ڈاکٹر عائشہ جلال، ڈاکٹر مبارک علی اور حمزہ علوی ہمارے وہ قابلِ فخر اور ذہین مورخین، مصنفین اور تجزیہ کار ہیں جنہوں نے اپنے قارئین کے سیاسی اورتاریخی شعور کو بلند اور ادبی ذوق کو مستحکم کرنے کی سخت جدوجہد کی ہے۔ اپنی تصنیفات، مضامین اور تقاریر کے ذریعے انھوں نے جو بھی اور جہاں بھی قدم اُٹھایا ہے، رابطہ اور کوشش کی جائے تو اس جدوجہد کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ جلال نے تاریخِ پاکستان اور قائد اعظم ؒ کی جدوجہد تک خود کو محدود کررکھا ہے لیکن انھیں ان موضوعات پر تخصص حاصل ہے۔ اُن کی سخت محنت اور تحقیقی مشقت رائیگاں نہیں گئی۔ ہمارے تحقیقی، تعلیمی اور صحافتی ادارے تو انھیں مدعو کرنے کی کم کم ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن مغربی ادارے اور امریکی جامعات اُن سے بھرپور مستفید ہو رہی ہیں۔ بلند پایہ دانشور حمزہ علوی، جنہوں نے پولیٹیکل اکانومی پر بے نظیر کتابیں لکھی ہیں، کی تو آواز بھی کم کم سنائی دیتی ہے، چہ جائیکہ اُن کی دانش کے موتیوں سے اپنی جھولیاں بھری جائیں۔
درجنوں کتابوں کے مصنف اور مورّخ ڈاکٹر مبارک علی کی مخالفت کم نہیں ہے۔ جرمنی کی ایک ممتاز یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ڈاکٹر موصوف سندھ کی ایک جامعہ سے نکل کر پنجاب کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہُوئے تو وائس چانسلر نے اُن کے پاؤں ٹکنے نہ دیے ( ان صاحب کا حال ہی میں انتقال ہُوا ہے) ایک مذہبی طلبا تنظیم، جن سے وی سی صاحب بھی خوفزدہ رہتے تھے، کا دباؤ اتنا بڑھا کہ آخر ڈاکٹر صاحب نے یونیورسٹی سے نکلنے ہی میں خیریت سمجھی۔ یہ داستان خود محترم مبارک علی نے مجھے سنائی تھی۔
بہ امرمجبوری انھیں کچھ عرصے کے لیے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں نوکری کرنا پڑی۔ وطنِ عزیز میں بدقسمتی سے انھیں جو علم دشمن ماحول ملا، وہ اگر بے ہمت ہو کر اس کے سامنے سرنڈر کر جاتے اور واپس جرمنی بھاگ جاتے تو شائد ہم اُس علمی سرمائے سے بھی محروم ہو جاتے جو آج کئی کتابوں کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ کورونا وائرس کے پیدا کردہ یاس کے اِن ایام میں ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیفات کو پھر سے پڑھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے مواقعے مل رہے ہیں۔ ڈھائی سو صفحات پر مشتمل "تاریخ کی آواز" بھی ان میں شامل ہے۔
میرے پاس2005ء میں شایع ہونے والا اس کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ پروف کی لاتعداد اور شرمناک غلطیاں ہونے کے باوجود اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے کا اتفاق ہُوا ہے۔ اس کتاب میں 48چھوٹے چھوٹے مضامین ہیں لیکن نہائت دلچسپ اور رُوح افزا۔"نپولین : آمروں کے لیے بطور ماڈل" مضمون بھی اِنہی مضامین کا ایک حصہ ہے۔"تاریخ کی آواز " کتاب میں شامل اس آرٹیکل( صفحہ 182) میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں :"اپنے اختیارات کو اخلاقی جواز دینے اور مخالفت کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پروپیگنڈہ اور پبلسٹی کو اختیار کیا جائے۔
اس موقع پر حب الوطنی اور قوم پرستی کا درس دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی نظریں دھندلا جائیں اور وہ حقائق کو نہ دیکھ سکیں۔ پبلسٹی کی غرض سے (فرانسیسی حکمران) نپولین نے سب سے پہلے پریس کو کنٹرول کیا۔ اخبارات پر سنسر شپ کی پابندیاں لگا دی گئیں۔ صرف اُن خبروں کے چھپنے کی اجازت تھی جو نپولین کے حق میں ہوتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہُوا کہ فرانس کے اخباروں میں اُس کی فتوحات کی خبریں تو چھپتی تھیں مگر شکستوں کی نہیں۔ مثلاً، اہلِ فرانس کو عرصہ تک یہ علم ہی نہیں ہُوا تھا کہ ٹرافلگر کی جنگ میں انھیں (نپولین کی وجہ سے) شکست ہو گئی ہے۔"
ڈاکٹر مبارک علی اِسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں :"نپولین کے سخت احکامات کے تحت فرانس میں سنسر شپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخبارات کی تعداد کم ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ جب ہر اخبار ایک ہی قسم کی خبریں اور مضامین چھاپنے لگے تو لوگوں کے لیے ان اخبارات میں پڑھنے کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ اور فرانس کے وہ تمام اخبار جو نپولین پر تنقید کرتے تھے، سنسر شپ کی زَد میں آ کر ایک ایک کرکے بند ہو گئے، یہاں تک کہ 1810ء میں فرانس میں صرف چار اخبار رہ گئے۔ اور یہ چاروں اخبار بھی وہ تھے جو حکومت کی خوشامد کرتے تھے اور حکمران نپولین کی مرضی کی خبریں چھاپتے تھے۔
نپولین کے دَور میں سنسر شپ کی پابندیاں صرف روزنامہ اخبارات تک ہی نہیں رہیں بلکہ جرائد اور رسالوں پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ جب نپولین برسرِ اقتدار آیا تو اُس وقت فرانس کے مختلف شہروں سے تقریباً 100رسالے شایع ہوتے تھے۔ نپولین نے ان سب پر پابندیاں لگا دیں اور یہ اعلان کر دیا کہ حکومت خود اپنا رسالہ شایع کیا کرے گی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں لوگوں کے لیے معلومات کے تمام دروازے بند ہو گئے، سوائے حکومتی ذرایع کے لیکن بات یہاں بھی آ کر نہیں رُکی۔ ناشرین پر پابندیاں لگائی گئیں کہ وہ کوئی کتاب حکومت کی اجازت کے بغیر چھاپ نہیں سکتے۔
نپولین نے ملک بھر میں ناشرین کی تعداد کم کرکے صرف 60کر دی۔ ان پابندیوں کا نتیجہ یہ ہُوا کہ فرانس میں دانشوری کی روایات کا خاتمہ ہو گیا۔ ملک میں صرف وہی دانشور بچے جوریاست اور حکمران کی خوشامد کرتے تھے۔ کسی شخص کے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ نپولین پر تنقید کرے یا اُس کی مخالفت میں آواز اُٹھائے۔" نپولین، جس نے شکست خوردگی کے بعد زندگی کے آخری ایام سینیٹ ہیلینا کے جزیرے میں بطور قیدی گزارے، نے ملک میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اخبارات، صحافت اور صحافیوں کا گلہ گھونٹنے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین پر بھی سخت ہاتھ ڈالا۔
اس بارے ڈاکٹر مبارک علی اپنے مذکورہ آرٹیکل میں یوں رقمطراز ہیں : "نپولین کے تیار کردہ افراد کو یہ اختیار تھا کہ وہ بغیر کسی اطلاع کے گھروں میں داخل ہو کر تلاشی لے سکتے تھے۔ کسی کو بھی محض شک کے گرفتار کیا جا سکتا تھا اور بغیر مقدمہ جیل میں رکھا جا سکتا تھا۔ اپنے امیج کو مقبول بنانے کے لیے نپولین نے اخباری پروپیگنڈہ کے علاوہ مصوری کو بھی استعمال کیا ؛ چنانچہ ڈیوڈ اور گیری ایسے مصوروں نے اُس کی جو تصاویر بنائیں، اُن میں وہ گھوڑے پر سوار بطور فاتح دُنیا پر حکومت کرتا نظر آتا ہے۔
نپولین نے فرانسیسی انقلاب کے تمام نعروں کا استعمال بند کر دیا (جن میں غریب عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے وعید کیے گئے تھے)یہ نعرے لوگوں میں مساوات، اخوت اور آزادی کا شعور بھی دیتے تھے۔ نپولین نے اندازہ لگا لیا تھا کہ غریب اور جاہل عوام کو محض خوبصورت نعروں اور حب الوطنی کے جذبات سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اُس نے اپنے قریبی دوستوں اور وفاداروں کو حکومت کے اعلیٰ عہدے دیے۔"
ڈاکٹر مبارک علی تاسف سے لکھتے ہیں :"تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جس نپولین نے اپنے ملک کو تباہ و برباد کر دیا، ہزارہا لوگوں کو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے قربان کر دیا، اہلِ فرانس اُسے اپنا ہیرو اور عظیم شخصیت قرار دیتے ہیں۔"