ہمارے ایک قریبی بزرگ عزیز اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں رہتے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ خاصے معروف ٹیکسٹائل انجینئر رہے ہیں۔ اب ریٹائرمنٹ کی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ بیٹا سینئر سرکاری افسر ہے اور بیٹی و بہو ڈاکٹر ہیں۔ پچھلے ہفتے اُن کی طبیعت اچانک بگڑنے لگی۔
بخار اور شدید کھانسی میں بغیر کسی وقفے کے اضافہ ہونے لگا تو کورونا ٹیسٹ کروایا جو مثبت آیا۔ اس سے پہلے کہ معاملہ زیادہ گمبھیر ہوجاتا، فوری طور پر اسلام آباد کے ایک مشہور نجی اسپتال، جو اپنے مہنگے علاج کی وجہ سے بھی خاصا معروف ہے، میں لے جائے گئے۔ اسپتال مذکور نے چند گھنٹے اپنے ہاں داخل کیا اور پھر زبردستی فارغ کر دیا کہ گھر میں علاج زیادہ مناسب رہے گا۔ ساتھ ہی اشارتاً بتا بھی دیا کہ ہم کورونا کے مریضوں کو داخل نہیں کرتے۔ گھر والے مجبوراً انھیں گھر لے آئے۔
دوسرے روز مگر بعد از دوپہر انھیں سانس لینے میں خاصی دشواری ہونے لگی تو اُن کا بیٹا وفاقی دارالحکومت کے مرکزی سرکاری اسپتال میں انھیں لے گیا۔ رات کو مگر اس سرکاری اسپتال نے بھی انھیں ڈسچارج کر دیا، حالانکہ مریض کے لواحقین ابھی انھیں اسپتال میں رکھنے پر اصرار کررہے تھے لیکن اُن کی نہیں مانی گئی۔
ایک بار پھر مجبوراً مریض کو گھر لے کر آنا پڑا مگر سانس لینے میں آسانی پیدا نہیں ہو رہی تھی؛ چنانچہ عالمِ جبر میں گھر ہی میں آکسیجن سلنڈر لایا گیا۔ بیٹی اور بہو چونکہ خود ڈاکٹرز ہیں، اس لیے آکسیجن دینے میں کوئی پرابلم نہیں تھا۔ لیکن ایک باقاعدہ اسپتال میں جو انتظامات ہو سکتے ہیں اور مریض کی جو ٹیک کیئر ہو سکتی ہے، گھر میں کہاں؟ مریض کی حالت جب سنبھل نہ سکی تو ایک بڑے ادارے کے افسر کی سفارش پر انھیں راولپنڈی کے ایک اور سرکاری اسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ یہ سطور لکھنے تک ہمارے یہ بزرگ عزیز اسپتال ہی میں داخل ہیں۔ اللہ سے اُن کی جلد صحتیابی کے لیے دعا ہے۔
اپنی فیملی کا یہ قصہ راقم نے دانستہ لکھا ہے۔ اس کہانی سے چند ضروری سوالات منسلک ہیں۔ پہلا اور بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے یہ عزیز جنھیں روپے پیسے کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، گھر میں بھی ڈاکٹرز دستیاب ہیں اور بیٹا بھی سرکاری افسر ہے، اس حیثیت کا حامل شخص کورونا مرض کا شکار ہو کر اگر علاج معالجے میں اتنی دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہے تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عام غریب اور بے نوا پاکستانی اگر خدانخواستہ کورونا( کووِڈ19)کا شکار ہوجاتا ہے تو اُسکی سرکاری و نجی اسپتالوں میں کیا درگت بنتی ہو گی۔
حکومت کورونا کی نئی لہر کے بارے میں بڑے بڑے اعلانات کررہی ہے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اُس نے سرکاری اسپتالوں میں کورونا سے نمٹنے کے لیے مناسب انتظامات اور بندوبست کر لیے ہیں؟ یا پھر حکومت کا زور صرف اس بات پر ہے کہ "پی ڈی ایم " کی شکل میں اپوزیشن کو کورونا سے ڈرا کر جلسے کرنے سے باز رکھا جائے؟ حکومت نے اسمارٹنس کا مظاہرہ یوں بھی کیا ہے کہ پہلے اپنے جلسے تو خوب کر لیے۔ اسلام آباد میں اپنے ٹائیگروں کے بڑے اجتماع سے خطاب بھی فرما لیا گیا۔
گلگت بلتستان میں وزیر اعظم اور اُن کے وزرا نے کئی جلسوں سے خطاب بھی کیا لیکن کسی ایک جگہ بھی کورونا سے بچنے کی تاکید کی گئی نہ تلقین اور نہ مجوزہ ایس او پیز پر عمل کیا گیا۔ اب جب کہ حکومت گلگت بلتستان کے انتخابات میں فتح حاصل کر کے خاصے اطمینان اور شانتی میں ہے، پی ڈی ایم کی قیادت پر زور اور دباؤڈالا جارہا ہے کہ اپنے جلسے منسوخ کیے جائیں۔
حکومت نے پشاور میں "پی ڈی ایم " کے جلسے کی اجازت دینے اور این او سی جاری کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ لیکن پی ڈی ایم کے سربراہ، حضرت مولانا فضل الرحمن، اور اُن کے سینئر قریبی ساتھیوں نے حکومت کے انکار بارے میں جو لہجہ اختیار کیا ہے، اُسی سے عیاں ہو گیا تھا کہ پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ رکنے والا نہیں ہے۔ ابھی تو "پی ڈی ایم" والے ملتان اور لاہور میں بھی طے شدہ اعلانات کے مطابق جلسے کرنے کا مستحکم عندیہ دے رہے ہیں۔
اتوار کی صبح جب یہ کالم لکھا جارہا ہے، پشاور میں پی ڈی ایم کے جلسے کی تیاریوں کا طبل بج رہا ہے۔ شام تک پی ڈی ایم کے اس جلسے کی کیا شکل و صورت بنتی ہے، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کورونا کی نئی مہلک لہر کے بارے میں حکومت جو بھی موقف اختیار کررہی ہے، اس وائرس سے بچنے کے لیے جو بھی حفاظتی تدابیر کی تبلیغ کررہی ہے، اس سے اختلاف کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے یہ جو "پروپیگنڈہ" کیا جارہا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے معاملے میں اپوزیشن حکومت سے تعاون نہیں کررہی، اس میں کہاں تک سچائی ہے؟ کیا شائستگی، کمٹمنٹ اور سنجیدگی کے ساتھ حکومت اور حکمرانوں نے "پی ڈی ایم" قیادت کے پاس جا کر اس بارے مذاکرات کرنے کا کوئی عملی مظاہرہ کیا؟ اس وقت ملک کے حکمران جناب عمران خان ہیں۔
کیا انھوں نے، پہل کرتے ہُوئے، اپنی نجی حیثیت میں اپوزیشن قیادت سے مذاکرات یا ملاقات کا ڈول ڈال کر کورونا کی نئی لہر کے انسداد کی کوئی ایک بھی کوشش کی ہے؟ خانصاحب کورونا کی بنیاد پر پی ڈی ایم کو مطعون تو مسلسل کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے اُن کی طرف سے پی ڈی ایم سے مصافحہ یا معانقہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بروئے کار نہیں آ سکی ہے۔
ملک اور قوم کی مجموعی صحت اور بہتری کے لیے اگر وزیر اعظم صاحب اپنی "مونچھ" کو ذرا سے جھکا کر اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے پر تیار نہیں ہیں تو پھر حکومت اور اس کے وزراصاحبان پی ڈی ایم سے تعاون کی توقع کیسے اور کیونکر کر سکتے ہیں؟ پھر ردِ عمل میں مولانا فضل الرحمن صاحب طنزاً یہ کہتے ہُوئے سنائی دیتے ہیں: "یہ حکمران بذاتِ خود بڑا کورونا ہیں۔ اس کووِڈ18سے نجات مل جاتی ہے تو پورا ملک صحتمند ہو جائے گا"۔
حکومت نے بس "پی ڈی ایم" بارے دہائی مچا رکھی ہے کہ یہ لوگ جلسے جلوس کر کے ملک میں کورونا کے اضافے کا سبب بن جائیں گے لیکن ملک بھر کے بقیہ شعبوں میں کورونا کی نئی لہر کے انسداد اور اس سے بچاؤ کے لیے حکومت اور اس کے متعلقہ اہلکار مجرمانہ حد تک لاتعلق اور خاموش ہیں۔ وطنِ عزیز میں مجموعی طور پر (سرکاری دباؤ میں ) کورونا سے بچاؤ کے لیے جو حفاظتی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں، نہیں کی جارہیں۔ مساجد میں امام صاحبان نے بھی فیس ماسک پہننا ترک کر دیا ہے اور تقریباً سبھی مقتدیوں نے بھی۔ ہمارے محلہ کی مسجد میں نمازیوں نے دانستہ باہمی فاصلے پر کھڑا ہونا چھوڑ دیا ہے۔
فرش پر لگائے گئے فاصلاتی نشانات ختم کر دیے گئے ہیں۔ مسجد کو کیمیکل ملے پانی سے دھونا موقوف کیا جا چکا ہے۔ مجھے گزشتہ کچھ دنوں کے دوران لاہور، سیالکوٹ اور اسلام آباد کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کے مواقع ملے ہیں۔ ہر جگہ مشاہدے میں یہ بات آئی کہ بس کمپنیوں کی طرف سے اس بات کا سختی سے اہتمام ہی نہیں کیا جاتا کہ مسافر حضرات فیس ماسک ضرور پہنیں۔ تقریباً90فیصد مسافروں کو راقم نے بغیر فیس ماسک بسوں میں بیٹھے دیکھا ہے۔ کنڈکٹر ز اور ڈرائیورز خود بھی ماسک پہننے کے "تکلفات" سے بے نیاز پائے گئے۔ کسی بھی بس میں مجھے سینی ٹائزر کا استعمال نظر نہیں آیا۔ بس میں داخل ہوتے وقت بس ہوسٹس نے بھی اس بارے کچھ نہیں پوچھا۔ نئی کورونا لہر بارے یہ ہے حکومت کی سنجیدگی کا عالم!!