیانتدار صحافی کی موت کی خبر کئی اخبارات نے محض سنگل کالم لگائی۔ ایک اخبار میں اُن کے جنازے کی تفصیلات پڑھیں تو اور بھی دل بجھا۔ جنازے کے شرکت کنندگان میں لاہور کی کوئی ایک بھی اہم سیاسی اور صحافتی شخصیت موجود نہیں تھی۔ شائد کورونا قیامت کے اثرات تھے۔
تنہائی اور افسردگی کے اِنہی ایام میں پروفیسر حفیظ الرحمن احسن اور پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق بھی ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ حفیظ الرحمن احسن کی نِمی نِمی مسکراہٹ اور اُن کی گرجتی شاعری یاد آ رہی ہے۔ جناح کیپ اور سیاہ اچکن پہننے والے احسن صاحب کا تعلق جماعتِ اسلامی سے تھا اور بڑا ہی گہرا۔ کئی برس قبل ایم اے او کالج لاہور سے متصل واقع ہمارے اخباری دفتر تشریف لاتے تو قلب و ذہن مہک اُٹھتے۔
اُن دنوں محترمہ بے نظیربھٹو برسرِ اقتدار تھیں اور احسن صاحب اُن کے خلاف اپنے قلم کو تلوار بنائے گرج رہے تھے۔ وہ بی بی صاحبہ اور اُن کی حکومت کے خلاف نئی نظم لکھتے اور تحفتاً مجھے عنائت فرماتے۔ اپنے مالک ایڈیٹر کی اجازت سے مَیں اِسے نمایاں انداز میں شایع کرتا۔ بہترین کاتب نذیر احمد صاحب اُنکی نظموں کی کتابت کرتے۔ واقعہ یہ ہے کہ حفیظ الرحمن احسن صاحب مرحوم کی ان آتشیں اور شوریدہ نظموں نے ہمارے جریدے کے قارئین کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ لاہور کے مشہور اُردو بازار کی ایک بڑی سی عمارت کی دوسری منزل میں اُن کا دفتر تھا۔ یہاں وہ کتابوں کا کاروبار بھی کرتے تھے اور اپنا مشہور اور معتبر ادبی جریدہ "سیارہ" بھی شایع کرتے۔
"سیارہ " کی تحریروں کی دھوم بھارت تک پہنچی ہُوئی تھی۔ احسن صاحب کی موت نے دل پر زخم لگا دیا ہے۔ پروفیسر سلیم منصور خالد اور پروفیسر خالد ہمایوں ایسے صاحبانِ علم سے احسن صاحب مرحوم کی یادیں تازہ کرکے دل کو دلاسہ دے دیا ہے۔ قائد اعظم ؒ کے دیدار کا شرف رکھنے والے اور تحریکِ پاکستان کے عظیم سپاہی ڈاکٹر محمد رفیق بھی رفیقِ اعلیٰ سے جاملے ہیں۔ وطنِ عزیز کے نامور ماہراقتصادیات، کئی کتابوں کے مصنف اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق صاحب مرحوم نے مرتے دَم تک تحریکِ پاکستان اور نظریہ پاکستان کا پرچم تھامے رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان سب ہستیوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔